مسند امام احمد - حضرت ابن اکوع کی بقیہ مرویات - حدیث نمبر 15942
قَالَ حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ قَالَ حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ قَالَ حَدَّثَنَا إِيَاسُ بْنُ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى فَزَارَةَ وَخَرَجْتُ مَعَهُ حَتَّى إِذَا دَنَوْنَا مِنْ الْمَاءِ عَرَّسَ أَبُو بَكْرٍ حَتَّى إِذَا صَلَّيْنَا الصُّبْحَ أَمَرَنَا فَشَنَنَّا الْغَارَةَ فَوَرَدْنَا الْمَاءَ فَقَتَلَ أَبُو بَكْرٍ مَنْ قَتَلَ وَنَحْنُ مَعَهُ قَالَ سَلَمَةُ فَرَأَيْتُ عُنُقًا مِنْ النَّاسِ فِيهِمْ الذَّرَارِيُّ فَخَشِيتُ أَنْ يَسْبِقُونِي إِلَى الْجَبَلِ فَأَدْرَكْتُهُمْ فَرَمَيْتُ بِسَهْمٍ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْجَبَلِ فَلَمَّا رَأَوْا السَّهْمَ قَامُوا فَإِذَا امْرَأَةٌ مِنْ فَزَارَةَ عَلَيْهَا قَشْعٌ مِنْ أَدَمٍ مَعَهَا ابْنَةٌ مِنْ أَحْسَنِ الْعَرَبِ فَجِئْتُ أَسُوقُهُنَّ إِلَى أَبِي بَكْرٍ فَنَفَّلَنِي أَبُو بَكْرٍ ابْنَتَهَا فَلَمْ أَكْشِفْ لَهَا ثَوْبًا حَتَّى قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ ثُمَّ بَاتَتْ عِنْدِي فَلَمْ أَكْشِفْ لَهَا ثَوْبًا حَتَّى لَقِيَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي السُّوقِ فَقَالَ يَا سَلَمَةُ هَبْ لِي الْمَرْأَةَ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَقَدْ أَعْجَبَتْنِي وَمَا كَشَفْتُ لَهَا ثَوْبًا قَالَ فَسَكَتَ حَتَّى إِذَا كَانَ الْغَدُ لَقِيَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي السُّوقِ وَلَمْ أَكْشِفْ لَهَا ثَوْبًا فَقَالَ يَا سَلَمَةُ هَبْ لِي الْمَرْأَةَ لِلَّهِ أَبُوكَ قَالَ قُلْتُ هِيَ لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ فَبَعَثَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَهْلِ مَكَّةَ فَفَدَى بِهَا أُسَرَاءَ مِنْ الْمُسْلِمِينَ كَانُوا فِي أَيْدِي الْمُشْرِكِينَ
حضرت ابن اکوع کی بقیہ مرویات
حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ سیدنا صدیق اکبر کے ساتھ نکلے جنہیں نبی ﷺ نے ہمارا امیر مقرر کیا تھا، ہم بنو فزارہ سے جہاد کے لئے جا رہے تھے، جب ہم ایسی جگہ پر پہنچے جو پانی کے قریب تھی تو حضرت صدیق اکبر نے ہمیں حکم دیا اور ہم نے پڑاؤ ڈال دیا، فجر کی نماز پڑھ کر انہوں نے ہمیں دشمن پر حملہ کا حکم دیا اور ہم ان پر ٹوٹ پڑے اور اس ندی کے قریب بیشمار لوگوں کو قتل کردیا، اچانک میری نظر ایک تیز رفتار گروہ پر پڑی جو پہاڑ کی طرف چلا جا رہا تھا اس میں عورتیں اور بچے تھے، میں ان کے پیچھے روانہ ہوگیا، لیکن پھر خطرہ ہوا کہ کہیں وہ مجھ سے پہلے ہی پہاڑ تک نہ پہنچ جائیں اس لئے میں نے ان کی طرف ایک تیر پھینکا جو ان کے اور پہاڑ کے درمیان جا گرا۔ پھر میں انہیں ہانکتا ہوا حضرت صدیق اکبر کے پہ اس لے آیا اور اسی ندی کے پاس پہنچ گیا، ان میں بنو فزارہ کی ایک عورت بھی تھی جس نے چمڑے کی پوستین پہن رکھی تھی، اس کے ساتھ اس کی بیٹی تھی جو عرب کی انتہائی حسین و جمیل لڑکی تھی، اس کی وہ بیٹی حضرت صدیق اکبر نے مجھے انعام کے طور پر بخش دی، میں نے مدینہ منورہ پہنچنے تک اس کا گھونگھٹ بھی کھول کر نہیں دیکھا، پھر رات ہوئی تب بھی میں نے اس کا گھونگھٹ نہیں ہٹایا، اگلے دن سر بازار نبی ﷺ سے میری ملاقات ہوگئی، نبی ﷺ مجھ سے فرمانے لگے سلمہ! وہ عورت مجھے ہبہ کردو، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے وہ اچھی لگی ہے اور میں اب تک اس کا گھونگھٹ بھی نہیں ہٹایا، یہ سن کر نبی ﷺ خاموش ہوگئے اور مجھے چھوڑ کر چلے گئے، اگلے دن پھر سر بازار نبی ﷺ سے ملاقات ہوئی تو نبی ﷺ نے اپنی بات دہرائی اور مجھے میرے باپ کی قسم دی، میں نے قسم کھا کر عرض کیا یا رسول اللہ مجھے وہ اچھی لگی ہے اور میں نے اب تک اس کا گھونگھٹ بھی نہیں ہٹایا ہے، لیکن یا رسول اللہ! اب میں وہ آپ کو دیتا ہوں، نبی ﷺ نے وہ لڑکی اہل مکہ کے پاس بھجوادی جن کے قبضے میں بہت سے مسلمان قیدی تھے، نبی ﷺ نے ان کے فدیئے میں اس لڑکی کو پیش کر کے ان سے قیدیوں کو چھڑا لیا۔
Top