مسند امام احمد - حضرت معاذ بن انس جہنی کی حدیثیں۔ - حدیث نمبر 18820
حدیث نمبر: 1308
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا أُتْبِعَ أَحَدُكُمْ عَلَى مَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏فَلْيَتْبَعْ . قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَالشَّرِيدِ بْنِ سُوَيْدٍ الثَّقَفِيِّ.
مال دار کی قرض کی ادائیگی میں تاخیر کرناظلم ہے
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم فرمایا: مالدار آدمی کا قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے ١ ؎ اور جب تم میں سے کوئی کسی مالدار کی حوالگی میں دیا جائے تو چاہیئے کہ اس کی حوالگی اسے قبول کرے ٢ ؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں ابن عمر اور شرید بن سوید ثقفی ؓ سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحوالة ٢ (٢٢٨٨)، والاستقراض ١٢ (٢٤٠٠)، صحیح مسلم/المساقاة ٧ (البیوع ٢٨) (١٥٦٤)، سنن ابی داود/ البیوع ١٠ (٣٣٤٥)، سنن النسائی/البیوع ١٠٠ (٤٦٩٢)، و ١٠١ (٤٦٩٥)، سنن ابن ماجہ/الصدقات ٨ (الأحکام ٤٨)، (٢٤٠٣)، (تحفة الأشراف: ١٣٦٦٢)، وط/البیوع ٤٠ (٨٤)، و مسند احمد (٢/٢٤٥، ٢٥٤، ٢٦٠، ٣١٥، ٣٧٧، ٣٨٠، ٤٦٣، ٤٦٥)، سنن الدارمی/البیوع ٤٨ (٢٦٢٨) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: قرض کی ادائیگی کے باوجود قرض ادا نہ کرنا ٹال مٹول ہے، بلا وجہ قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول سے کام لینا کبیرہ گناہ ہے۔ ٢ ؎: اپنے ذمہ کا قرض دوسرے کے ذمہ کردینا یہی حوالہ ہے، مثلاً زید عمرو کا مقروض ہے پھر زید مقابلہ بکر سے یہ کہہ کر کرا دے کہ اب میرے ذمہ کے قرض کی ادائیگی بکر کے سر ہے اور بکر اسے تسلیم بھی کرلے تو عمرو کو یہ حوالگی قبول کرنی چاہیئے، اس میں گویا حسن معاملہ کی ترغیب ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2403)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 1308
Top