مسند امام احمد - صحیفہ ہمام بن منبہ رحمتہ اللہ علیہ - حدیث نمبر 9250
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو حَيَّانَ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو زُرْعَةَ بْنُ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَحْمٍ فَدُفِعَ إِلَيْهِ الذِّرَاعُ وَكَانَتْ تُعْجِبُهُ فَنَهَسَ مِنْهَا نَهْسَةً ثُمَّ قَالَ أَنَا سَيِّدُ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَهَلْ تَدْرُونَ لِمَ ذَلِكَ يَجْمَعُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ يُسْمِعُهُمْ الدَّاعِي وَيَنْفُذُهُمْ الْبَصَرُ وَتَدْنُو الشَّمْسُ فَيَبْلُغُ النَّاسَ مِنْ الْغَمِّ وَالْكَرْبِ مَا لَا يُطِيقُونَ وَلَا يَحْتَمِلُونَ فَيَقُولُ بَعْضُ النَّاسِ لِبَعْضٍ أَلَا تَرَوْنَ إِلَى مَا أَنْتُمْ فِيهِ أَلَا تَرَوْنَ إِلَى مَا قَدْ بَلَغَكُمْ أَلَا تَنْظُرُونَ مَنْ يَشْفَعُ لَكُمْ إِلَى رَبِّكُمْ عَزَّ وَجَلَّ فَيَقُولُ بَعْضُ النَّاسِ لِبَعْضٍ أَبُوكُمْ آدَمُ فَيَأْتُونَ آدَمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَقُولُونَ يَا آدَمُ أَنْتَ أَبُو الْبَشَرِ خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ وَنَفَخَ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ وَأَمَرَ الْمَلَائِكَةَ فَسَجَدُوا لَكَ فَاشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ أَلَا تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا فَيَقُولُ آدَمُ عَلَيْهِ السَّلَام إِنَّ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ وَإِنَّهُ نَهَانِي عَنْ الشَّجَرَةِ فَعَصَيْتُهُ نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي اذْهَبُوا إِلَى نُوحٍ فَيَأْتُونَ نُوحًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَقُولُونَ يَا نُوحُ أَنْتَ أَوَّلُ الرُّسُلِ إِلَى أَهْلِ الْأَرْضِ وَسَمَّاكَ اللَّهُ عَبْدًا شَكُورًا فَاشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ أَلَا تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا فَيَقُولُ نُوحٌ إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ وَإِنَّهُ كَانَتْ لِي دَعْوَةٌ عَلَى قَوْمِي نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي اذْهَبُوا إِلَى إِبْرَاهِيمَ فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ فَيَقُولُونَ يَا إِبْرَاهِيمُ أَنْتَ نَبِيُّ اللَّهِ وَخَلِيلُهُ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ أَلَا تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا فَيَقُولُ لَهُمْ إِبْرَاهِيمُ إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ فَذَكَرَ كَذِبَاتِهِ نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي اذْهَبُوا إِلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام فَيَأْتُونَ مُوسَى فَيَقُولُونَ يَا مُوسَى أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ اصْطَفَاكَ اللَّهُ بِرِسَالَاتِهِ وَبِتَكْلِيمِهِ عَلَى النَّاسِ اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ أَلَا تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا فَيَقُولُ لَهُمْ مُوسَى إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ وَإِنِّي قَتَلْتُ نَفْسًا لَمْ أُومَرْ بِقَتْلِهَا نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي اذْهَبُوا إِلَى عِيسَى فَيَأْتُونَ عِيسَى فَيَقُولُونَ يَا عِيسَى أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ قَالَ هَكَذَا هُوَ وَكَلَّمْتَ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ فَاشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ أَلَا تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا فَيَقُولُ لَهُمْ عِيسَى إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ وَلَمْ يَذْكُرْ لَهُ ذَنْبًا اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي اذْهَبُوا إِلَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَأْتُونِي فَيَقُولُونَ يَا مُحَمَّدُ أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ وَخَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ ذَنْبَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْهُ وَمَا تَأَخَّرَ فَاشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ أَلَا تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا فَأَقُومُ فَآتِي تَحْتَ الْعَرْشِ فَأَقَعُ سَاجِدًا لِرَبِّي عَزَّ وَجَلَّ ثُمَّ يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَيَّ وَيُلْهِمُنِي مِنْ مَحَامِدِهِ وَحُسْنِ الثَّنَاءِ عَلَيْهِ شَيْئًا لَمْ يَفْتَحْهُ عَلَى أَحَدٍ قَبْلِي فَيُقَالُ يَا مُحَمَّدُ ارْفَعْ رَأْسَكَ وَسَلْ تُعْطَهْ اشْفَعْ تُشَفَّعْ فَأَقُولُ يَا رَبِّ أُمَّتِي أُمَّتِي يَا رَبِّ أُمَّتِي أُمَّتِي يَا رَبِّ أُمَّتِي أُمَّتِي يَا رَبِّ فَيَقُولُ يَا مُحَمَّدُ أَدْخِلْ مِنْ أُمَّتِكَ مَنْ لَا حِسَابَ عَلَيْهِ مِنْ الْبَابِ الْأَيْمَنِ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ وَهُمْ شُرَكَاءُ النَّاسِ فِيمَا سِوَاهُ مِنْ الْأَبْوَابِ ثُمَّ قَالَ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَمَا بَيْنَ مِصْرَاعَيْنِ مِنْ مَصَارِيعِ الْجَنَّةِ كَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَهَجَرَ أَوْ كَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَبُصْرَى
صحیفہ ہمام بن منبہ رحمتہ اللہ علیہ
حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک مرتبہ کچھ گوشت پیش کیا گیا اور بکری کی دستی اٹھا کر آپ ﷺ کو دی گئی کیونکہ آپ ﷺ کو دست کا گوشت پسند تھا آپ ﷺ نے دانتوں سے اس کا کچھ گوشت نوچا پھر فرمایا کہ قیامت کے دن میں سب لوگوں کو سردار ہوں گا اور کیا تم کو علم ہے کہ میرے سردار ہونے کی کیا وجہ ہے؟ وجہ یہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اگلے پچھلے سب لوگوں کو ایک میدان میں جمع کرے گا ایک پکارنے والا ان کو (اپنی آواز) سنائے گا اور نگاہیں دوسری طرف کی سب چیزیں دیکھ سکیں گے اور سورج (سروں کے) قریب ہوجائے گا اور لوگوں پر ناقابل برداشت غم کا ہجوم ہوگا۔ بعض لوگ کہیں گے دیکھو تمہاری حالت کس نوبت تک پہنچ گئی ہے کوئی ایسا آدمی تلاش کرنا چاہئے جو خدا تعالیٰ کے سامنے ہماری سفارش کرے چناچہ بعض لوگ کہیں گے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے پاس چلو سب لوگ آدم (علیہ السلام) کے پاس پہنچ کر کہیں گے آپ سب آدمیوں کے باپ ہیں آپ کو اللہ نے اپنے ہاتھ سے بنایا اور آپ کے اندر اپنی روح پھونکی اور فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم دیا فرشتوں نے آپ کو سجدہ کیا کیا آپ کو معلوم نہیں کہ ہم کس مصیبت میں ہیں کیا آپ نہیں دیکھتے کہ ہماری کیا حالت ہوگئی آپ اللہ تعالیٰ کے سامنے ہماری سفارش کر دیجئے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) فرمائیں گے آج میرا رب اس قدر غضب میں ہے کہ نہ اس سے قبل کبھی اتنے غضب میں ہوا ہے نہ بعد میں ہوگا۔ اس نے مجھے درخت کے کھانے کی ممانعت فرمائی لیکن میں نے اس کا فرمان نہ مانا نفسی نفسی نفسی تم مجھے چھوڑ کر نوح کے پاس جاؤ۔ لوگ حضرت نوح (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے اور کہیں گے آپ زمین پر اللہ کے سب سے پہلے رسول ہیں اللہ نے آپ کا نام شکر گزار بندہ رکھا ہے آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم کس مصیبت میں مبتلا ہیں اللہ کے سامنے ہماری سفارش کر دیجئے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کہیں گے آج میرا پروردگار اس قدر غضب میں ہے کہ نہ اس سے قبل کبھی اتنا غضبناک ہوا نہ بعد میں ہوگا میں تو اپنی قوم کے لئے بدعا کرچکا ہوں (جس سے تمام قوم غرق آب ہوگئی تھی) نفسی نفسی نفسی تم مجھے چھوڑ کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس جاؤ۔ لوگ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے اور کہیں گے آپ اللہ کے نبی اور خلیل ہیں آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم کس مصیبت میں مبتلا ہیں اللہ کے سامنے سفارش کر دیجئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کہیں گے آج میرا پروردگار اس قدر غضب میں ہے کہ نہ اس سے قبل کبھی اتنا غضب ناک ہوا نہ بعد میں ہوگا اور میں نے تو (دنیا میں) تین جھوٹ بولے تھے نفسی نفسی نفسی تم مجھے چھوڑ کر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جاؤ۔ لوگ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے جا کر کہیں گے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اللہ نے تمام آدمیوں پر آپ کو ہم کلام ہونے کی فضیلت عطاء کی ہے آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم کس مصیبت میں مبتلا ہیں آپ اللہ سے ہماری سفارش کر دیجئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کہیں گے آج میرا پروردگار اس قدر غضب میں ہے کہ نہ اس سے قبل کبھی اتنا غضب ناک ہوا نہ بعد میں ہوگا اور مجھ سے تو ایک قتل سرزد ہوگیا جس کا مجھ کو حکم نہ ہوا تھا نفسی نفسی نفسی تم مجھے چھوڑ کر عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جاؤ۔ لوگ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے جا کر کہیں گے آپ اللہ کے رسول اور کلمہ ہیں اور آپ روح اللہ بھی ہیں آپ نے اس وقت لوگوں سے کلام کیا جب بہت چھوٹے جھولے میں پڑے تھے اللہ تعالیٰ سے آج ہماری سفارش کر دیجئے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اپنا قصور ذکر نہیں کریں گے البتہ یہ فرمائیں گے آج میرا پروردگار اس قدر غضب میں ہے کہ نہ اس سے قبل کبھی اتنا غضب ناک ہوا نہ بعد میں ہوگا تم مجھے چھوڑ کر محمد ﷺ کے پاس جاؤ۔ لوگ مجھ سے آ کر کہیں گے آپ اللہ کے رسول اللہ ﷺ ہیں خاتم الانبیاء ﷺ ہیں اللہ نے آپ ﷺ کے اگلے پچھلے قصور معاف فرما دیئے ہیں آپ ﷺ دیکھ رہے ہیں کہ ہم کس قدر مصیبت میں ہیں ہماری سفارش اللہ کے سامنے کر دیجئے میں یہ سن کر فوراً جا کر عرش کے نیچے اپنے رب کے سامنے سجدہ میں گر پڑوں گا اللہ تعالیٰ میری زبان پر اپنی وہ حمدوثنا جاری کرا دے گا جو مجھ سے پہلے کسی کی زبان سے جاری نہ کرائی ہوگی پھر حکم ہوگا محمد ﷺ سر اٹھا کر استدعاء پیش کرو تمہارا سوال پورا کیا جائے گا تم سفارش کرو تمہاری سفارش قبول کی جائے گی میں سر اٹھا کر عرض کروں گا پروردگار میری امت پروردگار میری امت حکم ہوگا محمد ﷺ اپنی امت کو بےحساب کتاب بہشت میں داہنے دروازے سے داخل کرو اور دیگر دروازوں میں بھی یہ لوگ ساتھ شریک ہیں (یعنی داہنا دروازہ انہی کے لئے مخصوص ہے اور دیگر دروازے مشترک ہیں) حضور اقدس ﷺ نے یہ حدیث بیان فرمانے کے بعد ارشاد فرمایا قسم ہے اس اللہ کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ جنت کی چوکھٹوں کے دو بازوؤں کا درمیانی فاصلہ اتنا ہوگا جتنا مکہ اور ہجر یا مکہ اور بصرٰی کے درمیان ہے۔
Top