مسند امام احمد - - حدیث نمبر 3975
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُقَيْلٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الزُّهْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاسْتُخْلِفَ أَبُو بَكْرٍ وَكَفَرَ مَنْ كَفَرَ مِنَ الْعَرَبِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عُمَرُ لِأَبِي بَكْرٍ:‏‏‏‏ كَيْفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ ؟ وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا:‏‏‏‏ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ،‏‏‏‏ فَمَنْ قَالَ:‏‏‏‏ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ عَصَمَ مِنِّي مَالَهُ،‏‏‏‏ وَنَفْسَهُ إِلَّا بِحَقِّهِ،‏‏‏‏ وَحِسَابُهُ عَلَى اللَّهِ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ الْمَالِ،‏‏‏‏ وَاللَّهِ لَوْ مَنَعُونِي عِقَالًا كَانُوا يُؤَدُّونَهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَى مَنْعِهِ. قَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنِّي رَأَيْتُ اللَّهَ شَرَحَ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ لِلْقِتَالِ،‏‏‏‏ فَعَرَفْتُ أَنَّهُ الْحَقُّ.
خون کی حرمت
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے اور ابوبکر ؓ آپ کے خلیفہ بنے اور عربوں میں سے جن لوگوں کو کافر ہونا تھا کافر ہوگئے تو عمر ؓ نے ابوبکر ؓ سے کہا: آپ لوگوں سے کیسے لڑیں گے؟ حالانکہ رسول اللہ نے فرمایا ہے: مجھے حکم دیا گیا کہ میں لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک کہ وہ لا الٰہ الا اللہ نہ کہیں، پس جس نے لا الٰہ الا اللہ کہا اس نے اپنا مال اور اپنی جان مجھ سے محفوظ کرلی مگر اس کے (یعنی جان و مال کے) حق کے بدلے، اور اس کا حساب اللہ پر ہے ۔ ابوبکر ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! میں ہر اس شخص سے جنگ کروں گا جو نماز اور زکاۃ میں فرق کرے گا، اس لیے کہ زکاۃ مال کا حق ہے۔ اللہ کی قسم! اگر یہ لوگ رسی کا ایک ٹکڑا ١ ؎ بھی جسے رسول اللہ کو دیتے تھے مجھے دینے سے روکیں گے تو میں اس کے نہ دینے پر ان سے جنگ کروں گا ۔ عمر ؓ کہتے ہیں: اللہ کی قسم! یہ اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ میں نے سمجھا کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر ؓ کے سینے کو جنگ کے لیے کھول دیا ہے، اور میں نے یہ جان لیا کہ یہی حق ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ٢٤٤٥ (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: یا تو یہ مبالغہ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے، کیونکہ بکریوں کی کسی تعداد پر زکاۃ میں رسی واجب نہیں ہے، یا عقال سے مراد مطلق زکاۃ ہے، اور ایسا شرعی لغت میں مستعمل بھی ہے، اس صورت میں اس عبارت کا معنی ہوگا تو اگر کوئی زکاۃ دیا کرتا تھا تو اب اس کے روکنے پر میں اس سے قتال کروں گا واللہ اعلم۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني: حديث نمبر 3970
Top