مسند امام احمد - عبداللہ بن عباس کی مرویات - حدیث نمبر 2124
حَدَّثَنَا عَفَّانُ أَخْبَرَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ أَخْبَرَنَا قَيْسُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ قَالَ كَتَبَ نَجْدَةُ بْنُ عَامِرٍ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ يَسْأَلُهُ عَنْ أَشْيَاءَ فَشَهِدْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ حِينَ قَرَأَ كِتَابَهُ وَحِينَ كَتَبَ جَوَابَهُ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَاللَّهِ لَوْلَا أَنْ أَرُدَّهُ عَنْ شَرٍّ يَقَعُ فِيهِ مَا كَتَبْتُ إِلَيْهِ وَلَا نَعْمَةَ عَيْنٍ قَالَ فَكَتَبَ إِلَيْهِ إِنَّكَ سَأَلْتَنِي عَنْ سَهْمِ ذَوِي الْقُرْبَى الَّذِي ذَكَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَنْ هُمْ وَإِنَّا كُنَّا نُرَى قَرَابَةَ رَسُولِ اللَّهِ هُمْ فَأَبَى ذَلِكَ عَلَيْنَا قَوْمُنَا وَسَأَلَهُ عَنْ الْيَتِيمِ مَتَى يَنْقَضِي يُتْمُهُ وَإِنَّهُ إِذَا بَلَغَ النِّكَاحَ وَأُونِسَ مِنْهُ رُشْدٌ دُفِعَ إِلَيْهِ مَالُهُ وَقَدْ انْقَضَى يُتْمُهُ وَسَأَلَهُ هَلْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْتُلُ مِنْ صِبْيَانِ الْمُشْرِكِينَ أَحَدًا فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَقْتُلْ مِنْهُمْ أَحَدًا وَأَنْتَ فَلَا تَقْتُلْ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تَعْلَمُ مَا عَلِمَ الْخَضِرُ مِنْ الْغُلَامِ الَّذِي قَتَلَهُ وَسَأَلَهُ عَنْ الْمَرْأَةِ وَالْعَبْدِ هَلْ كَانَ لَهُمَا سَهْمٌ مَعْلُومٌ إِذَا حَضَرُوا الْبَأْسَ وَإِنَّهُ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ سَهْمٌ مَعْلُومٌ إِلَّا أَنْ يُحْذَيَا مِنْ غَنَائِمِ الْمُسْلِمِينَ
عبداللہ بن عباس کی مرویات
یزید بن ہرمز کہتے ہیں ایک مرتبہ نجدہ بن عامر نے حضرت ابن عباس ؓ سے خط لکھ کر چند سوالات پوچھے، جس وقت حضرت ابن عباس ؓ اس کا خط پڑھ کر اس کا جواب لکھ رہے تھے، میں وہاں موجود تھا، حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا بخدا! اگر میں نے اسے اس شر سے نہ بچانا ہوتا جس میں وہ مبتلا ہوسکتا ہے تو میں کبھی بھی اسے جواب دے کر اسے خوش نہ کرتا۔ انہوں نے جواب میں لکھا کہ آپ نے مجھ سے ان ذوی القربی کے حصہ کے بارے پوچھا ہے جن کا اللہ نے ذکر کیا ہے کہ وہ کون ہیں؟ ہماری رائے تو یہی تھی کہ نبی ﷺ کے قریبی رشتہ دار ہی اس کا مصداق ہیں لیکن ہماری قوم نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا، آپ نے یتیم کے متعلق پوچھا ہے کہ اس سے یتیم کا لفظ کب ہٹایا جائے گا؟ یاد رکھئے! جب وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائے اور اس کی سمجھ بوجھ ظاہر ہوجائے تو اسے اس کا مال دے دیا جائے کہ اب اس کی یتیمی ختم ہوگئی، نیز آپ نے پوچھا ہے کہ کیا نبی ﷺ نے مشرکین کے کسی بچے کو قتل کیا ہے؟ تو یاد رکھئے! نبی ﷺ نے ان میں سے کسی کے بچے کو قتل نہیں کیا اور آپ بھی کسی کو قتل نہ کریں، ہاں! اگر آپ کو بھی اسی طرح کسی بچے کے بارے پتہ چل جائے جیسے حضرت خضر (علیہ السلام) کو اس بچے کے بارے پتہ چل گیا تھا جسے انہوں نے مار دیا تھا تو بات جدا ہے (اور یہ تمہارے لئے ممکن نہیں ہے) نیز آپ نے پوچھا ہے کہ اگر عورت اور غلام جنگ میں شریک ہوئے ہوں تو کیا ان کا حصہ بھی مال غنیمت میں معین ہے؟ تو ان کا کوئی حصہ معین نہیں ہے البتہ انہیں مال غنیمت میں سے کچھ نہ کچھ دے دینا چاہئے۔
Top