مسند امام احمد - حضرت عیاش بن ابی ربیعہ کی حدیث۔ - حدیث نمبر 3614
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ شَقِيقٍ، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبِي، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ أَنْبَأَنَا أَبُو حَمْزَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَنْصُورِ بْنِ زَاذَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قال:‏‏‏‏ صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُسْمِعْنَا قِرَاءَةَ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ سورة الفاتحة آية 1وَصَلَّى بِنَا أَبُو بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعُمَرُ فَلَمْ نَسْمَعْهَا مِنْهُمَا.
بسم اللہ الرحمن الرحیم آہستہ پڑھنا
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے ہمیں نماز پڑھائی، تو آپ نے ہمیں بسم اللہ الرحمن الرحيم کی قرآت نہیں سنائی، اور ہمیں ابوبکر و عمر ؓ نے بھی نماز پڑھائی، تو ہم نے ان دونوں سے بھی اسے نہیں سنا ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ١٦٠٥) (صحیح الإسناد )
وضاحت: ١ ؎: بسم اللہ سے متعلق زیادہ تر روایتیں آہستہ ہی پڑھنے کی ہیں، جو روایتیں زور (جہر) سے پڑھنے کی آئی ہیں ان میں سے اکثر ضعیف ہیں، سب سے عمدہ روایت نعیم المجمر کی ہے جس میں ہے صليت وراء أبي هريرة فقرأ: بسم الله الرحمن الرحيم: ثم قرأ بأم القرآن اس روایت پر یہ اعتراض کیا گیا کہ اسے نعیم کے علاوہ اور بھی لوگوں نے ابوہریرہ سے روایت کیا ہے، لیکن اس میں بسم اللہ کا ذکر نہیں، اس لیے ان کی روایت شاذ ہوگی، لیکن اس کے جواب میں یہ کہا گیا ہے کہ نعیم ثقہ ہیں اور ثقہ کی زیادتی مقبول ہوتی ہے، اس لیے اس سے جہری پر دلیل پکڑی جاسکتی ہے، لیکن اس میں اشکال یہ ہے کہ ان کی مخالفت ثقات نے کی ہے، اس لیے یہ تفرد غیر مقبول ہوگا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني: حديث نمبر 906
Top