مسند امام احمد - عبداللہ بن عباس کی مرویات - حدیث نمبر 2365
حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي عَمْرَةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي قَوْلِهِ الم غُلِبَتْ الرُّومُ قَالَ غُلِبَتْ وَغَلَبَتْ قَالَ كَانَ الْمُشْرِكُونَ يُحِبُّونَ أَنْ تَظْهَرَ فَارِسُ عَلَى الرُّومِ لِأَنَّهُمْ أَهْلُ أَوْثَانٍ وَكَانَ الْمُسْلِمُونَ يُحِبُّونَ أَنْ تَظْهَرَ الرُّومُ عَلَى فَارِسَ لِأَنَّهُمْ أَهْلُ كِتَابٍ فَذَكَرُوهُ لِأَبِي بَكْرٍ فَذَكَرَهُ أَبُو بَكْرٍ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَا إِنَّهُمْ سَيَغْلِبُونَ قَالَ فَذَكَرَهُ أَبُو بَكْرٍ لَهُمْ فَقَالُوا اجْعَلْ بَيْنَنَا وَبَيْنَكَ أَجَلًا فَإِنْ ظَهَرْنَا كَانَ لَنَا كَذَا وَكَذَا وَإِنْ ظَهَرْتُمْ كَانَ لَكُمْ كَذَا وَكَذَا فَجَعَلَ أَجَلًا خَمْسَ سِنِينَ فَلَمْ يَظْهَرُوا فَذَكَرَ ذَلِكَ أَبُو بَكْرٍ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَلَا جَعَلْتَهَا إِلَى دُونَ قَالَ أُرَاهُ قَالَ الْعَشْرِ قَالَ قَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ الْبِضْعُ مَا دُونَ الْعَشْرِ ثُمَّ ظَهَرَتْ الرُّومُ بَعْدُ قَالَ فَذَلِكَ قَوْلُهُ الم غُلِبَتْ الرُّومُ إِلَى قَوْلِهِ وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ قَالَ يَفْرَحُونَ بِنَصْرِ اللَّهِ
عبداللہ بن عباس کی مرویات
حضرت ابن عباس ؓ غلبت الروم کو معروف اور مجہول دونوں طرح سے پڑھتے تھے اور فرماتے تھے کہ مشرکین کی ہمیشہ سے یہ خواہش تھی کہ اہل فارس اہل روم پر غالب آجائیں، کیونکہ اہل فارس بت پرست تھے، جبکہ مسلمانوں کی خواہش یہ تھی کہ رومی فارسیوں پر غالب آجائیں کیونکہ وہ اہل کتاب تھے، انہوں نے یہ بات حضرت صدیق اکبر ؓ سے ذکر کی، حضرت ابوبکر ؓ نے نبی ﷺ سے ذکر کردی، نبی ﷺ نے فرمایا رومی ہی غالب آئیں گے، حضرت ابوبکر ؓ نے قریش کے سامنے یہ پیشین گوئی ذکر کردی، وہ کہنے لگے کہ آپ ہمارے اور اپنے درمیان ایک مدت مقرر کرلیں، اگر ہم یعنی ہمارے خیال کے مطابق فارسی غالب آگئے تو آپ ہمیں اتنا اتنا دیں گے اور اگر آپ یعنی آپ کے خیال کے مطابق رومی غالب آگئے تو ہم آپ کو اتنا اتنا دیں گے، حضرت صدیق اکبر ؓ نے پانچ سال کی مدت مقرر کرلی، لیکن اس دوران رومی غالب ہوتے ہوئے دکھائی نہ دئیے تو انہوں نے نبی ﷺ سے اس چیز کا تذکرہ کیا، نبی ﷺ نے فرمایا آپ نے دس سال کے اندر اندر کی مدت کیوں نہ مقرر کی۔ سعید بن جبیر (رح) کہتے ہیں کہ دراصل قرآن میں بضع کا جو لفظ آیا ہے اس کا اطلاق دس سے کم پر ہوتا ہے، چناچہ اس عرصے میں رومی غالب آگئے اور سورت روم کی ابتدائی آیات کا یہی پس منظر ہے۔
Top