صحیح مسلم - اشعار کے بیان میں - حدیث نمبر 5888
أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ أَنْبَأَنَا أَبُو عَامِرٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرِو بْنِ عَامِرٍ الْأَنْصَارِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ كَانَ الْمُؤَذِّنُ إِذَا أَذَّنَ قَامَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَبْتَدِرُونَ السَّوَارِيَ يُصَلُّونَ حَتَّى يَخْرُجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُمْ كَذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏وَيُصَلُّونَ قَبْلَ الْمَغْرِبِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَكُنْ بَيْنَ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ شَيْءٌ.
اذان اور اقامت کے درمیان نماز ادا کرنے سے متعلق
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ مؤذن جب اذان دیتا تو نبی اکرم کے صحابہ میں سے کچھ لوگ کھڑے ہوتے، اور ستون کے پاس جانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے، اور نماز پڑھتے یہاں تک کہ نبی کریم نکلتے، اور وہ اسی طرح (نماز کی حالت میں) ہوتے، اور مغرب سے پہلے بھی پڑھتے، اور اذان و اقامت کے بیچ کوئی زیادہ فاصلہ نہیں ہوتا تھا ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصلاة ٩٥ (٥٠٣)، الأذان ١٤ (٦٢٥)، (تحفة الأشراف: ١١١٢)، وقد أخرجہ: مسند احمد ٣/٢٨٠، سنن الدارمی/الصلاة ١٤٥ (١٤٨١) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: مطلب یہ ہے کہ ان دونوں رکعتوں کے پڑھنے میں جلدی کرتے کیونکہ اذان اور اقامت میں کوئی زیادہ فاصلہ نہیں ہوتا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني: حديث نمبر 682
Top