مسند امام احمد - عبداللہ بن عباس کی مرویات - حدیث نمبر 3140
حَدَّثَنَا يَزِيدُ قَالَ قَالَ مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِي مَنْ سَمِعَ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ كَانَ الَّذِي أَسَرَ الْعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَبُو الْيَسَرِ بْنُ عَمْرٍو وَهُوَ كَعْبُ بْنُ عَمْرٍو أَحَدُ بَنِي سَلِمَةَ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ أَسَرْتَهُ يَا أَبَا الْيَسَرِ قَالَ لَقَدْ أَعَانَنِي عَلَيْهِ رَجُلٌ مَا رَأَيْتُهُ بَعْدُ وَلَا قَبْلُ هَيْئَتُهُ كَذَا هَيْئَتُهُ كَذَا قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَدْ أَعَانَكَ عَلَيْهِ مَلَكٌ كَرِيمٌ وَقَالَ لِلْعَبَّاسِ يَا عَبَّاسُ افْدِ نَفْسَكَ وَابْنَ أَخِيكَ عَقِيلَ بْنَ أَبِي طَالِبٍ وَنَوْفَلَ بْنَ الْحَارِثِ وَحَلِيفَكَ عُتْبَةَ بْنَ جَحْدَمٍ أَحَدُ بَنِي الْحَارِثِ بْنِ فِهْرٍ قَالَ فَأَبَى وَقَالَ إِنِّي كُنْتُ مُسْلِمًا قَبْلَ ذَلِكَ وَإِنَّمَا اسْتَكْرَهُونِي قَالَ اللَّهُ أَعْلَمُ بِشَأْنِكَ إِنْ يَكُ مَا تَدَّعِي حَقًّا فَاللَّهُ يَجْزِيكَ بِذَلِكَ وَأَمَّا ظَاهِرُ أَمْرِكَ فَقَدْ كَانَ عَلَيْنَا فَافْدِ نَفْسَكَ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَخَذَ مِنْهُ عِشْرِينَ أُوقِيَّةَ ذَهَبٍ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ احْسُبْهَا لِي مِنْ فِدَايَ قَالَ لَا ذَاكَ شَيْءٌ أَعْطَانَاهُ اللَّهُ مِنْكَ قَالَ فَإِنَّهُ لَيْسَ لِي مَالٌ قَالَ فَأَيْنَ الْمَالُ الَّذِي وَضَعْتَهُ بِمَكَّةَ حَيْثُ خَرَجْتَ عِنْدَ أُمِّ الْفَضْلِ وَلَيْسَ مَعَكُمَا أَحَدٌ غَيْرَكُمَا فَقُلْتَ إِنْ أُصِبْتُ فِي سَفَرِي هَذَا فَلِلْفَضْلِ كَذَا وَلِقُثَمَ كَذَا وَلِعَبْدِ اللَّهِ كَذَا قَالَ فَوَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا عَلِمَ بِهَذَا أَحَدٌ مِنْ النَّاسِ غَيْرِي وَغَيْرُهَا وَإِنِّي لَأَعْلَمُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ
عبداللہ بن عباس کی مرویات
حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ غزوہ بدر کے موقع پر میرے والد عباس کو قیدی بنا کر گرفتار کرنے والے صحابی ؓ عنہہ کا نام ابو الیسر کعب بن عمرو تھا، جن کا تعلق بنو سلمہ سے تھا، نبی ﷺ نے ان سے پوچھا کہ ابو الیسر! تم نے انہیں کیسے قید کیا؟ انہوں نے کہا کہ اس کام میں میری مدد ایک ایسے آدمی نے کی تھی جسے میں نے پہلے دیکھا تھا اور نہ بعد میں، اس کی ہیئت ایسی ایسی تھی، نبی ﷺ نے فرمایا کہ اس کام میں تمہاری مدد ایک فرشتے نے کی تھی۔ پھر نبی ﷺ نے حضرت عباس ؓ سے فرمایا اے عباس! اپنا اپنے بھتیجے عقیل بن ابی طالب اور نوفل بن حارث اور اپنے حلیف عتبہ بن جحدم جس کا تعلق بنو فہر سے تھا، کا فدیہ ادا کرو، انہوں نے انکار کردیا اور کہنے لگے کہ میں تو بہت پہلے کا مسلمان ہوچکا ہوں، مجھے تو قریش نے زبردستی روک رکھا تھا، نبی ﷺ نے فرمایا آپ کا اصل معاملہ اللہ جانتا ہے، اگر آپ کا دعوی برحق ہے تو اللہ آپ کو اس کا بدلہ دے گا، لیکن ہم تو ظاہر کے ذمہ دار ہیں اس لئے کم ازکم اپنی جان کا فدیہ ادا کرو۔ نبی ﷺ نے ان جو فدیہ لیا تھا، وہ بیس اوقیہ سونا تھا، انہوں نے نبی ﷺ سے درخواست کی کہ میرا فدیہ آپ الگ کر کے میرے لئے رکھ لیجئے، نبی ﷺ نے انکار کردیا اور فرمایا یہ تو اللہ نے ہمیں آپ سے دلوایا ہے، وہ کہنے لگے یا رسول اللہ! ﷺ میرے پاس کچھ بھی مال و دولت نہیں رہا، فرمایا وہ مال جو تم نے مکہ مکرمہ سے نکلتے وقت ام الفضل کے پاس رکھوایا تھا اور اس وقت تم دونوں کے ساتھ کوئی تیسرا نہ تھا، کہاں جائے گا؟ اور تم نے کہا تھا کہ اگر میں اس سفر میں کام آگیا تو اتنا فضل کا ہے، اتنا قثم کا اور اتنا عبداللہ کا، حضرت عباس ؓ یہ سن کر کہنے لگے کہ اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میرے اور میری بیوی کے علاوہ کسی شخص کو بھی اس کا کچھ پتہ نہ تھا اور میں جانتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔
Top