صحيح البخاری - مساقات کا بیان - حدیث نمبر 421
حَدَّثَنِي أَبُو بَکْرِ بْنُ النَّضْرِ بْنِ أَبِي النَّضْرِ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو النَّضْرِ هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ حَدَّثَنَا أَبُو عَقِيلٍ صَاحِبُ بُهَيَّةَ قَالَ کُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ الْقَاسِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ وَيَحْيَی بْنِ سَعِيدٍ فَقَالَ يَحْيَی لِلْقَاسِمِ يَا أَبَا مُحَمَّدٍ إِنَّهُ قَبِيحٌ عَلَی مِثْلِکَ عَظِيمٌ أَنْ تُسْأَلَ عَنْ شَيْئٍ مِنْ أَمْرِ هَذَا الدِّينِ فَلَا يُوجَدَ عِنْدَکَ مِنْهُ عِلْمٌ وَلَا فَرَجٌ أَوْ عِلْمٌ وَلَا مَخْرَجٌ فَقَالَ لَهُ الْقَاسِمُ وَعَمَّ ذَاکَ قَالَ لِأَنَّکَ ابْنُ إِمَامَيْ هُدًی ابْنُ أَبِي بَکْرٍ وَعُمَرَ قَالَ يَقُولُ لَهُ الْقَاسِمُ أَقْبَحُ مِنْ ذَاکَ عِنْدَ مَنْ عَقَلَ عَنْ اللَّهِ أَنْ أَقُولَ بِغَيْرِ عِلْمٍ أَوْ آخُذَ عَنْ غَيْرِ ثِقَةٍ قَالَ فَسَکَتَ فَمَا أَجَابَهُ
اسناد حدیث کی ضرورت کے بیان میں اور راویوں پر تنقید کی اہمیت کے بارے میں کہ وہ غیبت محرمہ نہیں ہے۔
ابوبکر بن نضر بن ابی نضر، ابونضر، ہاشم، حضرت ابوعقیل (یحیی بن متوکل ضریر) جو کہ مولیٰ تھا بہیہ کا (بہیہ ایک عورت ہے جو حضرت عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں) نے فرمایا کہ میں قاسم بن عبیداللہ اور یحییٰ بن سعید کے پاس بیٹھا تھا یحییٰ نے قاسم سے کہا کہ اے ابومحمد آپ جیسے عظیم الشان عالم دین کے لئے یہ بات باعث عار ہے کہ آپ سے دین کا کوئی مسئلہ پوچھا جائے اور آپ کو اس کا نہ کچھ علم ہو نہ اس کا حل اور نہ ہی اس کا جواب۔ قاسم نے پاچھا کیوں باعث عار ہے؟ یحییٰ نے کہا اس لئے کہ آپ دو بڑے بڑے اماموں ابوبکر وعمر کے بیٹے ہیں (قاسم ابوبکر کے نواسے اور فاروق اعظم کے پوتے ہیں) قاسم نے کہا کہ یہ بات اس سے بھی زیادہ باعث عار ہے اس شخص کے لئے جس کو اللہ نے عقل عطاء فرمائی ہو کہ میں بغیر علم کوئی بات کہوں یا میں اس شخص سے روایت کروں جو ثقہ نہ ہو یہ سن کر یحییٰ خاموش ہوگئے اور اس کا کوئی جواب نہ دیا۔
Abū Bakr ibn in-Naḍr bin Abīn-Naḍr narrated to me, he said Abūn-Naḍr Hāshim bin ul-Qāsim narrated to me, Abū Aqīl, companion of Buhayyah, narrated to us, he said: ‘I was sitting near al-Qāsim bin Ubayd Allah and Yahyā bin Sa’īd [bin Qays al-Madanī al-Qāḍī], when Yahyā said to al-Qāsim: ‘Oh Abā Muhammad! Indeed it is gravely harmful for the likes of you to be asked about something from the affair of this Dīn, and then knowledge of it is not found with you, and no relief [in the form of an answer]’ -or- ‘…knowledge and no articulation’. So al-Qāsim said [to Yahyā bin Sa’īd]: ‘Where did that come from?’ [Yahyā] said: ‘It is because you are the son of two Imāms of guidance- a descendent of Abu Bakr and Umar.’ [al-Qāsim] said to him: ‘More harmful than that- according to whoever reflects about Allah- is to speak without knowledge or to take [Ḥadīth] from someone who is not trustworthy’. [Abū Aqīl] said: ‘So [Yahyā bin Sa’īd] was quiet and did not respond to him’.
Top