صحیح مسلم - طلاق کا بیان - حدیث نمبر 2186
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الْأَعْمَشِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الْأَسْوَدِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ قالت:‏‏‏‏ لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ جَاءَ بِلَالٌ يُؤْذِنُهُ بِالصَّلَاةِ فَقَالَ:‏‏‏‏ مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِقَالَتْ:‏‏‏‏ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ أَسِيفٌ وَإِنَّهُ مَتَى يَقُومُ فِي مَقَامِكَ لَا يُسْمِعُ النَّاسَ فَلَوْ أَمَرْتَ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِفَقُلْتُ لِحَفْصَةَ قُولِي لَهُ فَقَالَتْ:‏‏‏‏ لَهُ فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّكُنَّ لَأَنْتُنَّ صَوَاحِبَاتُ يُوسُفَ مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ قَالَتْ فَأَمَرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلَمَّا دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ وَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ نَفْسِهِ خِفَّةً قَالَتْ:‏‏‏‏ فَقَامَ يُهَادَى بَيْنَ رَجُلَيْنِ وَرِجْلَاهُ تَخُطَّانِ فِي الْأَرْضِ فَلَمَّا دَخَلَ الْمَسْجِدَ سَمِعَ أَبُو بَكْرٍ حِسَّهُ فَذَهَبَ لِيَتَأَخَّرَ فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ قُمْ كَمَا أَنْتَ قَالَتْ فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى قَامَ عَنْ يَسَارِ أَبِي بَكْرٍ جَالِسًا فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِالنَّاسِ جَالِسًا وَأَبُو بَكْرٍ قَائِمًا يَقْتَدِي أَبُو بَكْرٍ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ يَقْتَدُونَ بِصَلَاةِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
اگر امام بیٹھ کر نماز ادا کرے تو مقتدی بھی نماز بیٹھ کر ادا کریں
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ کی بیماری بڑھ گئی، بلال ؓ آپ کو نماز کی خبر دینے آئے، آپ نے فرمایا: ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں ، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ابوبکر نرم دل آدمی ہیں، وہ جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو لوگوں کو (قرآن) نہیں سنا سکیں گے ١ ؎ اگر آپ عمر کو حکم دیتے تو زیادہ بہتر ہوتا، تو آپ نے فرمایا: ابوبکر کو حکم دو کہ لوگوں کو صلاۃ پڑھائیں ، تو میں نے ام المؤمنین حفصہ ؓ سے کہا تم نبی اکرم سے کہو، تو حفصہ نے (بھی) آپ سے کہا، تو آپ نے فرمایا: تم یوسف (علیہ السلام) کی ساتھ والیاں ہو ٢ ؎، ابوبکر کو حکم دو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں ، (بالآخر) لوگوں نے ابوبکر ؓ کو حکم دیا، تو جب انہوں نے نماز شروع کی تو رسول اللہ نے اپنی طبیعت میں کچھ ہلکا پن محسوس کیا، تو آپ اٹھے اور دو آدمیوں کے سہارے چل کر نماز میں آئے، آپ کے دونوں پاؤں زمین سے گھسٹ رہے تھے، جب آپ مسجد میں داخل ہوئے تو ابوبکر ؓ نے آپ کے آنے کی آہٹ محسوس کی، اور وہ پیچھے ہٹنے لگے تو رسول اللہ نے انہیں اشارہ کیا کہ جس طرح ہو اسی طرح کھڑے رہو ، ام المؤمنین کہتی ہیں کہ رسول اللہ آ کر ابوبکر ؓ کے بائیں بیٹھ گئے، آپ لوگوں کو بیٹھ کر نماز پڑھا رہے تھے، اور ابوبکر ؓ کھڑے تھے، ابوبکر رسول اللہ کی اقتداء کر رہے تھے، اور لوگ ابوبکر ؓ کی نماز کی اقتداء کر رہے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ٣٩ (٦٦٤)، ٦٧ (٧١٢)، ٦٨ (٧١٣)، صحیح مسلم/الصلاة ٢١ (٤١٨)، سنن ابن ماجہ/إقامة ١٤٢ (١٢٣٢)، (تحفة الأشراف: ١٥٩٤٥)، مسند احمد ٦/٣٤، ٩٦، ٩٧، ٢١٠، ٢٢٤، ٢٢٨، ٢٤٩، ٢٥١، سنن الدارمی/المقدمة ١٤ (٨٢) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: یعنی وہ آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو ان پر ایسی رقت طاری ہوجائے گی کہ وہ رونے لگیں گے، اور قرأت نہیں کرسکیں گے۔ ٢ ؎: اس سے مراد صرف عائشہ ؓ ہیں، جیسے قرآن میں صرف امرأ ۃ العزیز مراد ہے، اور مطلب یہ ہے کہ عائشہ امرأ ۃ العزیز کی طرح دل میں کچھ اور چھپائے ہوئے تھیں، اور اظہار کسی اور بات کا کر رہی تھیں، وہ یہ کہتی تھیں کہ اگر ابوبکر ؓ آپ کی جگہ امامت کے لیے کھڑے ہوئے، اور آپ کی وفات ہوگئی تو لوگ ابوبکر ؓ کو منحوس سمجھیں گے، اس لیے بہانہ بنا رہی تھیں رقیق القلبی کا، ایک موقع پر انہوں نے یہ بات ظاہر بھی کردی۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني: حديث نمبر 833
Top