مسند امام احمد - - حدیث نمبر 635
حدیث نمبر: 635
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ بْنِ الْمُصْطَلِقِ، عَنْ ابْنِ أَخِي زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ تَصَدَّقْنَ وَلَوْ مِنْ حُلِيِّكُنَّ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّكُنَّ أَكْثَرُ أَهْلِ جَهَنَّمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ .
زیور کی زکوة
عبداللہ بن مسعود کی اہلیہ زینب ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ نے ہم سے خطاب کیا اور فرمایا: اے گروہ عورتوں کی جماعت! زکاۃ دو ١ ؎ گو اپنے زیورات ہی سے کیوں نہ دو۔ کیونکہ قیامت کے دن جہنم والوں میں تم ہی سب سے زیادہ ہوگی ۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (بہذا السیاق وبہذا المناسبة ( تحفة الأشراف: ١٥٨٨٧) وانظر: مسند احمد (٦/٣٦٣) (صحیح) (اگلی حدیث (٦٣٦) سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے)
وضاحت: ١ ؎: مولف نے اس سے فرض صدقہ یعنی زکاۃ مراد لی ہے کیونکہ «تصدقن» امر کا صیغہ ہے اور امر میں اصل وجوب ہے یہی معنی باب کے مناسب ہے، لیکن دوسرے علماء نے اسے استحباب پر محمول کیا ہے اور اس سے مراد نفل صدقات لیے ہیں اس لیے کہ خطاب ان عورتوں کو ہے جو وہاں موجود تھیں اور ان میں ساری ایسی نہیں تھیں کہ جن پر زکاۃ فرض ہوتی، یہ معنی لینے کی صورت میں حدیث باب کے مناسب نہیں ہوگی اور اس سے زیور کی زکاۃ کے وجوب پر استدلال صحیح نہیں ہوگا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح بما بعده (636)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 635
Top