مشکوٰۃ المصابیح - - حدیث نمبر 3323
حدیث نمبر: 3323
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنِي أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَا قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْجِنِّ وَلَا رَآهُمْ، ‏‏‏‏‏‏انْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي طَائِفَةٍ مِنْ أَصْحَابِهِ عَامِدِينَ إِلَى سُوقِ عُكَاظٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ حِيلَ بَيْنَ الشَّيَاطِينِ وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَأُرْسِلَتْ عَلَيْهِمُ الشُّهُبُ، ‏‏‏‏‏‏فَرَجَعَتِ الشَّيَاطِينُ إِلَى قَوْمِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ مَا لَكُمْ ؟ قَالُوا:‏‏‏‏ حِيلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَاءِ وَأُرْسِلَتْ عَلَيْنَا الشُّهُبُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ مَا حَالَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَاءِ إِلَّا أَمْرٍ حَدَثَ، ‏‏‏‏‏‏فَاضْرِبُوا مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَانْظُرُوا مَا هَذَا الَّذِي حَالَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَاءِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَانْطَلَقُوا يَضْرِبُونَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا يَبْتَغُونَ مَا هَذَا الَّذِي حَالَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَاءِ، ‏‏‏‏‏‏فَانْصَرَفَ أُولَئِكَ النَّفَرُ الَّذِينَ تَوَجَّهُوا نَحْوَ تِهَامَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِنَخْلَةَ عَامِدًا إِلَى سُوقِ عُكَاظٍ وَهُوَ يُصَلِّي بِأَصْحَابِهِ صَلَاةَ الْفَجْرِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا سَمِعُوا الْقُرْآنَ اسْتَمَعُوا لَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ هَذَا وَاللَّهِ الَّذِي حَالَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَاءِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَهُنَالِكَ رَجَعُوا إِلَى قَوْمِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ يَا قَوْمَنَا:‏‏‏‏ إِنَّا سَمِعْنَا قُرْءَانًا عَجَبًا ‏‏‏‏ 1 ‏‏‏‏ يَهْدِي إِلَى الرُّشْدِ فَآمَنَّا بِهِ وَلَنْ نُشْرِكَ بِرَبِّنَا أَحَدًا ‏‏‏‏ 2 ‏‏‏‏ سورة الجن آية 1-2 فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِنَ الْجِنِّ سورة الجن آية 1 وَإِنَّمَا أُوحِيَ إِلَيْهِ قَوْلُ الْجِنِّ .
تفسیر سورت الجن
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے نہ قرآن جنوں کو پڑھ کر سنایا ہے اور نہ انہیں دیکھا ہے ١ ؎ (ہوا یہ ہے) کہ رسول اللہ اپنے صحابہ کی جماعت کے ساتھ عکاظ بازار جا رہے تھے، (بعثت محمدی کے تھوڑے عرصہ بعد) شیطانوں اور ان کے آسمانی خبریں حاصل کرنے کے درمیان رکاوٹ ڈال دی گئی تھی اور ان پر شعلے برسائے جانے لگے تھے، تو وہ اپنی قوم کے پاس لوٹ گئے، ان کی قوم نے کہا: کیا بات ہے؟ کیسے لوٹ آئے؟ انہوں نے کہا: ہمارے اور آسمان کی خبر کے درمیان دخل اندازی کردی گئی ہے، آسمانی خبریں سننے سے روکنے کے لیے ہم پر تارے پھینکے گئے ہیں، قوم نے کہا: لگتا ہے (دنیا میں) کوئی نئی چیز ظہور پذیر ہوئی ہے جس کی وجہ سے ہمارے اور آسمان کی خبر کے درمیان رکاوٹ کھڑی ہوئی ہے، تم زمین کے مشرق و مغرب میں چاروں طرف پھیل جاؤ اور دیکھو کہ وہ کون سی چیز ہے جو ہمارے اور ہمارے آسمان سے خبریں حاصل کرنے کے درمیان حائل ہوئی (اور رکاوٹ بنی) ہے چناچہ وہ زمین کے چاروں کونے مغربین و مشرقین میں تلاش کرنے نکل کھڑے ہوئے، شیاطین کا جو گروہ تہامہ کی طرف نکلا تھا وہ رسول اللہ کے پاس سے گزرا (اس وقت) آپ سوق عکاظ جاتے ہوئے مقام نخلہ میں تھے، اور اپنے صحابہ کے ساتھ فجر کی نماز پڑھ رہے تھے، جب انہوں نے قرآن سنا تو پوری توجہ سے کان لگا کر سننے لگے، (سن چکے تو) انہوں نے کہا: یہ ہے قسم اللہ کی! وہ چیز جو تمہارے اور آسمان کی خبر کے درمیان حائل ہوئی ہے، ابن عباس ؓ کہتے ہیں: یہیں سے وہ لوگ اپنی قوم کی طرف لوٹ گئے، (وہاں جا کر) کہا: اے میری قوم! «إنا سمعنا قرآنا عجبا يهدي إلى الرشد فآمنا به ولن نشرک بربنا أحدا» ہم نے عجیب و غریب قرآن سنا ہے جو راہ راست کی طرف رہنمائی کرتا ہے ہم اس پر ایمان لا چکے (اب) ہم کسی کو بھی اپنے رب کا شریک نہ بنائیں گے (الجن: ١- ٢) ، اسی موقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اکرم پر آیت «قل أوحي إلي أنه استمع نفر من الجن» نازل فرمائی، اور آپ پر جن کا قول وحی کیا گیا ٢ ؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ١٠٥ (٧٧٢)، تفسیر سورة الجن (٤٩٢١)، صحیح مسلم/الصلاة ٣١ (٤٤٦) (تحفة الأشراف: ٥٤٥٢) (صحیح)
وضاحت: ١ ؎: یہ ابن عباس ؓ کے اپنے علم کے مطابق ہے، چونکہ بات ایسی نہیں ہے کہ اس لیے شاید امام بخاری نے اس حدیث کا یہ ٹکڑا اپنی صحیح میں درج نہیں کیا ہے، اور صحیح مسلم میں اس کے فوراً بعد ابن مسعود ؓ کی روایت درج کی ہے کہ آپ نے جنوں کی دعوت پر ان کے پاس جا کر ان پر قرآن پڑھا ہے، ان دونوں حدیثوں میں تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ یہ دو واقعے ہیں، پہلے واقعہ کی بابت ابن عباس ؓ کی یہ روایت اور ان کا یہ قول ہے، اس کے بعد یہ ہوا تھا کہ آپ ان کے پاس تشریف لے جا کر ان کو قرآن سنایا تھا ( کما فی الفتح ) ٢ ؎: ابن عباس کا یہ قول ان کے اسی دعوے کی بنیاد پر ہے کہ آپ جنوں کے پاس خود نہیں گئے تھے، انہوں نے آپ کی قراءت اچانک سن لی، اس واقعہ کی اطلاع بھی آپ کو بذریعہ وحی دی گی۔
قال الشيخ الألباني: (قول ابن عباس: ما قرأ رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم علی الجن ... إلى قوله: وإنما أوحی إليه قول الجن) صحيح، (وقول ابن عباس: قول الجن لقومهم * (لما قام عبد الله .....) * إلى قوله: قالوا لقومهم * (لما قام عبد الله .....) *) صحيح الإسناد
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 3323
Top