صحیح مسلم - منافقین کی صفات اور ان کے احکام کا بیان - حدیث نمبر 7066
حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ أَبِي الضُّحَی عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ کُنَّا عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ جُلُوسًا وَهُوَ مُضْطَجِعٌ بَيْنَنَا فَأَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِنَّ قَاصًّا عِنْدَ أَبْوَابِ کِنْدَةَ يَقُصُّ وَيَزْعُمُ أَنَّ آيَةَ الدُّخَانِ تَجِيئُ فَتَأْخُذُ بِأَنْفَاسِ الْکُفَّارِ وَيَأْخُذُ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ کَهَيْئَةِ الزُّکَامِ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ وَجَلَسَ وَهُوَ غَضْبَانُ يَا أَيَّهَا النَّاسُ اتَّقُوا اللَّهَ مَنْ عَلِمَ مِنْکُمْ شَيْئًا فَلْيَقُلْ بِمَا يَعْلَمُ وَمَنْ لَمْ يَعْلَمْ فَلْيَقُلْ اللَّهُ أَعْلَمُ فَإِنَّهُ أَعْلَمُ لِأَحَدِکُمْ أَنْ يَقُولَ لِمَا لَا يَعْلَمُ اللَّهُ أَعْلَمُ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ لِنَبِيِّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْ مَا أَسْأَلُکُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنْ الْمُتَکَلِّفِينَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا رَأَی مِنْ النَّاسِ إِدْبَارًا فَقَالَ اللَّهُمَّ سَبْعٌ کَسَبْعِ يُوسُفَ قَالَ فَأَخَذَتْهُمْ سَنَةٌ حَصَّتْ کُلَّ شَيْئٍ حَتَّی أَکَلُوا الْجُلُودَ وَالْمَيْتَةَ مِنْ الْجُوعِ وَيَنْظُرُ إِلَی السَّمَائِ أَحَدُهُمْ فَيَرَی کَهَيْئَةِ الدُّخَانِ فَأَتَاهُ أَبُو سُفْيَانَ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنَّکَ جِئْتَ تَأْمُرُ بِطَاعَةِ اللَّهِ وَبِصِلَةِ الرَّحِمِ وَإِنَّ قَوْمَکَ قَدْ هَلَکُوا فَادْعُ اللَّهَ لَهُمْ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَائُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ يَغْشَی النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ إِلَی قَوْلِهِ إِنَّکُمْ عَائِدُونَ قَالَ أَفَيُکْشَفُ عَذَابُ الْآخِرَةِ يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْکُبْرَی إِنَّا مُنْتَقِمُونَ فَالْبَطْشَةُ يَوْمَ بَدْرٍ وَقَدْ مَضَتْ آيَةُ الدُّخَانِ وَالْبَطْشَةُ وَاللِّزَامُ وَآيَةُ الرُّومِ
دھوئیں کے بیان میں
اسحاق بن ابراہیم، جریر، منصور ابی ضحی، عبداللہ حضرت مسروق ؓ سے روایت ہے کہ ہم حضرت عبداللہ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے اور وہ ہمارے درمیان لیٹے ہوئے تھے کہ ان کے پاس ایک آدمی نے آکر عرض کیا اے ابوعبدالرحمن کندہ کے دروازوں کے پاس ایک قصہ گو بیان کر رہا ہے اور گمان کرتا ہے کہ قرآن میں جو دھوئیں کی آیت ہے وہ دھواں آنے والا ہے پس وہ کفار کی سانسوں کو روک لے گا اور مومنین کے ساتھ صرف زکام کی کیفیت پیش آئے گی حضرت عبداللہ غصہ سے اٹھ بیٹھے پھر فرمایا اے لوگو اللہ سے ڈرو تم میں سے جو کوئی بات جانتا ہو تو وہ اپنے علم کے مطابق ہی بیان کرے اور جو بات نہیں جانتا تو کہے اللہ ہی بہتر جانتا ہے کیونکہ تم میں سب سے بڑا عالم وہی ہے جو جس بات کو نہ جانتا ہو اس کے بارے میں کہے اللہ ہی بہتر جانتا ہے پس بیشک اللہ رب العزت نے اپنے نبی ﷺ سے فرمایا آپ فرما دیں میں تم سے اس بات پر کوئی مزدوری نہیں مانگتا اور نہ میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں جب رسول اللہ ﷺ نے لوگوں میں سے بعضوں کی رو گردانی دیکھی تو فرمایا اللہ نے ان پر سات سالہ قحط نازل فرمایا جیسا کہ یوسف کے زمانہ میں سات سالہ قحط نازل ہوا تھا ابن مسعود ؓ نے کہا پس ان پر ایک سالہ قحط آیا جس نے ہر چیز کو ملیا میٹ کردیا یہاں تک کہ بھوک کی وجہ سے چمڑے اور مردار کھائے گئے اور ان میں سے جو کوئی آسمان کی طرف نظر کرتا تھا تو دھوئیں کی سی کیفیت دیکھتا تھا پس آپ ﷺ کے پاس ابوسفیان حاضر ہوئے اور عرض کیا اے محمد بیشک آپ اللہ کی اطاعت کرنے اور صلہ رحمی کرنے کا حکم دینے کے لئے تشریف لائے ہیں اور بیشک آپ ﷺ کی قوم و برادری تحقیق ہلاک ہوچکی آپ ﷺ اللہ سے ان کے لئے دعا مانگیں اللہ رب العزت نے فرمایا آپ ﷺ انتظار کریں اس دن کا جس دن کھلم کھلا دھواں ظاہر ہوگا جو لوگوں کو ڈھانپ لے گا یہ دردناک عذاب ہے بیشک تم لوٹنے والے ہو تک نازل فرمائیں تو انہوں نے کہا کیا آخرت کا عذاب دور کیا جاسکتا ہے تو اللہ عزوجل نے فرمایا جس دن ہم پکڑیں گے بڑی گرفت کے ساتھ بیشک ہم بدلہ لینے والے ہوں گے پس اس پکڑ سے مراد بدر کے دن کی پکڑ ہے اور دھوئیں اور لزام (یعنی بدر کی دن کی گرفت و قتل) اور روم کی علامات کی نشانیاں گزر چکی ہیں۔
Top