صحیح مسلم - - حدیث نمبر 911
‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ:‏‏‏‏ إِنِّي أَحْيَانًا أَكُونُ وَرَاءَ الْإِمَامِ فَغَمَزَ ذِرَاعِي وَقَالَ:‏‏‏‏ اقْرَأْ بِهَا يَا فَارِسِيُّ فِي نَفْسِكَ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏ يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ:‏‏‏‏ قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ فَنِصْفُهَا لِي وَنِصْفُهَا لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ اقْرَءُوا يَقُولُ الْعَبْدُ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ:‏‏‏‏ حَمِدَنِي عَبْدِييَقُولُ الْعَبْدُ:‏‏‏‏ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَثْنَى عَلَيَّ عَبْدِي يَقُولُ الْعَبْدُ:‏‏‏‏ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَجَّدَنِي عَبْدِي يَقُولُ الْعَبْدُ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ فَهَذِهِ الْآيَةُ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ يَقُولُ الْعَبْدُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ فَهَؤُلَاءِ لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ.
سورہ فاتحہ میں بسم اللہ نہ پڑھنا
میں نے پوچھا: ابوہریرہ! کبھی میں امام کے پیچھے ہوتا ہوں تو (کیسے پڑھوں؟ ) تو انہوں نے میرا ہاتھ دبایا، اور کہا: اے فارسی! اسے اپنے جی میں پڑھ لیا کرو کیونکہ میں نے رسول اللہ کو کہتے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں نے نماز ١ ؎ کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان دو حصوں میں بانٹ دیا ہے، تو آدھی میرے لیے ہے اور آدھی میرے بندے کے لیے، اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے، رسول اللہ نے فرمایا: تم سورة فاتحہ پڑھو، جب بندہ الحمد لله رب العالمين کہتا ہے ٢ ؎ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے میری حمد (تعریف) کی، اسی طرح جب بندہ ‏الرحمن الرحيم کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے میری ثنا بیان کی، جب بندہ مالک يوم الدين کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے میری تعظیم و تمجید کی، اور جب بندہ إياک نعبد وإياک نستعين کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے: یہ آیت میرے اور میرے بندے دونوں کے درمیان مشترک ہے، اور جب بندہ ‏اهدنا الصراط المستقيم * صراط الذين أنعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یہ تینوں آیتیں میرے بندے کے لیے ہیں، اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جو وہ مانگے ۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصلاة ١١ (٣٩٥)، سنن ابی داود/الصلاة ١٣٥ (٨٢١)، سنن الترمذی/تفسیر الفاتحة ٥ (٢٩٥٣)، سنن ابن ماجہ/إقامة ١١ (٨٣٨) (تحفة الأشراف: ١٤٩٣٥)، موطا امام مالک/الصلاة ٩ (٣٩)، مسند احمد ٢/٢٤١، ٢٥٠، ٢٨٥، ٢٨٦، ٢٩٠، ٤٥٧، ٤٦٠، ٤٧٨، ٤٨٧ (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: صلاۃ سے مراد سورة فاتحہ ہے کل بول کر جزء مراد لیا گیا ہے۔ ٢ ؎: اسی سے مؤلف نے سورة فاتحہ میں ‏بسم الله الرحمن الرحيم نہ پڑھنے پر استدلال کیا ہے، حالانکہ یہاں بات صرف یہ ہے کہ اصل سورة فاتحہ تو الحمد للہ سے ہے، اور رہا پڑھنا ‏بسم الله ‘ تو ہر سورة کی شروع میں ہونے کی وجہ سے اس کو تو پڑھنا ہی ہوتا ہے، وہ ایک الگ مسئلہ ہے، اس لیے یہاں اس کو نہیں چھیڑا گیا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني: حديث نمبر 909
Top