صحیح مسلم - کھیتی باڑی کا بیان - حدیث نمبر 926
قَالَ الْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ:‏‏‏‏ عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي مَالِكٌ،‏‏‏‏ عَنْ ثَوْرِ بْنِ زَيْدٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي الْغَيْثِ مَوْلَى ابْنِ مُطِيعٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ خَيْبَرَ،‏‏‏‏ فَلَمْ نَغْنَمْ إِلَّا الْأَمْوَالَ،‏‏‏‏ وَالْمَتَاعَ،‏‏‏‏ وَالثِّيَابَ،‏‏‏‏ فَأَهْدَى رَجُلٌ مِنْ بَنِي الضُّبَيْبِ يُقَالُ لَهُ:‏‏‏‏ رِفَاعَةُ بْنُ زَيْدٍ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُلَامًا أَسْوَدَ يُقَالُ لَهُ مِدْعَمٌ فَوُجِّهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى وَادِي الْقُرَى،‏‏‏‏ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِوَادِي الْقُرَى بَيْنَا مِدْعَمٌ يَحُطُّ رَحْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ فَجَاءَهُ سَهْمٌ فَأَصَابَهُ فَقَتَلَهُ،‏‏‏‏ فَقَالَ النَّاسُ:‏‏‏‏ هَنِيئًا لَكَ الْجَنَّةُ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ كَلَّا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ،‏‏‏‏ إِنَّ الشَّمْلَةَ الَّتِي أَخَذَهَا يَوْمَ خَيْبَرَ،‏‏‏‏ مِنَ الْمَغَانِمِ،‏‏‏‏ لَتَشْتَعِلُ عَلَيْهِ نَارًا. فَلَمَّا سَمِعَ النَّاسُ بِذَلِكَ،‏‏‏‏ جَاءَ رَجُلٌ بِشِرَاكٍ،‏‏‏‏ أَوْ بِشِرَاكَيْنِ،‏‏‏‏ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ شِرَاكٌ أَوْ شِرَاكَانِ مِنْ نَارٍ.
مال نذر کرتے وقت اس میں زمین بھی داخل ہے یا نہیں؟
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ خیبر کے سال ہم لوگ رسول اللہ کے ساتھ تھے، ہمیں مال ١ ؎، سامان اور کپڑوں کے علاوہ کوئی غنیمت نہ ملی تو بنو ضبیب کے رفاعہ بن زید نامی ایک شخص نے رسول اللہ کو مدعم نامی ایک کالا غلام ہدیہ کیا، رسول اللہ نے وادی قریٰ کا رخ کیا، یہاں تک کہ جب ہم وادی قریٰ میں پہنچے تو مدعم رسول اللہ کا کجاوا اتار رہا تھا کہ اسی دوران اچانک ایک تیر آ کر اسے لگا اور اسے قتل کر ڈالا، لوگوں نے کہا کہ تمہیں جنت مبارک ہو، رسول اللہ نے فرمایا: ہرگز نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! وہ کملی جو اس نے غنیمت کے مال سے خیبر کے روز لے لی تھی (اور مال تقسیم نہ ہوا تھا) اس کے سر پر آگ بن کر دہک رہی ہے ۔ جب لوگوں نے یہ بات سنی تو ایک شخص چمڑے کا ایک یا دو تسمہ رسول اللہ کے پاس لے کر آیا تو آپ نے فرمایا: یہ ایک یا دو تسمے آگ کے ہیں ۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المغازي ٣٨ (٤٢٣٤)، الأیمان ٣٣ (٦٧٠٧)، صحیح مسلم/الإیمان ٤٨ (١١٥)، سنن ابی داود/الجہاد ١٤٣ (٢٧١١)، موطا امام مالک/الجہاد ١٣ (٢٥)، (تحفة الأشراف: ١٢٩١٦) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: اسی لفظ میں باب سے مطابقت ہے، کیونکہ ابوہریرہ ؓ نے اموال کے لفظ سے زمینیں (آراضی) مراد لی ہیں (خیبر میں زیادہ زمینیں مال غنیمت میں ہاتھ آئی تھیں) اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی صرف مال کی نذر مانے تو اس مال میں زمین بھی داخل گی۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني: حديث نمبر 3827
Top