مشکوٰۃ المصابیح - نفل روزہ کا بیان - حدیث نمبر 2080
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ كَثِيرِ بْنِ دِينَارٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبِي، ‏‏‏‏‏‏عَنْ شُعَيْبٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ الزُّهْرِيُّ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِيعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ طَلَّقَ ابْنَةَ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ وَأُمُّهَا حَمْنَةُ بِنْتُ قَيْسٍ الْبَتَّةَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرَتْهَا خَالَتُهَا فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ بِالِانْتِقَالِ مِنْ بَيْتِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏وَسَمِعَ بِذَلِكَ مَرْوَانُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرَهَا أَنْ تَرْجِعَ إِلَى مَسْكَنِهَا حَتَّى تَنْقَضِيَ عِدَّتُهَا، ‏‏‏‏‏‏فَأَرْسَلَتْ إِلَيْهِ تُخْبِرُهُ أَنَّ خَالَتَهَا فَاطِمَةَ أَفْتَتْهَا بِذَلِكَ وَأَخْبَرَتْهَا،‏‏‏‏ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَفْتَاهَا بِالِانْتِقَالِ حِينَ طَلَّقَهَا أَبُو عَمْرِو بْنُ حَفْصٍ الْمَخْزُومِيُّ،‏‏‏‏ فَأَرْسَلَ مَرْوَانُ قَبِيصَةَ بْنَ ذُؤَيْبٍ إِلَى فَاطِمَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَسَأَلَهَا عَنْ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَزَعَمَتْ أَنَّهَا كَانَتْ تَحْتَ أَبِي عَمْرٍو لَمَّا أَمَّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ عَلَى الْيَمَنِ خَرَجَ مَعَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا بِتَطْلِيقَةٍ وَهِيَ بَقِيَّةُ طَلَاقِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرَ لَهَا الْحَارِثَ بْنَ هِشَامٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعَيَّاشَ بْنَ أَبِي رَبِيعَةَ بِنَفَقَتِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَأَرْسَلَتْ إِلَى الْحَارِثِ، ‏‏‏‏‏‏وَعَيَّاشٍ تَسْأَلُهُمَا النَّفَقَةَ الَّتِي أَمَرَ لَهَا بِهَا زَوْجُهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَا:‏‏‏‏ وَاللَّهِ مَا لَهَا عَلَيْنَا نَفَقَةٌ إِلَّا أَنْ تَكُونَ حَامِلًا، ‏‏‏‏‏‏وَمَا لَهَا أَنْ تَسْكُنَ فِي مَسْكَنِنَا إِلَّا بِإِذْنِنَا، ‏‏‏‏‏‏فَزَعَمَتْ فَاطِمَةُ أَنَّهَا أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَصَدَّقَهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ أَيْنَ أَنْتَقِلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ انْتَقِلِي عِنْدَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ الْأَعْمَى الَّذِي عَاتَبَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي كِتَابِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَانْتَقَلْتُ عِنْدَهُ فَكُنْتُ أَضَعُ ثِيَابِي عِنْدَهُ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى أَنْكَحَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏زَعَمَتْ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ.
