سنن الترمذی - قرآن کی تفسیر کا بیان - حدیث نمبر 2957
حدیث نمبر: 3207
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ الزِّبْرِقَانِ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ لَوْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَاتِمًا شَيْئًا مِنَ الْوَحْيِ لَكَتَمَ هَذِهِ الْآيَةَ:‏‏‏‏ وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ يَعْنِي بِالْإِسْلَامِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ يَعْنِي بِالْعِتْقِ فَأَعْتَقْتَهُ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَاهُ إِلَى قَوْلِهِ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولا سورة الأحزاب آية 37، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا تَزَوَّجَهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ تَزَوَّجَ حَلِيلَةَ ابْنِهِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى:‏‏‏‏ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ سورة الأحزاب آية 40، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَبَنَّاهُ وَهُوَ صَغِيرٌ، ‏‏‏‏‏‏فَلَبِثَ حَتَّى صَارَ رَجُلًا يُقَالُ لَهُ:‏‏‏‏ زَيْدُ بْنُ مُحَمَّدٍ فَأَنْزَلَ اللَّهُ:‏‏‏‏ ادْعُوهُمْ لآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ سورة الأحزاب آية 5 فُلَانٌ مَوْلَى فُلَانٍ وَفُلَانٌ أَخُو فُلَانٍ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ سورة الأحزاب آية 5 يَعْنِي أَعْدَلُ عِنْدَ اللهِ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏قَدْ رُوِيَ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:‏‏‏‏ لَوْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَاتِمًا شَيْئًا مِنَ الْوَحْيِ لَكَتَمَ هَذِهِ الْآيَةَ:‏‏‏‏ وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ سورة الأحزاب آية 37 هَذَا الْحَرْفُ لَمْ يُرْوَ بِطُولِهِ،
سورہ احزاب کی تفسیر
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ اگر رسول اللہ وحی کی کوئی چیز چھپا لینے والے ہوتے تو یہ آیت «وإذ تقول للذي أنعم اللہ عليه» جب آپ اس شخص سے جس پر اللہ نے اسلام کے ذریعہ انعام کیے تھے اور آپ نے بھی (اسے آزاد کر کے) اس پر انعام و احسان کیے تھے کہہ رہے تھے کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس رہنے دو (طلاق نہ دو ) اور اللہ سے ڈرو، اور تم اپنے دل میں وہ بات چھپا رہے تھے جسے اللہ ظاہر کرنا چاہتا تھا تم لوگوں کے (لعن طعن) سے ڈرتے تھے اور اللہ اس کا زیادہ سزاوار ہے کہ تم اس سے ڈرو ، سے لے کر «وكان أمر اللہ مفعولا» تک چھپالیتے، رسول اللہ نے جب ان سے (زینب سے) شادی کرلی تو لوگوں نے کہا: آپ نے اپنے (لے پالک) بیٹے کی بیوی سے شادی کرلی، اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت «ما کان محمد أبا أحد من رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبيين» محمد ( ) تم لوگوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں بلکہ وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبین (آخری نبی) ہیں ، نازل فرمائی، زید چھوٹے تھے تبھی رسول اللہ نے انہیں منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا، وہ برابر آپ کے پاس رہے یہاں تک کہ جوان ہوگئے، اور ان کو زید بن محمد کہا جانے لگا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «ادعوهم لآبائهم هو أقسط عند اللہ فإن لم تعلموا آباء هم فإخوانکم في الدين ومواليكم» انہیں ان کے (اصلی باپ کی طرف) منسوب کر کے پکارو (جن کے نطفے سے وہ پیدا ہوئے ہیں) یہ اللہ کے نزدیک زیادہ مبنی بر انصاف بات ہے، لیکن اگر تم ان کے باپوں کو نہ جانتے ہو (کہ وہ کون ہیں) تو وہ تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں ، فلاں فلاں کا دوست ہے اور فلاں فلاں کا دینی بھائی ہے ٤ ؎، «هو أقسط عند الله» یہ اللہ کے نزدیک زیادہ انصاف پر مبنی کا مفہوم یہ ہے کہ پورا انصاف ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔ اس سند سے مسروق نے عائشہ سے روایت کی ہے، وہ کہتی ہیں: اگر نبی اکرم وحی میں سے کچھ چھپانے والے ہوتے تو آپ یہ آیت «وإذ تقول للذي أنعم اللہ عليه وأنعمت عليه» چھپاتے، (اس روایت میں) یہ حدیث کی پوری روایت نہیں کی گئی ہے ٥ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف: ١٦١٦٩) (ضعیف الإسناد جداً )
وضاحت: ٤ ؎: اگر وہ آزاد ہوں تو ترجمہ ہوگا فلاں فلاں کے دوست، حلیف اور اگر آزاد کردہ غلام ہوں تو ترجمہ ہوگا فلاں فلاں کا آزاد کردہ غلام یہی بات «موالیکم» کے ترجمہ میں بھی ملحوظ رہے۔ ٥ ؎: یعنی: اس حدیث کی دو سندوں میں شعبی کے بعد مسروق کا اضافہ ہے، اور یہی سندیں متصل ہیں ( یہ آگے آرہی ہیں ) پہلی سند میں انقطاع ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد جدا
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 3207
Sayyidina Ibn Abbas (RA) reported that some Jews came to the Prophet ﷺ and said, “O Abul Qasim!Tell us about al-Ra’d (The Thunder) what is it?” He said, “He is an angle among angels appointed over the clouds. He holds a whip of fire with which he drives the clouds to whatever Allah wills.” They asked, “What is this sound that we hear?” He said, “This is his urging the clouds when he drives them till they end up where they are commanded to go.” They said “You speak the truth.” And they asked, “What had Isra’il forbidden himself?” He said, “He complained of sciatica and he did not find anything comforting him except the flesh of camel and camel milk. So, hed forbid himself these things.” They said, “You speak the truth.”
Top