مشکوٰۃ المصابیح - - حدیث نمبر 5733
أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ،‏‏‏‏ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ قِرَاءَةً،‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ،‏‏‏‏ مَا تُحِلُّ النَّارُ شَيْئًا وَلَا تُحَرِّمُهُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ ثُمَّ فَسَّرَ لِي قَوْلَهُ:‏‏‏‏ لَا تُحِلُّ شَيْئًا لِقَوْلِهِمْ فِي الطِّلَاءِ وَلَا تُحَرِّمُهُ.
کونسی طلاء پینا درست ہے اور کونسی نہیں؟
عطاء بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابن عباس ؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا: اللہ کی قسم! آگ کسی (حرام) چیز کو حلال نہیں کرتی، اور نہ ہی کسی (حلال) چیز کو حرام کرتی ہے پھر آپ نے اپنے اس قول آگ کسی چیز کو حلال نہیں کرتی کی شرح میں یہ کہا کہ یہ رد ہے طلاء کے سلسلے میں بعض لوگوں کے قول کا ١ ؎ کہ آگ جس کو چھولے اس سے وضو واجب ہوجاتا ہے ٢ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي (تحفة الٔاشراف: ٥٩٣٢) (صحیح الإسناد )
وضاحت: ١ ؎: وہ قول یہ ہے آگ سے طلاء حلال ہوجاتا ہے یعنی: طلاء کا دد تہائی جب جل جائے اور ایک ثلث باقی رہ جائے تو یہ آخری تہائی حلال ہے۔ ٢ ؎: یہ تردید اس طرح ہے کہ اگر یہ کہتے ہیں کہ آگ سے پکنے سے پہلے کوئی چیز حلال تھی اور پکنے کے بعد وہ حرام ہوگئی، تو یہ ماننا پڑے گا کہ آگ بھی کسی چیز کو حلال اور حرام کرتی ہے، حالانکہ ایسی بات نہیں ہے۔ اس تشریح سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ الوضوء مما مست النار کا جملہ حدیث نمبر ٥٧٣٣ کا تتمہ ہے، نہ کہ کوئی مستقل باب کا عنوان، جیسا کہ بعض لوگوں نے سمجھ لیا ہے (سندھی اور حاشیہ نظامیہ میں اس پر انتباہ موجود ہے، نیز: اگر اس جملے کو ایک مستقل باب مانتے ہیں تو اس میں مذکور آثار (نمبر ٥٧٣٤ تا ٥٧٣٧ ) کا اس باب سے کوئی تعلق بھی نظر نہیں آتا)۔
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني: حديث نمبر 5730
Top