مسند امام احمد - حضرت اسامہ بن زید (رض) کی مرویات - حدیث نمبر 20776
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ أَنَّ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكِبَ حِمَارًا عَلَيْهِ إِكَافٌ تَحْتَهُ قَطِيفَةٌ فَدَكِيَّةٌ وَأَرْدَفَ وَرَاءَهُ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ وَهُوَ يَعُودُ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ فِي بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ وَذَلِكَ قَبْلَ وَقْعَةِ بَدْرٍ حَتَّى مَرَّ بِمَجْلِسٍ فِيهِ أَخْلَاطٌ مِنْ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُشْرِكِينَ عَبَدَةِ الْأَوْثَانِ وَالْيَهُودِ فِيهِمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ وَفِي الْمَجْلِسِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ فَلَمَّا غَشِيَتْ الْمَجْلِسَ عَجَاجَةُ الدَّابَّةِ خَمَّرَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ أَنْفَهُ بِرِدَائِهِ ثُمَّ قَالَ لَا تُغَبِّرُوا عَلَيْنَا فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ وَقَفَ فَنَزَلَ فَدَعَاهُمْ إِلَى اللَّهِ وَقَرَأَ عَلَيْهِمْ الْقُرْآنَ فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ أَيُّهَا الْمَرْءُ لَا أَحْسَنَ مِنْ هَذَا إِنْ كَانَ مَا تَقُولُ حَقًّا فَلَا تُؤْذِينَا فِي مَجَالِسِنَا وَارْجِعْ إِلَى رَحْلِكَ فَمَنْ جَاءَكَ مِنَّا فَاقْصُصْ عَلَيْهِ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ اغْشَنَا فِي مَجَالِسِنَا فَإِنَّا نُحِبُّ ذَلِكَ قَالَ فَاسْتَبَّ الْمُسْلِمُونَ وَالْمُشْرِكُونَ وَالْيَهُودُ حَتَّى هَمُّوا أَنْ يَتَوَاثَبُوا فَلَمْ يَزَلْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخَفِّضُهُمْ ثُمَّ رَكِبَ دَابَّتَهُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ فَقَالَ أَيْ سَعْدُ أَلَمْ تَسْمَعْ مَا قَالَ أَبُو حُبَابٍ يُرِيدُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ قَالَ كَذَا وَكَذَا فَقَالَ اعْفُ عَنْهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَاصْفَحْ فَوَاللَّهِ لَقَدْ أَعْطَاكَ اللَّهُ الَّذِي أَعْطَاكَ وَلَقَدْ اصْطَلَحَ أَهْلُ هَذِهِ الْبُحَيْرَةِ أَنْ يُتَوِّجُوهُ فَيُعَصِّبُونَهُ بِالْعِصَابَةِ فَلَمَّا رَدَّ اللَّهُ ذَلِكَ بِالْحَقِّ الَّذِي أَعْطَاكَهُ شَرِقَ بِذَلِكَ فَذَاكَ فَعَلَ بِهِ مَا رَأَيْتَ فَعَفَا عَنْهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ حَدَّثَنَا لَيْثٌ يَعْنِي ابْنَ سَعْدٍ حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ أَنَّ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ أَخْبَرَهُ فَذَكَرَ مَعْنَاهُ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ وَلَقَدْ اجْتَمَعَ أَهْلُ هَذِهِ الْبُحَيْرَةِ حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَنَا شُعَيْبٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكِبَ حِمَارًا عَلَى إِكَافٍ عَلَيْهِ قَطِيفَةٌ فَدَكِيَّةٌ وَأَرْدَفَ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ وَرَاءَهُ يَعُودُ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ فِي بَنِي الْخَزْرَجِ قَبْلَ وَقْعَةِ بَدْرٍ فَذَكَرَهُ وَقَالَ الْبَحْرَةِ
حضرت اسامہ بن زید ؓ کی مرویات
حضرت اسامہ ؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ ایک گدھے پر سوار ہوئے جس پر پالان بھی تھا اور اس کے نیچے فد کی چادر تھی اور اپنے پیچھے حضرت اسامہ ؓ کو بٹھالیا، اس وقت نبی کریم ﷺ بنوحارث بن خزرج میں حضرت سعد بن عبادہ ؓ کی عیادت کے لئے جا رہے تھے، یہ واقعہ عزوہ بدر سے پہلے کا ہے راستے میں نبی کریم ﷺ کا گذر ایک ایسی مجلس پر ہوا جس میں مسلمان، بتوں کے پجاری مشرک اور یہودی سب ہی تھے اور جن میں عبداللہ بن ابی بھی موجود تھا اور حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ بھی۔ جب اس مجلس میں سواری کا گردوغبار اڑا تو عبداللہ بن ابی نے اپنی ناک پر اپنی چادر رکھی اور کہنے لگا کہ ہم پر گردوعبار نہ اڑاؤ نبی کریم ﷺ نے وہاں رک کر انہیں سلام کیا اور تھوڑی دیر بعد سواری سے نیچے اتر کر انہیں اللہ کی طرف بلانے اور قرآن پڑھ کر سنانے لگے یہ دیکھ کر عبداللہ بن ابی کہنے لگا اے بھائی! جو بات آپ کہہ رہے ہیں اگر یہ برحق ہے تو اس سے اچھی کوئی بات ہی نہیں لیکن آپ ہماری مجلسوں میں آکر ہمیں تکلیف نہ دیا کریں، آپ اپنے ٹھکانے پر واپس چلے جائیں اور وہاں جو آدمی آئیں اس کے سامنے یہ چیزیں بیان کیا کریں، اس پر عبداللہ بن رواحہ ؓ کہنے لگے کہ آپ ہماری مجالس میں ضرور تشریف لایا کریں کیونکہ ہم اسے پسند کرتے ہیں، اس طرح مسلمانوں اور مشرکین و یہود کے درمیان تلخ کلامی ہونے لگی اور قریب تھا کہ وہ ایک دوسرے سے بھڑجاتے لیکن نبی کریم ﷺ انہیں مسلسل خاموش کراتے رہے۔ جب وہ لوگ پرسکون ہوگئے تو نبی کریم ﷺ اپنی سواری پر سوار ہو کر حضرت سعد بن عبادہ ؓ کے یہاں چلے گئے اور ان سے فرمایا سعد! تم نے سنا کہ ابوحباب ( عبداللہ بن ابی) نے کیا کہا ہے؟ اس نے اس طرح کہا ہے؟ اس نے اس طرح کہا ہے حضرت سعد ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ﷺ اسے معاف کردیا کریں اور اس سے درگذر فرمایا کریں، بخدا! اللہ نے جو مقام آپ کو دینا تھا وہ دے دی اور نہ یہاں کے لوگ اسے تاج شاہی پہنانے پر متفق ہوچکے تھے لیکن اللہ نے جب اس حق کے ذریعے اسے رد کردیا جو اس نے آپ کو عطاء کیا تو یہ اس پر ناگوار گذرا، اس وجہ سے اس نے ایسی حرکت کی، چناچہ نبی کریم ﷺ نے اسے معاف فرما دیا۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
Top