مسند امام احمد - ایک صحابی (رض) کی روایت - حدیث نمبر 17571
حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ قَالَ كَانَ أَوَّلُ يَوْمٍ عَرَفْتُ فِيهِ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي لَيْلَى رَأَيْتُ شَيْخًا أَبْيَضَ الرَّأْسِ وَاللِّحْيَةِ عَلَى حِمَارٍ وَهُوَ يَتْبَعُ جِنَازَةً فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ حَدَّثَنِي فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ أَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُ وَمَنْ كَرِهَ لِقَاءَ اللَّهِ كَرِهَ اللَّهُ لِقَاءَهُ قَالَ فَأَكَبَّ الْقَوْمُ يَبْكُونَ فَقَالَ مَا يُبْكِيكُمْ فَقَالُوا إِنَّا نَكْرَهُ الْمَوْتَ قَالَ لَيْسَ ذَلِكَ وَلَكِنَّهُ إِذَا حَضَرَ فَأَمَّا إِنْ كَانَ مِنْ الْمُقَرَّبِينَ فَرَوْحٌ وَرَيْحَانٌ وَجَنَّةُ نَعِيمٍ فَإِذَا بُشِّرَ بِذَلِكَ أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ وَاللَّهُ لِلِقَائِهِ أَحَبُّ وَأَمَّا إِنْ كَانَ مِنْ الْمُكَذِّبِينَ الضَّالِّينَ فَنُزُلٌ مِنْ حَمِيمٍ قَالَ عَطَاءٌ وَفِي قِرَاءَةِ ابْنِ مَسْعُودٍ ثُمَّ تَصْلِيَةُ جَحِيمٍ فَإِذَا بُشِّرَ بِذَلِكَ يَكْرَهُ لِقَاءَ اللَّهِ وَاللَّهُ لِلِقَائِهِ أَكْرَهُ
ایک صحابی ؓ کی روایت
عطاء بن سائب (رح) کہتے ہیں کہ جس دن سب سے پہلے مجھے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کی شناخت ہوئی ہے اسی دن میں نے سر اور ڈاڑھی کے سفید بالوں والے ایک بزرگ کو گدھے پر سوار دیکھا جو ایک جنازے کے ساتھ جارہے تھے میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا کہ مجھ سے فلاں بن فلاں نے یہ حدیث بیان کی ہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو شخص اللہ سے ملاقات کو پسند کرتا ہے اللہ اس سے ملنے کو پسند کرتا ہے اور جو اللہ سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے اللہ اس سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے۔ یہ سن کر لوگ سرجھکا کر رونے لگے نبی کریم ﷺ نے رونے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے عرض کیا کہ اس طرح تو ہم سب ہی موت کو اچھا نہیں سمجھتے نبی کریم ﷺ نے فرمایا اس کا یہ مطلب نہیں ہے اصل بات یہ ہے کہ جب کسی کی موت کا وقت آتا ہے اور وہ مقربین میں سے ہوتا ہے تو اس کے لئے راحت غذائیں اور نعمتوں والے باغات ہوں گے اور جب اسے اس کی خوشخبری سنائی جاتی ہے تو وہ اللہ سے ملنے کی خواہش کرتا ہے اور اللہ بھی اس سے ملنے کو پسند فرماتا ہے اور اگر وہ جھٹلانے والے گمراہ لوگوں میں سے ہو تو اس کی مہمان نوازی کھولتے ہوئے پانی سے کی جاتی ہے اور جب اسے اس کی اطلاع ملتی ہے تو وہ اللہ سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے اور اللہ خود بھی اس سے ملنے کو زیادہ ناپسند کرتا ہے۔
Top