صحیح مسلم - جنت اس کی نعمتیں اور اہل جنت کا بیان - حدیث نمبر 5124
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا خَالِدٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عِكْرِمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ زَوْجَ بَرِيرَةَ كَانَ عَبْدًا،‏‏‏‏ يُقَالُ لَهُ:‏‏‏‏ مُغِيثٌ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ يَطُوفُ خَلْفَهَا يَبْكِي وَدُمُوعُهُ تَسِيلُ عَلَى لِحْيَتِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْعَبَّاسِ:‏‏‏‏ يَا عَبَّاسُ،‏‏‏‏ أَلَا تَعْجَبْ مِنْ حُبِّ مُغِيثٍ بَرِيرَةَ وَمِنْ بُغْضِ بَرِيرَةَ مُغِيثًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَوْ رَاجَعْتِيهِ فَإِنَّهُ أَبُو وَلَدِكِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتَأْمُرُنِي ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّمَا أَنَا شَفِيعٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ فَلَا حَاجَةَ لِي فِيهِ.
مقدمہ کے فیصلہ سے قبل حاکم کے سفارش کرنے سے متعلق
عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ بریرہ ؓ کے شوہر غلام تھے جنہیں مغیث کہا جاتا تھا، گویا میں اب بھی دیکھ رہا ہوں کہ وہ اس (بریرہ) کے پیچھے پیچھے روتے پھر رہے ہیں، اور ان کے آنسو ڈاڑھی پر بہہ رہے ہیں، نبی اکرم نے عباس ؓ سے کہا: عباس! کیا آپ کو حیرت نہیں ہے کہ مغیث بریرہ سے کتنی محبت کرتا ہے اور بریرہ مغیث سے کس قدر نفرت کرتی ہے؟، رسول اللہ نے اس (بریرہ) سے فرمایا: اگر تم اس کے پاس واپس چلی جاتی (تو بہتر ہوتا) اس لیے کہ وہ تمہارے بچے کا باپ ہے ، وہ بولیں: اللہ کے رسول! کیا مجھے آپ حکم دے رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، میں تو سفارش کر رہا ہوں ، وہ بولیں: پھر تو مجھے اس کی ضرورت نہیں ١ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الطلاق ١٦ (٥٢٨٣)، سنن ابی داود/الطلاق ١٩ (٢٢٣١)، سنن ابن ماجہ/الطلاق ٢٩ (٢٠٧٧)، (تحفة الأشراف: ٦٠٤٨)، مسند احمد (١/٢١٥) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: مغیث اور بریرہ ؓ کے معاملہ میں عدالتی قانونی فیصلہ تو آپ ﷺ نے یہی فرمایا کہ بریرہ ؓ کو آزادی مل جانے کے بعد مغیث کے نکاح میں نہ رہنے کا حق حاصل ہے مگر اس عدالتی فیصلہ سے پہلے بریرہ ؓ سے قانوناً نہیں اخلاقی طور پر مغیث کے نکاح میں باقی رہنے کی سفارش کی، یہی باب سے مناسبت ہے، اور اس طرح کی سفارش صرف ایسے ہی معاملات میں کی جاسکتی ہے، جس میں مدعی کو اختیار ہو (جیسے بریرہ کا معاملہ اور قصاص ودیت والا معاملہ وغیرہ) لیکن چوری و زنا کے حدود کے معاملے میں اس طرح کی سفارش نہیں کی جاسکتی۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني: حديث نمبر 5417
Top