مؤطا امام مالک - - حدیث نمبر 1258
حدیث نمبر: 668
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ الْمِصْرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ كَانَ قَاعِدًا عَلَى مَيَاثِرِ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ فِي إِمَارَتِهِ عَلَى الْمَدِينَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَعَهُ عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخَّر عُمَرُ الْعَصْرَ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ عُرْوَةُ:‏‏‏‏ أَمَا إِنَّ جِبْرِيلَ نَزَلَ فَصَلَّى إِمَامَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ عُمَرُ:‏‏‏‏ اعْلَمْ مَا تَقُولُ يَا عُرْوَةُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ بَشِيرَ بْنَ أَبِي مَسْعُودٍ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا مَسْعُودٍ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏ نَزَلَ جِبْرِيلُ فَأَمَّنِي فَصَلَّيْتُ مَعَهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ صَلَّيْتَ مَعَهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ صَلَّيْتَ مَعَهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ، ‏‏‏‏‏‏يَحْسُبُ بِأَصَابِعِهِ خَمْسَ صَلَوَاتٍ.
نماز کے اوقات کا بیان
ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ وہ عمر بن عبدالعزیز کے گدوں پہ بیٹھے ہوئے تھے، اس وقت عمر بن عبدالعزیز مدینہ منورہ کے امیر تھے، اور ان کے ساتھ عروہ بن زبیر بھی تھے، عمر بن عبدالعزیز نے عصر کی نماز میں کچھ دیر کردی تو ان سے عروہ نے کہا: سنیے! جبرائیل (علیہ السلام) آئے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی امامت فرمائی، تو ان سے عمر بن عبدالعزیز نے کہا: عروہ! جو کچھ کہہ رہے ہو سوچ سمجھ کر کہو؟ اس پر عروہ نے کہا کہ میں نے بشیر بن ابی مسعود کو کہتے سنا کہ میں نے اپنے والد ابی مسعود ؓ کو کہتے سنا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: جبرائیل (علیہ السلام) تشریف لائے، اور انہوں نے میری امامت کی تو میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی۔۔۔ وہ اپنی انگلیوں سے پانچوں نمازوں کو شمار کر رہے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المواقیت ٢ (٥٢١)، بدء الخلق ٦ (٣٢٢١)، المغازي ١٢ (٤٠٠٧)، صحیح مسلم/المساجد ٣١ (٦١٠)، سنن ابی داود/الصلاة ٢ (٣٩٤)، سنن النسائی/المواقیت ١ (٤٩٥)، (تحفة الأشراف: ٩٩٧٧)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/وقوت الصلاة ١ (١)، مسند احمد (٤/١٢٠) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: تو عروہ نے حدیث کی سند بیان کر کے عمر بن عبدالعزیز کی تسلی کردی، اور دوسری روایت میں ہے کہ عروہ نے ایک اور حدیث بھی ام المؤمنین عائشہ ؓ سے روایت کی جو آگے مذکور ہوگی، عروہ کا مقصد یہ تھا کہ نماز کے اوقات مقرر ہیں اور جبرائیل (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے نبی اکرم کو ان کی تعلیم دی تھی اور آپ اپنے اوقات میں نماز ادا فرماتے تھے، ایک روایت میں ہے کہ اس روز سے عمر بن عبدالعزیز نے کبھی نماز میں دیر نہیں کی، اس سے عروہ کا مقصد یہ تھا کہ نماز کے اوقات کی تحدید کے لئے جبرئیل (علیہ السلام) نازل ہوئے، اور انہوں نے نبی اکرم کو عملی طور پر سکھایا، اس لئے اس سلسلہ میں کوتاہی مناسب نہیں۔
Top