مسند امام احمد - ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی مرویات - حدیث نمبر 24702
ثُمَّ قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا مَرَّ بِبَابِي مِمَّا يُلْقِي الْكَلِمَةَ يَنْفَعُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِهَا فَمَرَّ ذَاتَ يَوْمٍ فَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا ثُمَّ مَرَّ أَيْضًا فَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا قُلْتُ يَا جَارِيَةُ ضَعِي لِي وِسَادَةً عَلَى الْبَابِ وَعَصَبْتُ رَأْسِي فَمَرَّ بِي فَقَالَ يَا عَائِشَةُ مَا شَأْنُكِ فَقُلْتُ أَشْتَكِي رَأْسِي فَقَالَ أَنَا وَا رَأْسَاهْ فَذَهَبَ فَلَمْ يَلْبَثْ إِلَّا يَسِيرًا حَتَّى جِيءَ بِهِ مَحْمُولًا فِي كِسَاءٍ فَدَخَلَ عَلَيَّ وَبَعَثَ إِلَى النِّسَاءِ فَقَالَ إِنِّي قَدْ اشْتَكَيْتُ وَإِنِّي لَا أَسْتَطِيعُ أَنْ أَدُورَ بَيْنَكُنَّ فَأْذَنَّ لِي فَلْأَكُنْ عِنْدَ عَائِشَةَ أَوْ صَفِيَّةَ وَلَمْ أُمَرِّضْ أَحَدًا قَبْلَهُ فَبَيْنَمَا رَأْسُهُ ذَاتَ يَوْمٍ عَلَى مَنْكِبَيَّ إِذْ مَالَ رَأْسُهُ نَحْوَ رَأْسِي فَظَنَنْتُ أَنَّهُ يُرِيدُ مِنْ رَأْسِي حَاجَةً فَخَرَجَتْ مِنْ فِيهِ نُطْفَةٌ بَارِدَةٌ فَوَقَعَتْ عَلَى ثُغْرَةِ نَحْرِي فَاقْشَعَرَّ لَهَا جِلْدِي فَظَنَنْتُ أَنَّهُ غُشِيَ عَلَيْهِ فَسَجَّيْتُهُ ثَوْبًا فَجَاءَ عُمَرُ وَالْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ فَاسْتَأْذَنَا فَأَذِنْتُ لَهُمَا وَجَذَبْتُ إِلَيَّ الْحِجَابَ فَنَظَرَ عُمَرُ إِلَيْهِ فَقَالَ وَا غَشْيَاهْ مَا أَشَدُّ غَشْيَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَامَا فَلَمَّا دَنَوَا مِنْ الْبَابِ قَالَ الْمُغِيرَةُ يَا عُمَرُ مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ كَذَبْتَ بَلْ أَنْتَ رَجُلٌ تَحُوسُكَ فِتْنَةٌ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَمُوتُ حَتَّى يُفْنِيَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْمُنَافِقِينَ ثُمَّ جَاءَ أَبُو بَكْرٍ فَرَفَعْتُ الْحِجَابَ فَنَظَرَ إِلَيْهِ فَقَالَ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ أَتَاهُ مِنْ قِبَلِ رَأْسِهِ فَحَدَرَ فَاهُ وَقَبَّلَ جَبْهَتَهُ ثُمَّ قَالَ وَا نَبِيَّاهْ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ ثُمَّ حَدَرَ فَاهُ وَقَبَّلَ جَبْهَتَهُ ثُمَّ قَالَ وَا صَفِيَّاهْ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ وَحَدَرَ فَاهُ وَقَبَّلَ جَبْهَتَهُ وَقَالَ وَا خَلِيلَاهْ مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَرَجَ إِلَى الْمَسْجِدِ وَعُمَرُ يَخْطُبُ النَّاسَ وَيَتَكَلَّمُ وَيَقُولُ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَمُوتُ حَتَّى يُفْنِيَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْمُنَافِقِينَ فَتَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ حَتَّى فَرَغَ مِنْ الْآيَةِ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ حَتَّى فَرَغَ مِنْ الْآيَةِ فَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ فَإِنَّ اللَّهَ حَيٌّ وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ فَقَالَ عُمَرُ وَإِنَّهَا لَفِي كِتَابِ اللَّهِ مَا شَعَرْتُ أَنَّهَا فِي كِتَابِ اللَّهِ ثُمَّ قَالَ عُمَرُ يَا أَيُّهَا النَّاسُ هَذَا أَبُو بَكْرٍ وَهُوَ ذُو شَيْبَةِ الْمُسْلِمِينَ فَبَايِعُوهُ فَبَايَعُوهُ
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی مرویات
