ابوخزامہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا گیا: بتائیے ان دواؤں کے بارے میں جن سے ہم علاج کرتے ہیں، ان منتروں کے بارے میں جن سے ہم جھاڑ پھونک کرتے ہیں، اور ان بچاؤ کی چیزوں کے بارے میں جن سے ہم بچاؤ کرتے ہیں، کیا یہ چیزیں اللہ تعالیٰ کی تقدیر کو کچھ بدل سکتی ہیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: یہ خود اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں شامل ہیں ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الطب ٢١ (٢٠٦٥)، (تحفة الأشراف: ١١٨٩٨)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٣/٤٢١) (ضعیف) (تراجع الألبانی: رقم: ٣٤٥ )
وضاحت: ١ ؎: سبحان اللہ، کیا عمدہ جواب دیا کہ سوال کرنے والے کو اب کچھ کہنے کی گنجائش ہی نہیں رہی، مطلب آپ ﷺ کے جواب کا یہ ہے کہ سپر یا ڈھال رکھنا یا دوا یا علاج کرنا تقدیر الہی کے خلاف نہیں ہے، جو فعل دنیا میں واقع ہو وہی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں تھا، پس انسان کے لیے ضروری ہے کہ تدبیر اور علاج میں کوتاہی نہ کرے، ہوگا تو وہی جو تقدیر میں ہے، اسی طرح جو کوئی علاج نہ کرے، تو سمجھنا چاہیے کہ اس کی تقدیر میں یہی ہے، غرض اللہ تعالیٰ کی تقدیر بندے کو معلوم نہیں ہوسکتی جب کوئی فعل بندے سے ظاہر ہوجاتا ہے اس وقت تقدیر معلوم ہوتی ہے، حدیث میں وتقى نتقيها سے پرہیز مراد ہے جو بعض بیماریوں میں بعض کھانوں سے پرہیز کرتے ہیں، اور اس حدیث میں یہی معنی زیادہ مناسب ہے۔