تین طلاق والی حاملہ خاتون کا نان و نفقہ
زہری کہتے ہیں کہ مجھ سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمرو بن عثمان نے سعید بن زید کی بیٹی کو طلاق بتہ دی ١ ؎ لڑکی کی ماں کا نام حمنہ بنت قیس تھا، لڑکی کی خالہ فاطمہ بنت قیس ؓ نے اس سے کہا کہ عبداللہ بن عمرو کے گھر سے (کہیں اور) منتقل ہوجا، یہ بات مروان (مروان بن حکم) نے سنی تو انہوں نے عبداللہ بن عمرو بن عثمان کی بیوی کو کہلا بھیجا کہ اپنے گھر میں آ کر اس وقت تک رہو جب تک کہ عدت پوری نہ ہوجائے، (اس کے جواب میں) اس نے مروان کو یہ خبر بھیجی کہ مجھے میری خالہ فاطمہ ؓ نے گھر چھوڑ دینے کا فتویٰ دیا تھا اور بتایا تھا کہ جب ان کے شوہر ابوعمرو بن حفص مخزومی ؓ نے انہیں طلاق دی تھی تو رسول اللہ نے انہیں گھر سے منتقل ہوجانے کا حکم دیا تھا۔ (یہ قصہ سن کر) مروان نے قبیصہ بن ذویب (نامی شخص) کو (تحقیق واقعہ کے لیے) فاطمہ ؓ کے پاس بھیجا۔ (وہ آئے) اور ان سے اس بارے میں سوال کیا، تو انہوں نے بیان کیا کہ وہ ابوعمرو کی بیوی تھیں اور وہ اس وقت جب رسول اللہ نے علی ؓ کو یمن کا امیر (گورنر) بنا کر بھیجا تھا علی ؓ کے ساتھ یمن چلے گئے تھے اور وہاں سے انہوں نے انہیں وہ طلاق دے کر بھیجی جو باقی رہ گئی تھی اور حارث بن ہشام اور عیاش بن ابی ربیعہ ؓ کو کہلا بھیجا تھا کہ وہ انہیں نفقہ دے دیں گے تو فاطمہ ؓ نے حارث اور عیاش سے اس نفقہ کا مطالبہ کیا جسے انہیں دینے کے لیے ان کے شوہر نے ان سے کہا تھا، ان دونوں نے فاطمہ ؓ کو جواب دیا: قسم اللہ کی! ان کے لیے ہمارے ذمہ کوئی نفقہ نہیں ہے، (یعنی ان کے لیے نفقہ کا حق ہی نہیں تھا) ہاں اگر وہ حاملہ ہوں (تو انہیں بیشک وضع حمل تک نفقہ مل سکتا ہے) اور اب ان کے لیے ہمارے گھر میں رہنے کا بھی حق نہیں بنتا، الا یہ کہ ہم انہیں (ازراہ عنایت) اپنے گھر میں رہنے کی اجازت دے دیں۔ فاطمہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ وہ (یہ باتیں سن کر) رسول اللہ کے پاس آئیں اور یہ ساری باتیں آپ کو بتائیں تو آپ نے ان دونوں کی تصدیق کی (کہ انہوں نے صحیح بات بتائی ہے) ۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں کہاں چلی جاؤں؟ آپ نے فرمایا: ابن ام مکتوم کے یہاں چلی جاؤ۔ یہ ابن ام مکتوم وہی نابینا شخص ہیں جن کی خاطر اللہ نے اپنی کتاب (قرآن پاک کی سورة عبس) میں رسول اللہ پر عتاب فرمایا تھا۔ تو میں ان کے یہاں چلی گئی۔ (ان کے نہ دیکھ پانے کی وجہ سے بغیر کسی دقت و پریشانی کے) میں وہاں اپنے کپڑے اتار لیتی (اور تبدیل کرلیتی) تھی ٢ ؎ اور یہ سلسلہ اس وقت تک رہا جب تک کہ رسول اللہ نے ان کی شادی اسامہ بن زید ؓ سے نہ کرا دی۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ٣٢٢٤ (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: یعنی ایسی طلاق جس سے طالق کا مطلقہ سے ہر طرح کا رشتہ ختم ہوجائے اور مرد کا اس سے بغیر دوسری شادی کے نکاح ناجائز ہو۔ ٢ ؎: معلوم ہوا کہ بلاقصد و ارادہ عورت کی نگاہ اگر مرد پر پڑجائے تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے، چناچہ آپ ﷺ نے ایک نابینا شخص کے گھر میں عورت کو عدت گزارنے کے لیے جو حکم صادر فرمایا اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ عورت کی ذات مرد کی نگاہوں سے پوری طرح محفوظ رہے، یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے باوجود یہ کہ فاطمہ کی نگاہ ابن ام مکتوم پر پڑ سکتی تھی پھر بھی آپ نے اس ناحیہ سے کوئی حکم صادر نہیں فرمایا، اب رہ گئی بات ام سلمہ رضی الله عنہا کی حدیث افعمیاوان انتما کی تو اس سلسلہ میں امام ابوداؤد اپنی سنن ( ٤/٣٦٢ ) میں لکھتے ہیں کہ یہ ازواج مطہرات کے لیے خاص ہے، ابن حجر (رح) نے تلخیص ( ٣/١٤٨ ) میں ابوداؤد (رح) کی اس تطبیق کو جمع حسن کہا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني: حديث نمبر 3552
Top