مسند امام احمد - حضرت عبداللہ بن ابی حبیبہ (رض) کی حدیث - حدیث نمبر 2586
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ مُحَمَّدٍ قال:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مَخْلَدٌ قال:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الْجَبَّارِ بْنِ وَائِلٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ صَلَّيْتُ خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا كَبَّرَ رَفَعَ يَدَيْهِ أَسْفَلَ مِنْ أُذُنَيْهِفَلَمَّا قَرَأَ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ سورة الفاتحة آية 7، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ آمِينَفَسَمِعْتُهُ وَأَنَا خَلْفَهُ قَالَ:‏‏‏‏ فَسَمِعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا يَقُولُ:‏‏‏‏ الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ فَلَمَّا سَلَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ صَلَاتِهِ قَالَ:‏‏‏‏ مَنْ صَاحِبُ الْكَلِمَةِ فِي الصَّلَاةِ فَقَالَ الرَّجُلُ أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا أَرَدْتُ بِهَا بَأْسًا قَالَ:‏‏‏‏ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَقَدِ ابْتَدَرَهَا اثْنَا عَشَرَ مَلَكًا فَمَا نَهْنَهَهَا شَيْءٌ دُونَ الْعَرْشِ.
اگر مقتدی کو نماز میں چھینک آجائے تو کیا کہنا چاہئے؟
وائل بن حجر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کے پیچھے نماز پڑھی، جب آپ نے اللہ اکبر کہا تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں کانوں کے نیچے تک اٹھایا، پھر جب آپ نے غير المغضوب عليهم ولا الضالين کہا تو آپ نے آمین کہی جسے میں نے سنا، اور میں آپ کے پیچھے تھا ١ ؎، پھر رسول اللہ نے ایک آدمی کو الحمد لله حمدا کثيرا طيبا مبارکا فيه کہتے سنا، تو جب آپ اپنی نماز سے سلام پھیرلیا تو پوچھا: نماز میں کس نے یہ کلمہ کہا تھا؟ تو اس شخص نے کہا: میں نے اللہ کے رسول! اور اس سے میں نے کسی برائی کا ارادہ نہیں کیا تھا، تو نبی اکرم نے فرمایا: اس پر بارہ فرشتے جھپٹے تو اسے عرش تک پہنچنے سے کوئی چیز روک نہیں سکی ۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، تحفة الأشراف: ١١٧٦٤)، مسند احمد ٤/٣١٥، ٣١٧ (صحیح) (اس سند میں عبدالجبار اور ان کے باپ وائل بن حجر ؓ کے درمیان انقطاع ہے، لیکن " فما نھنھھا ۔۔۔ " کے جملے کے علاوہ اوپر کی حدیث سے تقویت پاکر بقیہ حدیث صحیح لغیرہ ہے )
وضاحت: ١ ؎: اس حدیث میں اس بات کی صراحت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے بلند آواز سے آمین کہی، رہا بعض حاشیہ نگاروں کا یہ کہنا کہ پہلی صف والوں کے بالخصوص ایسے شخص سے سننے سے جو نبی اکرم ﷺ کے بالکل پیچھے ہو جہر لازم نہیں آتا، تو یہ صحیح نہیں کیونکہ صاحب ہدایہ نے یہ تصریح کی ہے کہ جہر یہی ہے کہ کوئی دوسرا سن لے، اور کرخی نے تو یہاں تک کہا ہے کہ جہر کا ادنی مرتبہ یہ ہے کہ بولنے والا آدمی خود اسے سنے، رہی وائل بن حجر ؓ کی خفض والی روایت تو شعبہ نے اس میں کئی غلطیاں کی ہیں، جس کی تفصیل سنن ترمذی حدیث رقم ( ٢٤٨ ) میں دیکھی جاسکتی ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره دون قوله فما نهنهها
صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني: حديث نمبر 932
Top