Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
Hadith (15995 - 22545)
Select Hadith
15995
15997
15999
16000
16003
16006
16007
16008
16009
16019
16021
16022
16023
16024
16025
16028
16029
16030
16359
16588
16877
17362
17363
17368
17380
17382
17383
17384
17570
17571
17577
17581
18086
20948
20949
21305
21308
21310
22121
22122
22123
22124
22125
22126
22127
22128
22129
22372
22373
22374
22375
22387
22388
22390
22392
22393
22396
22397
22398
22399
22400
22401
22402
22403
22545
سنن النسائی - نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث - حدیث نمبر 1281
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى الطَّبَّاعُ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عِيَاضِ بْنِ عَمْرٍو الْقَارِيِّ قَالَ جَاءَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَدَّادٍ فَدَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَنَحْنُ عِنْدَهَا جُلُوسٌ مَرْجِعَهُ مِنْ الْعِرَاقِ لَيَالِيَ قُتِلَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَتْ لَهُ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ شَدَّادٍ هَلْ أَنْتَ صَادِقِي عَمَّا أَسْأَلُكَ عَنْهُ تُحَدِّثُنِي عَنْ هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ الَّذِينَ قَتَلَهُمْ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ وَمَا لِي لَا أَصْدُقُكِ قَالَتْ فَحَدِّثْنِي عَنْ قِصَّتِهِمْ قَالَ فَإِنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَمَّا كَاتَبَ مُعَاوِيَةَ وَحَكَمَ الْحَكَمَانِ خَرَجَ عَلَيْهِ ثَمَانِيَةُ آلَافٍ مِنْ قُرَّاءِ النَّاسِ فَنَزَلُوا بِأَرْضٍ يُقَالُ لَهَا حَرُورَاءُ مِنْ جَانِبِ الْكُوفَةِ وَإِنَّهُمْ عَتَبُوا عَلَيْهِ فَقَالُوا انْسَلَخْتَ مِنْ قَمِيصٍ أَلْبَسَكَهُ اللَّهُ تَعَالَى وَاسْمٍ سَمَّاكَ اللَّهُ تَعَالَى بِهِ ثُمَّ انْطَلَقْتَ فَحَكَّمْتَ فِي دِينِ اللَّهِ فَلَا حُكْمَ إِلَّا لِلَّهِ تَعَالَى فَلَمَّا أَنْ بَلَغَ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَا عَتَبُوا عَلَيْهِ وَفَارَقُوهُ عَلَيْهِ فَأَمَرَ مُؤَذِّنًا فَأَذَّنَ أَنْ لَا يَدْخُلَ عَلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ إِلَّا رَجُلٌ قَدْ حَمَلَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا أَنْ امْتَلَأَتْ الدَّارُ مِنْ قُرَّاءِ النَّاسِ دَعَا بِمُصْحَفٍ إِمَامٍ عَظِيمٍ فَوَضَعَهُ بَيْنَ يَدَيْهِ فَجَعَلَ يَصُكُّهُ بِيَدِهِ وَيَقُولُ أَيُّهَا الْمُصْحَفُ حَدِّثْ النَّاسَ فَنَادَاهُ النَّاسُ فَقَالُوا يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَا تَسْأَلُ عَنْهُ إِنَّمَا هُوَ مِدَادٌ فِي وَرَقٍ وَنَحْنُ نَتَكَلَّمُ بِمَا رُوِينَا مِنْهُ فَمَاذَا تُرِيدُ قَالَ أَصْحَابُكُمْ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ خَرَجُوا بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ كِتَابُ اللَّهِ يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى فِي كِتَابِهِ فِي امْرَأَةٍ وَرَجُلٍ وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقْ اللَّهُ بَيْنَهُمَا فَأُمَّةُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْظَمُ دَمًا وَحُرْمَةً مِنْ امْرَأَةٍ وَرَجُلٍ وَنَقَمُوا عَلَيَّ أَنْ كَاتَبْتُ مُعَاوِيَةَ كَتَبَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ وَقَدْ جَاءَنَا سُهَيْلُ بْنُ عَمْرٍو وَنَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحُدَيْبِيَةِ حِينَ صَالَحَ قَوْمَهُ قُرَيْشًا فَكَتَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ فَقَالَ سُهَيْلٌ لَا تَكْتُبْ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ فَقَالَ كَيْفَ نَكْتُبُ فَقَالَ اكْتُبْ بِاسْمِكَ اللَّهُمَّ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاكْتُبْ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ فَقَالَ لَوْ أَعْلَمُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ لَمْ أُخَالِفْكَ فَكَتَبَ هَذَا مَا صَالَحَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قُرَيْشًا يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى فِي كِتَابِهِ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ عَلِيٌّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَخَرَجْتُ مَعَهُ حَتَّى إِذَا تَوَسَّطْنَا عَسْكَرَهُمْ قَامَ ابْنُ الْكَوَّاءِ يَخْطُبُ النَّاسَ فَقَالَ يَا حَمَلَةَ الْقُرْآنِ إِنَّ هَذَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَمَنْ لَمْ يَكُنْ يَعْرِفُهُ فَأَنَا أُعَرِّفُهُ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ مَا يَعْرِفُهُ بِهِ هَذَا مِمَّنْ نَزَلَ فِيهِ وَفِي قَوْمِهِ قَوْمٌ خَصِمُونَ فَرُدُّوهُ إِلَى صَاحِبِهِ وَلَا تُوَاضِعُوهُ كِتَابَ اللَّهِ فَقَامَ خُطَبَاؤُهُمْ فَقَالُوا وَاللَّهِ لَنُوَاضِعَنَّهُ كِتَابَ اللَّهِ فَإِنْ جَاءَ بِحَقٍّ نَعْرِفُهُ لَنَتَّبِعَنَّهُ وَإِنْ جَاءَ بِبَاطِلٍ لَنُبَكِّتَنَّهُ بِبَاطِلِهِ فَوَاضَعُوا عَبْدَ اللَّهِ الْكِتَابَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فَرَجَعَ مِنْهُمْ أَرْبَعَةُ آلَافٍ كُلُّهُمْ تَائِبٌ فِيهِمْ ابْنُ الْكَوَّاءِ حَتَّى أَدْخَلَهُمْ عَلَى عَلِيٍّ الْكُوفَةَ فَبَعَثَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى بَقِيَّتِهِمْ فَقَالَ قَدْ كَانَ مِنْ أَمْرِنَا وَأَمْرِ النَّاسِ مَا قَدْ رَأَيْتُمْ فَقِفُوا حَيْثُ شِئْتُمْ حَتَّى تَجْتَمِعَ أُمَّةُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَنْ لَا تَسْفِكُوا دَمًا حَرَامًا أَوْ تَقْطَعُوا سَبِيلًا أَوْ تَظْلِمُوا ذِمَّةً فَإِنَّكُمْ إِنْ فَعَلْتُمْ فَقَدْ نَبَذْنَا إِلَيْكُمْ الْحَرْبَ عَلَى سَوَاءٍ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْخَائِنِينَ فَقَالَتْ لَهُ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا يَا ابْنَ شَدَّادٍ فَقَدْ قَتَلَهُمْ فَقَالَ وَاللَّهِ مَا بَعَثَ إِلَيْهِمْ حَتَّى قَطَعُوا السَّبِيلَ وَسَفَكُوا الدَّمَ وَاسْتَحَلُّوا أَهْلَ الذِّمَّةِ فَقَالَتْ أَاللَّهِ قَالَ أَاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ لَقَدْ كَانَ قَالَتْ فَمَا شَيْءٌ بَلَغَنِي عَنْ أَهْلِ الذِّمَّةِ يَتَحَدَّثُونَهُ يَقُولُونَ ذُو الثُّدَيِّ وَذُو الثُّدَيِّ قَالَ قَدْ رَأَيْتُهُ وَقُمْتُ مَعَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَيْهِ فِي الْقَتْلَى فَدَعَا النَّاسَ فَقَالَ أَتَعْرِفُونَ هَذَا فَمَا أَكْثَرَ مَنْ جَاءَ يَقُولُ قَدْ رَأَيْتُهُ فِي مَسْجِدِ بَنِي فُلَانٍ يُصَلِّي وَرَأَيْتُهُ فِي مَسْجِدِ بَنِي فُلَانٍ يُصَلِّي وَلَمْ يَأْتُوا فِيهِ بِثَبَتٍ يُعْرَفُ إِلَّا ذَلِكَ قَالَتْ فَمَا قَوْلُ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حِينَ قَامَ عَلَيْهِ كَمَا يَزْعُمُ أَهْلُ الْعِرَاقِ قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ قَالَتْ هَلْ سَمِعْتَ مِنْهُ أَنَّهُ قَالَ غَيْرَ ذَلِكَ قَالَ اللَّهُمَّ لَا قَالَتْ أَجَلْ صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ يَرْحَمُ اللَّهُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِنَّهُ كَانَ مِنْ كَلَامِهِ لَا يَرَى شَيْئًا يُعْجِبُهُ إِلَّا قَالَ صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ فَيَذْهَبُ أَهْلُ الْعِرَاقِ يَكْذِبُونَ عَلَيْهِ وَيَزِيدُونَ عَلَيْهِ فِي الْحَدِيثِ
حضرت علی ؓ کی مرویات
عبیداللہ بن عیاض کہتے ہیں کہ حضرت علی ؓ کی شہادت کے چند روز بعد حضرت عبداللہ بن شداد ؓ عراق سے واپس آکر حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اس وقت ہم لوگ حضرت عائشہ ؓ کے پاس ہی بیٹھے ہوئے تھے، حضرت عائشہ ؓ نے ان سے فرمایا عبداللہ! میں تم سے جو پوچھوں گی، اس کا صحیح جواب دوگے؟ کیا تم مجھے ان لوگوں کے بارے بتاسکتے ہو جنہوں نے حضرت علی ؓ کو شہید کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ میں آپ سے سچ کیوں نہیں بولوں گا، فرمایا کہ پھر مجھے ان کا قصہ سناؤ۔ حضرت عبداللہ بن شداد ؓ کہنے لگے کہ جب حضرت علی ؓ نے حضرت امیر معاویہ ؓ سے خط و کتابت شروع کی اور دونوں ثالثوں نے اپنا اپنا فیصلہ سنادیا، تو آٹھ ہزار لوگ جنہیں قراء کہا جاتا تھا، نکل کر کوفہ کے ایک طرف حروراء نامی علاقے میں چلے گئے، وہ لوگ حضرت علی ؓ سے ناراض ہوگئے تھے اور ان کا یہ کہنا تھا کہ اللہ نے آپ کو جو قمیص پہنائی تھی، آپ نے اسے اتار دیا اور اللہ نے آپ کو جو نام عطاء کیا تھا آپ نے اسے اپنے آپ سے دور کردیا، پھر آپ نے جاکر دین کے معاملے ثالث کو قبول کرلیا، حالانکہ حکم تو صرف اللہ کا ہی چلتا ہے۔ حضرت علی ؓ کو جب یہ بات معلوم ہوئی کہ یہ لوگ ان سے ناراض ہو کر جدا ہوگئے ہیں تو انہوں نے منادی کو یہ نداء لگانے کا حکم دیا کہ امیرالمومنین کے پاس صرف وہی شخص آئے جس نے قرآن کریم اٹھا رکھا ہو، جب ان کا گھر قرآن پڑھنے والوں سے بھر گیا تو انہوں نے قرآن کریم کا ایک بڑا نسخہ منگوا کر اپنے سامنے رکھا اور اسے اپنے ہاتھ سے ہلاتے ہوئے کہنے لگے اے قرآن! لوگوں کو بتا، یہ دیکھ کر لوگ کہنے لگے امیرالمومنین! آپ اس نسخے سے کیا پوچھ رہے ہیں؟ یہ تو کاغذ میں روشنائی ہے، ہاں! اس کے حوالے ہم تک جو احکام پہنچے ہیں وہ ہم ایک دوسرے سے بیان کرتے ہیں، آپ کا اس سے مقصد کیا ہے؟ فرمایا تمہارے یہ ساتھی جو ہم سے جدا ہو کر چلے گئے ہیں، میرے اور ان کے درمیان قرآن کریم ہی فیصلہ کرے گا، اللہ تعالیٰ خود قرآن کریم میں میاں بیوی کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ اگر تمہیں ان دونوں کے درمیان ناچاقی کا اندیشہ ہو تو ایک ثالث مرد کی طرف سے اور ایک ثالث عورت کے اہل خانہ کی طرف سے بھیجو، اگر ان کی نیت محض اصلاح کی ہوئی تو اللہ ان دونوں کے درمیان موافقت پیدا فرما دے گا، میرا خیال ہے کہ ایک آدمی اور ایک عورت کی نسبت پوری امت کا خون اور حرمت زیادہ اہم ہے (اس لئے اگر میں نے اس معاملہ میں ثالثی کو قبول کیا تو کونسا گناہ کیا؟ ) اور انہیں اس بات پر جو غصہ ہے کہ میں نے حضرت امیر معاویہ ؓ کے ساتھ خط و کتاب کی ہے ( تو حضرت امیر معاویہ ؓ تو پھر مسلمان اور صحابی ہیں) جب ہم نبی ﷺ کے ساتھ حدیبیہ میں تھے اور سہیل بن عمرو ہمارے پاس آیا تھا اور نبی ﷺ نے اپنی قوم قریش سے صلح کی تھی تو اس وقت نبی ﷺ نے مجھ سے ہی لکھوایا تھا، بسم اللہ الرحمن الرحیم، اس پر سہیل نے کہا کہ آپ اس طرح مت لکھوائیے؟ نی ﷺ نے فرمایا پھر کس طرح لکھوائیں؟ اس نے کہا کہ آپ باسمک اللہم لکھیں۔ اس کے بعد نبی ﷺ نے اپنا نام محمد رسول اللہ لکھوایا تو اس نے کہا کہ اگر میں آپ کو اللہ کا پیغمبر مانتا تو کبھی آپ کی مخالفت نہ کرتا، چناچہ نبی ﷺ نے یہ الفاظ لکھوائے ہذا ماصالح محمد بن عبداللہ قریشا اور اللہ فرماتا ہے کہ پیغمبر اللہ ﷺ کی ذات میں تمہارے لئے بہترین نمونہ موجود ہے (میں نے تو اس نمونے کی پیروی کی ہے) اس کے بعد حضرت علی ؓ نے ابن عباس ؓ کو ان کے پاس سمجھانے کے لئے بھیجا، راوی کہتے ہیں کہ میں بھی ان کے ساتھ گیا تھا، جب ہم ان کے وسط لشکر میں پہنچے تو ابن الکواء نامی ایک شخص لوگوں کے سامنے تقریر کرنے کے لئے کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ اے حاملین قرآن! یہ عبداللہ بن عباس ؓ آئے ہیں، جو شخص انہیں نہ جانتا ہو، میں اس کے سامنے ان کا تعارف قرآن کریم سے پیش کر دیتاہوں، یہ وہی ہیں کہ ان کے اور ان کی قوم کے بارے میں قرآن کریم میں قوم خصمون، یعنی جھگڑالو قوم کا لفظ وارد ہوا ہے، اس لئے انہیں ان کے ساتھی یعنی حضرت علی ؓ کے پاس واپس بھیج دو اور کتاب اللہ کو ان کے سامنے مت بچھاؤ۔ یہ سن کر ان کے خطباء کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ بخدا! ہم تو ان کے سامنے کتاب اللہ کو پیش کریں گے، اگر یہ حق بات لے کر آئے ہیں تو ہم ان کی پیروی کریں گے اور اگر یہ باطل لے کر آئے ہیں تو ہم اس باطل کو خاموش کرا دیں گے، چناچہ تین دن تک وہ لوگ کتاب اللہ کو سامنے رکھ کر حضرت ابن عباس ؓ سے مناظرہ کرتے رہے، جس کے نتیجے میں ان میں سے چار ہزار لوگ اپنے عقائد سے رجوع کر کے توبہ تائب ہو کر واپس آگئے، جن میں خود ابن الکواء بھی شامل تھا اور یہ سب کے سب حضرت علی ؓ کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ اس کے بعد حضرت علی ؓ نے بقیہ افراد کی طرف قاصد کے ذریعے یہ پیغام بھجوا دیا کہ ہمارا اور ان لوگوں کا جو معاملہ ہوا وہ تم نے دیکھ لیا، اب تم جہاں چاہو ٹھہرو، تاآنکہ امت مسلمہ متفق ہوجائے، ہمارے اور تمہارے درمیان یہ معاہدہ ہے کہ تم ناحق کسی کا خون نہ بہاؤ، ڈاکے نہ ڈالو اور ذمیوں پر ظلم وستم نہ ڈھاؤ، اگر تم نے ایسا کیا تو ہم تم پر جنگ مسلط کردیں گے کیونکہ اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے۔ یہ ساری روئیداد سن کر حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا ابن شداد! کیا انہوں نے پھر قتال کیا ان لوگوں سے؟ انہوں نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم! حضرت علی ؓ نے اس وقت تک ان کے پاس اپنا کوئی لشکر نہیں بھیجا جب تک انہوں نے مذکورہ معاہدے کو ختم نہ کردیا انہوں نے ڈاکے دالے، لوگوں کا خون ناحق بہایا اور ذمیوں پر دست درازی کو حلال سمجھا، حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کیا بخدا! ایسا ہی ہوا ہے؟ انہوں نے کہا جی ہاں! اس اللہ کی قسم! جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، ایسا ہی ہوا ہے۔ پھر حضرت عائشہ ؓ نے پوچھا کہ اس بات کی کیا حقیقت ہے جو مجھ تک اہل عراق کے ذریعے پہنچی ہے کہ ذوالثدی نامی کوئی شخص تھا؟ حضرت عبداللہ بن شداد ؓ نے کہا کہ میں نے خود اس شخص کو دیکھا ہے اور مقتولین میں اس کی لاش پر حضرت علی ؓ کے ساتھ کھڑا بھی ہوا ہوں اس موقع پر حضرت علی ؓ نے لوگوں کو بلا کر پوچھا تھا کیا تم اس شخص کو جانتے ہو؟ اکثر لوگوں نے یہی کہا کہ میں نے اسے فلاں محلے کی مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے، میں نے اسے فلاں محلے کی مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے، کوئی مضبوط بات جس سے اس کی پہچان ہوسکتی، وہ لوگ نہ بتاسکے۔ حضرت عائشہ ؓ نے پوچھا کہ جب حضرت علی ؓ اس کی لاش کے پاس کھڑے تھے تو انہوں نے کیا وہی بات کہی تھی جو اہل عراق بیان کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت علی ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا: حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ آپ نے اس کے علاوہ بھی ان کے منہ سے کوئی بات سنی؟ انہوں نے کہا بخدا! نہیں، فرمایا اچھا ٹھیک ہے، اللہ علی پر رحم فرمائے، یہ ان کا تکیہ کلام ہے، یہی وجہ ہے کہ انہیں جب بھی کوئی چیز اچھی یا تعجب خیز معلوم ہوتی ہے تو وہ یہی کہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا اور اہل عراق ان کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کرنا شروع کردیتے ہیں اور اپنی طرف سے بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔
Top