مسند امام احمد - حضرت ابن اکوع کی بقیہ مرویات - حدیث نمبر 15943
قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ قَالَ حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ قَالَ حَدَّثَنِي إِيَاسُ بْنُ سَلَمَةَ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبِي قَالَ بَارَزَ عَمِّي يَوْمَ خَيْبَرَ مَرْحَبٌ الْيَهُودِيُّ فَقَالَ مَرْحَبٌ قَدْ عَلِمَتْ خَيْبَرُ أَنِّي مَرْحَبُ شَاكِي السِّلَاحِ بَطَلٌ مُجَرَّبُ إِذَا الْحُرُوبُ أَقْبَلَتْ تَلَهَّبُ فَقَالَ عَمِّي عَامِرٌ قَدْ عَلِمَتْ خَيْبَرُ أَنِّي عَامِرُ شَاكِي السِّلَاحِ بَطَلٌ مُغَامِرُ فَاخْتَلَفَا ضَرْبَتَيْنِ فَوَقَعَ سَيْفُ مَرْحَبٍ فِي تُرْسِ عَامِرٍ وَذَهَبَ يَسْفُلُ لَهُ فَرَجَعَ السَّيْفُ عَلَى سَاقِهِ قَطَعَ أَكْحَلَهُ فَكَانَتْ فِيهَا نَفْسُهُ قَالَ سَلَمَةُ بْنُ الْأَكْوَعِ لَقِيتُ نَاسًا مِنْ صَحَابَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا بَطَلَ عَمَلُ عَامِرٍ قَتَلَ نَفْسَهُ قَالَ سَلَمَةُ فَجِئْتُ إِلَى نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبْكِي قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ بَطَلَ عَمَلُ عَامِرٍ قَالَ مَنْ قَالَ ذَاكَ قُلْتُ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِكَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَذَبَ مَنْ قَالَ ذَاكَ بَلْ لَهُ أَجْرُهُ مَرَّتَيْنِ إِنَّهُ حِينَ خَرَجَ إِلَى خَيْبَرَ جَعَلَ يَرْجُزُ بِأَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِيهِمْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسُوقُ الرِّكَابَ وَهُوَ يَقُولُ تَالَلَّهِ لَوْلَا اللَّهُ مَا اهْتَدَيْنَا وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَا إِنَّ الَّذِينَ قَدْ بَغَوْا عَلَيْنَا إِذَا أَرَادُوا فِتْنَةً أَبَيْنَا وَنَحْنُ عَنْ فَضْلِكَ مَا اسْتَغْنَيْنَا فَثَبِّتْ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَيْنَا وَأَنْزِلَنْ سَكِينَةً عَلَيْنَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ هَذَا قَالَ عَامِرٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ غَفَرَ لَكَ رَبُّكَ قَالَ وَمَا اسْتَغْفَرَ لِإِنْسَانٍ قَطُّ يَخُصُّهُ إِلَّا اسْتُشْهِدَ فَلَمَّا سَمِعَ ذَلِكَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ مَتَّعْتَنَا بِعَامِرٍ فَقَدِمَ فَاسْتُشْهِدَ قَالَ سَلَمَةُ ثُمَّ إِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَنِي إِلَى عَلِيٍّ فَقَالَ لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ الْيَوْمَ رَجُلًا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أَوْ يُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ قَالَ فَجِئْتُ بِهِ أَقُودُهُ أَرْمَدَ فَبَصَقَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عَيْنِهِ ثُمَّ أَعْطَاهُ الرَّايَةَ فَخَرَجَ مَرْحَبٌ يَخْطِرُ بِسَيْفِهِ فَقَالَ قَدْ عَلِمَتْ خَيْبَرُ أَنِّي مَرْحَبُ شَاكِي السِّلَاحِ بَطَلٌ مُجَرَّبُ إِذَا الْحُرُوبُ أَقْبَلَتْ تَلَهَّبُ فَقَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ كَرَّمَ اللَّهُ وَجْهَهُ أَنَا الَّذِي سَمَّتْنِي أُمِّي حَيْدَرَهْ كَلَيْثِ غَابَاتٍ كَرِيهِ الْمَنْظَرَهْ أُوفِيهِمُ بِالصَّاعِ كَيْلَ السَّنْدَرَهْ فَفَلَقَ رَأْسَ مَرْحَبٍ بِالسَّيْفِ وَكَانَ الْفَتْحُ عَلَى يَدَيْهِ
حضرت ابن اکوع کی بقیہ مرویات
حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے مروی ہے کہ غزوہ خیبر کے موقع پر میرے چچا نے مرحب یہودی کو مقابلے کی دعوت دی، مرحب کہنے لگا خیبر جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں اسلحہ سے مسلح، بہادر، تجربہ کار ہوں جس وقت جنگ کی آگ بھڑکنے لگتی ہے، میرے چچا عامر نے بھی یہ رجزیہ اشعار پڑھے خیبر جانتا ہے کہ میں عامر ہوں اسلحہ سے مسلح اور بےخوف جنگ میں گھسنے والا ہوں۔ حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ عامر اور مرحب دونوں ضربیں مختلف طور پر پڑنے لگیں۔ مرحب کی تلوار عامر کی ڈھال پر لگی اور عامر نے نیچے سے مرحب کو تلوار ماری تو حضرت عامر کی اپنی تلوار خود انہی کو لگ گئی جس سے ان کی شہ رگ کٹ گئی اور اس کے نتیجہ میں وہ شہید ہوگئے، حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ میں نکلا تو میں نے نبی ﷺ کریم کے چند صحابہ کو دیکھا وہ کہنے لگے حضرت عامر کا عمل ضائع ہوگیا۔ انہوں نے اپنے آپ کو خود مار ڈالا ہے، حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ میں یہ سن کر نبی ﷺ کی خدمت میں روتا ہوا آیا اور میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! عامر کا عمل ضائع ہوگیا؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ کس نے کہا ہے؟ میں نے عرض کیا آپ کے صحابہ میں سے کچھ لوگوں نے کہا ہے۔ آپ نے فرمایا جس نے بھی کہا ہے غلط کہا ہے بلکہ عامر کے لئے دگنا اجر ہے۔ جس وقت عامر، رسول اللہ کے ساتھ خیبر کی طرف نکل پڑے، انہوں نے رجزیہ اشعار پڑھنے شروع کردیئے۔ اللہ کی قسم! اگر اللہ کی مدد نہ ہوتی تو ہمیں ہدایت نہ ملتی اور نہ ہم صدقہ کرتے اور نہ ہی ہم نماز پڑھتے، یہ لوگ ہم پر سرکشی کا ارادہ رکھتے ہیں، لیکن یہ جب بھی کسی فتنے کا ارادہ کرتے ہیں تو ہم اس کا حصہ بننے سے انکار کردیتے ہیں۔ اور ہم (اے اللہ) تیرے فضل سے مستغنی نہیں ہیں اور تو ہمیں ثابت قدم رکھ جب ہم دشمن سے ملیں اور (اے اللہ) ہم پر سکینت نازل فرما۔ (جب یہ رجزیہ اشعار سنے) تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ کون ہے؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں عامر ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا تیرا رب تیری مغفت فرمائے، راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ جب کسی انسان کے لئے خاص طور پر مغفرت کی دعا فرماتے تو وہ ضرور شہادت کا درجہ حاصل کرتا، حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب اپنے اونٹ پر تھے انہوں نے یہ سن کر بلند آواز سے پکارا اے اللہ کے نبی ﷺ! آپ نے ہمیں عامر سے کیوں نہ فائدہ حاصل کرنے دیا، پھر عامر آگے بڑھ کر شہید ہوگئے۔ پھر آپ نے مجھے حضرت علی کی طرف بھیجا۔ آپ نے فرمایا میں جھنڈا ایک ایسے آدمی کو دوں گا کہ جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہو اور اللہ اور اس کے رسول اس سے محبت رکھتے ہوں۔ حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ میں علی کو پکڑ کر (سہارا دے کر) آپ کی خدمت میں لے آیا کیونکہ علی کی آنکھیں دکھ رہی تھیں، آپ نے حضرت علی کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن لگایا تو ان کی آنکھیں اسی وقت ٹھیک ہوگئیں۔ آپ نے ان کو جھنڈا عطا فرمایا اور مرحب یہ کہتا ہوا نکلا۔ خیبر جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں اسلحہ سے مسلح، بہادر، تجربہ کار ہوں جب جنگ کی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ پھر حضرت علی نے بھی جواب میں کہا کہ میں وہ ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر رکھا ہے اس شیر کی طرف جو جنگلوں میں ڈرانی صورت ہوتا ہے میں لوگوں کو ایک صاع کے بدلہ، اس سے بڑا پیمانہ دیتا ہوں۔ حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ پھر حضرت علی نے مرحب کے سر پر ایک ضرب لگائی تو وہ قتل ہوگیا اور خیبر حضرت علی کے ہاتھوں فتح ہوگیا۔
Top