مسند امام احمد - - حدیث نمبر 2718
حدیث نمبر: 2718
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْأَزْهَرِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْجَدِّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:‏‏‏‏ لَا أَجِدُ شَيْئًا وَلَيْسَ لِي مَالٌ وَلِي يَتِيمٌ لَهُ مَالٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُلْ مِنْ مَالِ يَتِيمِكَ غَيْرَ مُسْرِفٍ وَلَا مُتَأَثِّلٍ مَالًا قَالَ:‏‏‏‏ وَأَحْسِبُهُ قَالَ وَلَا تَقِي مَالَكَ بِمَالِهِ.
اللہ کے ارشاد اور جو نادار ہو تو وہ یتیم کا مال دستور کے موافق کھاسکتا ہے کی تفسیر
عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک شخص آیا، اور اس نے عرض کیا: میرے پاس کچھ بھی نہیں اور نہ مال ہی ہے، البتہ میری پرورش میں ایک یتیم ہے جس کے پاس مال ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: یتیم کے مال میں سے فضول خرچی کئے اور بغیر اپنے لیے پونجی بنائے کھاؤ میرا خیال ہے آپ ﷺ نے فرمایا: اپنا مال بچانے کے لیے اس کا مال اپنے مصرف میں نہ خرچ کرو ۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الوصایا ٨ (٢٨٧٢)، سنن النسائی/الوصایا ١٠ (٣٦٩٨)، (تحفة الأ شراف: ٨٦٨١)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٢/١٨٦، ٢١٦) (حسن صحیح )
وضاحت: مثلاً کسی نے آپ سے قرض مانگا تو یتیم کا مال دے دیا، اور اپنے مال کو رکھ چھوڑا یہ جائز نہیں، مقصد یہ ہے کہ یتیم کے مال میں اس شخص کو اس قدر تصرف کی اجازت ہے جو یتیم کی پرورش کرتا ہو اور بالکل محتاج ہو کہ ضرورت کے مطابق اس میں سے کھالے، لیکن مال برباد کرنا اور اسراف کرنا یا ضرورت سے زیادہ خرچ کردینا یہ کسی طرح صحیح نہیں ہے، ہر حال میں بہتر یہی ہے کہ اگر محتاج بھی ہو تو محنت کر کے اس میں سے کھائے، اور یتیم کے مال کو محفوظ رکھے، صرف یتیم پر ضرورت کے مطابق خرچ کرے، قرآن شریف میں ہے کہ جو یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہیں۔
Top