سنن النسائی - - حدیث نمبر 212
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ مَسْعَدَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حُمَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ثَابِتٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ رَأَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا يُهَادَى بَيْنَ رَجُلَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا هَذَا ؟. قَالُوا:‏‏‏‏ نَذَرَ أَنْ يَمْشِيَ إِلَى بَيْتِ اللَّهِ. قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنْ تَعْذِيبِ هَذَا نَفْسَهُ مُرْهُ فَلْيَرْكَبْ.
اس شخص پر کیا واجب ہے کہ جس نے نذر مانی ہو ایک کام کے کرنے کی اور پھر وہ شخص اس کام کی انجام دہی سے عاجز ہو جائے
انس ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ دو آدمیوں کے بیچ میں ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر چل رہا ہے، آپ نے فرمایا: یہ کیا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: اس نے نذر مانی ہے کہ وہ بیت اللہ تک پیدل چل کر جائے گا، آپ نے فرمایا: اس طرح اپنی جان کو تکلیف دینے کی اللہ کو ضرورت نہیں، اس سے کہو کہ سوار ہو کر جائے ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/جزء الصید ٢٧ (١٨٦٥)، الأیمان ٣١ (٦٧٠١)، صحیح مسلم/النذور ٤ (١٦٤٢)، سنن ابی داود/الأیمان ٢٣ (٣٣٠١)، سنن الترمذی/الأیمان ٩ (١٥٣٧)، (تحفة الأشراف: ٣٩٢)، مسند احمد (٣/١٠٦، ١١٤، ١٨٣، ١٨٣، ٢٣٥، ٢٧١) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: معلوم ہوا کہ جاہل صوفیوں نے جو نئی نئی قسم کے پر مشقت افعال یہ سمجھ کر ایجاد کر رکھے ہیں کہ ان سے تزکیہ نفوس حاصل ہوتا ہے حالانکہ شریعت سے ان کا ذرہ برابر تعلق نہیں، یہ احکام شریعت سے ان کی جہالت و ناواقفیت کی دلیل ہے کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے ہمارے لیے کوئی ایسی چیز نہیں چھوڑی جسے صاف صاف طور پر بیان نہ کردیا ہو۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني: حديث نمبر 3852
Top