مسند امام احمد - حضرت سلمان فارسی (رض) کی مرویات - حدیث نمبر 22610
حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ أَخْبَرَنِي مِسْعَرٌ حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ قَيْسٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي قُرَّةَ الْكِنْدِيِّ قَالَ عَرَضَ أَبِي عَلَى سَلْمَانَ أُخْتَهُ فَأَبَى وَتَزَوَّجَ مَوْلَاةً لَهُ يُقَالُ لَهَا بُقَيْرَةُ قَالَ فَبَلَغَ أَبَا قُرَّةَ أَنَّهُ كَانَ بَيْنَ سَلْمَانَ وَحُذَيْفَةَ شَيْءٌ فَأَتَاهُ يَطْلُبُهُ فَأُخْبِرَ أَنَّهُ فِي مَبْقَلَةٍ لَهُ فَتَوَجَّهَ إِلَيْهِ فَلَقِيَهُ مَعَهُ زَبِيلٌ فِيهِ بَقْلٌ قَدْ أَدْخَلَ عَصَاهُ فِي عُرْوَةِ الزَّبِيلِ وَهُوَ عَلَى عَاتِقِهِ قَالَ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ مَا كَانَ بَيْنَكَ وَبَيْنَ حُذَيْفَةَ قَالَ يَقُولُ سَلْمَانُ وَكَانَ الْإِنْسَانُ عَجُولًا فَانْطَلَقَا حَتَّى أَتَيَا دَارَ سَلْمَانَ فَدَخَلَ سَلْمَانُ الدَّارَ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ ثُمَّ أَذِنَ فَإِذَا نَمَطٌ مَوْضُوعٌ عَلَى بَابٍ وَعِنْدَ رَأْسِهِ لَبِنَاتٌ وَإِذَا قُرْطَانِ فَقَالَ اجْلِسْ عَلَى فِرَاشِ مَوْلَاتِكَ الَّذِي تُمَهِّدُ لِنَفْسِهَا قَالَ ثُمَّ أَنْشَأَ يُحَدِّثُهُ قَالَ إِنَّ حُذَيْفَةَ كَانَ يُحَدِّثُ بِأَشْيَاءَ يَقُولُهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَضَبِهِ لِأَقْوَامٍ فَأُسْأَلُ عَنْهَا فَأَقُولُ حُذَيْفَةُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُ وَأَكْرَهُ أَنْ يَكُونَ ضَغَائِنُ بَيْنَ أَقْوَامٍ فَأُتِيَ حُذَيْفَةُ فَقِيلَ لَهُ إِنَّ سَلْمَانَ لَا يُصَدِّقُكَ وَلَا يُكَذِّبُكَ بِمَا تَقُولُ فَجَاءَنِي حُذَيْفَةُ فَقَالَ يَا سَلْمَانُ ابْنَ أُمِّ سَلْمَانَ قُلْتُ يَا حُذَيْفَةُ ابْنَ أُمِّ حُذَيْفَةَ لَتَنْتَهِيَنَّ أَوْ لَأَكْتُبَنَّ إِلَى عُمَرَ فَلَمَّا خَوَّفْتُهُ بِعُمَرَ تَرَكَنِي وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ وَلَدِ آدَمَ أَنَا فَأَيُّمَا عَبْدٍ مُؤْمِنٍ لَعَنْتُهُ لَعْنَةً أَوْ سَبَبْتُهُ سَبَّةً فِي غَيْرِ كُنْهِهِ فَاجْعَلْهَا عَلَيْهِ صَلَاةً
حضرت سلمان فارسی ؓ کی مرویات
عمرو بن ابی قرہ کندی (رح) کہتے ہیں کہ میرے والد نے حضرت سلمان فارسی ؓ کے سامنے اپنی بہن سے نکاح کی پیشکش کی لیکن انہوں نے انکار کردیا اور ان کی آزاد کردہ باندی " جس کا نام بقیرہ تھا " سے نکاح کرلیا پھر ابو قرہ کو معلوم ہوا کہ حضرت سلمان فارسی ؓ اور حضرت حذیفہ ؓ کے درمیان کچھ رنجش ہے تو وہ انہیں تلاش کرتے ہوئے آئے معلوم ہوا کہ وہ اپنی سبزیوں کے پاس ہیں ابوقرہ ادھر روانہ ہوگئے راستے میں حضرت سلمان فارسی ؓ سے ملاقات ہوگئی جن کے ساتھ ایک ٹوکری بھی سبزی سے بھری ہوئی تھی انہوں نے اپنی لاٹھی اس ٹوکری کی رسی میں داخل کر کے اسے اپنے کندھے پر رکھا ہوا تھا میں نے ان سے عرض کیا کہ اے ابو عبداللہ! کیا آپ کے اور حضرت حذیفہ ؓ کے درمیان کوئی رنجش ہے؟ حضرت سلمان فارسی ؓ نے یہ آیت پڑھی " انسان بڑا جلد باز ہے " اور وہ دونوں چلتے رہے حتیٰ کہ حضرت سلمان فارسی ؓ کے گھر پہنچ گئے۔ حضرت سلمان فارسی ؓ گھر کے اندرچلے گئے اور سلام کیا پھر ابوقرہ کو اندر آنے کی اجازت دی وہاں دروازے کے پاس ایک چادر پڑھی ہوئی تھی سرہانے کچھ اینٹیں رکھی ہوئی تھیں اور دو بالیاں پڑی ہوئی تھیں حضرت سلمان فارسی ؓ نے فرمایا کہ اپنی باندی کے بستر پر بیٹھ جاؤ جس نے اپنے آپ کو تیار کرلیا تھا انہوں نے بات کا آغاز اور فرمایا کہ حذیفہ بہت ساری ایسی چیزیں بیان کرتے ہیں جو نبی کریم ﷺ غصے کی حالت میں کچھ لوگوں سے کہہ دیتے تھے لوگ مجھ سے اس کے متعلق پوچھتے تو میں ان سے کہہ دیتا کہ حذیفہ ہی زیادہ جانتے ہیں کہ وہ کیا کہتے ہیں میں لوگوں کے درمیان نفرت بڑھانے کو اچھا نہیں سمجھتا لوگ حذیفہ کے پاس جاتے اور ان سے کہتے کہ سلمان آپ کی تصدیق کرتے ہیں اور نہ ہی تکذیب، تو ایک مرتبہ حضرت حذیفہ ؓ میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اے ام سلمان کے بیٹے سلمان! میں نے بھی کہہ دیا ہے کہ اے ام حذیفہ کے بیٹھے حذیفہ! تم باز آجاؤ ورنہ میں حضرت عمر ؓ کو خط لکھوں گا جب میں نے انہیں حضرت عمر ؓ کا خوف دلایا تو انہوں نے مجھے چھوڑ دیا حالانکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ میں بھی اولاد آدم میں سے ہوں سو جس بندہ مؤمن پر میں نے لعنت ملامت کی ہو یا اس کے حق میں سخت سست کہا ہو تو اے اللہ! اسے اس کے حق میں باعث رحمت بنا دے۔
Top