پھر فرمایا کہ نبی ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب میرے گھر کے دروازے سے گزرتے تھے تو کوئی نہ کوئی ایسی بات کہہ دیتے تھے جس سے اللہ تعالیٰ مجھے فائدہ پہنچا دیتے تھے، ایک دن نبی ﷺ وہاں سے گزرے تو کچھ نہیں کہا، دو تین مرتبہ جب اسی طرح ہوا تو میں نے اپنی باندی سے کہا کہ میرے لئے دروازے پر تکیہ لگا دو اور میں اپنے سر پر پٹی باندھ کر وہاں بیٹھ گئی، جب نبی ﷺ میرے پاس سے گزرے تو فرمایا عائشہ! کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا میرے سر میں درد ہو رہا ہے، نبی ﷺ نے فرمایا میرے بھی سر میں درد ہو رہا ہے، پھر نبی ﷺ چلے گئے، تھوڑی دیر گزری تھی کہ نبی ﷺ کو لوگ چادر میں لپیٹ کر اٹھائے چلے آئے، نبی ﷺ میرے یہاں رہے اور دیگر ازواج کے پاس یہ پیغام بھجوا دیا کہ میں بیمار ہوں اور تم میں سے ہر ایک کے پاس باری باری آنے کی مجھ میں طاقت نہیں ہے اس لئے تم اگر مجھے اجازت دے دو تو میں عائشہ کے یہاں رک جاؤں؟ ان سب نے اجازت دے دی اور میں نبی ﷺ کی تیمارداری کرنے لگی حالانکہ اس سے پہلے میں نے کبھی کسی کی تیماداری نہیں کی تھی۔ ایک دن نبی ﷺ نے اپنا سر مبارک میرے کندھے پر رکھا ہوا تھا کہ اچانک سر مبارک میرے سر کی جانب ڈھک گیا میں سمجھی کہ شاید آپ میرے سر کو بوسہ دینا چاہتے ہیں، لیکن اسی دوران نبی ﷺ کے منہ سے لعاب کا ایک قطرہ نکلا اور میرے سینے پر آٹپکا، میرے تو رونگٹے کھڑے ہوگئے اور میں سمجھی کہ شاید نبی ﷺ پر غشی طاری ہوگئی ہے چناچہ میں نے نبی ﷺ کو ایک چادر اوڑھا دی، اسی دوران حضرت عمر اور مغیرہ بن شعبہ ؓ آگئے، انہوں نے اجازت طلب کی، میں نے انہیں اجازت دے دی اور اپنی طرف پردہ کھینچ لیا، حضرت عمر ؓ نے نبی ﷺ کو دیکھ کر کہا ہائے غشی! نبی ﷺ پر غشی کی شدت کتنی ہے، تھوڑی دیر بعد وہ اٹھ کھڑے ہوئے جب وہ دونوں دروازے کے قریب پہنچے تو مغیرہ بن شعبہ کہنے لگے اے عمر! نبی ﷺ کا وصال ہوگیا ہے، حضرت عمر ؓ نے فرمایا تم غلط کہتے ہو، بلکہ تم فتنہ پرور آدمی ہو، نبی ﷺ کا وصال اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک کہ اللہ تعالیٰ منافقین کی ختم نہ کر دے۔ تھوڑی دیر بعد حضرت صدیق اکبر ؓ بھی آگئے، میں نے حجاب اٹھا دیا، انہوں نے نبی ﷺ کی طرف دیکھ کر " اناللہ وانا الیہ راجعون " پڑھا اور کہنے لگے کہ نبی ﷺ کا وصال ہوگیا ہے۔ پھر سرہانے کی جانب سے آئے اور منہ مبارک پر جھک کر پیشانی کو بوسہ دیا اور کہنے لگے ہائے میرے نبی ﷺ! تین مرتبہ اسی طرح کیا اور دوسری مرتبہ ہائے میرے دوست اور تیسری مرتبہ ہائے میرے خلیل کہا، پھر مسجد کی طرف نکلے، اس وقت حضرت عمر ؓ لوگوں کے سامنے تقریر اور گفتگو کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ نبی ﷺ کا وصال اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک اللہ تعالیٰ منافقین کو ختم نہ فرما دے۔ پھر حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے گفتگو شروع کی اور اللہ کی حمدوثناء بیان کرنے کے بعد فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے " آپ بھی دنیا سے رخصت ہونے والے ہیں اور یہ لوگ بھی مرنے والے ہیں "۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ کہ " محمد ﷺ تو اللہ کے رسول ہیں جن سے پہلے بھی بہت رسول گذر چکے ہیں، کیا اگر وہ فوت ہوجائیں یا شہید ہوجائیں تو تم ایڑیوں کے بل لوٹ جاؤ گے "۔۔۔۔۔ سو جو شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ زندہ ہے اور جو شخص محمد ﷺ کی عبادت کرتا تھا تو وہ جان لے کہ وہ فوت ہوگئے ہیں، مذکورہ آیات سن کر حضرت عمر ؓ نے کہا کیا یہ آیات کتاب اللہ میں موجود ہیں؟ میرا شعور ہی اس طرف نہیں جاسکا کہ یہ آیت بھی کتاب اللہ میں ہی موجود ہے، پھر حضرت عمر ؓ نے فرمایا لوگو! یہ ابوبکر ہیں اور مسلمانوں کے بزرگ ہیں اس لئے ان کی بیعت کرلو، چناچہ لوگوں نے ان کی بیعت کرلی۔
Top