تعارف
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سورۃ الکھف
سورة نمبر 18
رکوع 12
آیات 110
الفاظ وکلمات 1201
حروف 6620
کہف۔ وسیع، کشادہ پہاڑی نما غار کو کہتے ہیں۔
اس سورة میں دین کی سربلندی اور ایمان کی حفاظت کے لئے ان چند پر خلوص نوجوانوں کا ذکر فرمایا گیا ہے جنہوں نے شہری زندگی کی ہر راحت اور آرام کے مقابلے میں پہاڑ کے ایک غار میں پناہ لے لی تھی اللہ نے ان پر ایک ایسی طویل نیند طاری کردی کہ وہ تین سو نو 309 سال تک اسی جگہ پڑے سوتے رہے جب وہ اٹھے تو انہیں ایسا لگا جیسے وہ ایک دن یا آدھے دن پڑے سوتے رہے ہیں۔
اس سورة میں بتایا گیا ہے کہ اللہ اپنی اس کائنات کو اپنی مرضی سے چلا رہا ہے ۔ ہر کام کی مصلحت کیا ہے ؟ ضروری نہیں کہ ہر شخص اس کو سمجھ سکے۔ اسی لئے اللہ کے حکم سے حضرت موسیٰ اور حضرت خضر کا واقعہ بیان کیا گیا ہے تاکہ ہر شخص کو یقین ہوجائے کہ یہاں ہر بات کے پیچھے ایک مصلحت کام کر رہی ہے۔
کفار مکہ نے یہودیوں کے کہنے پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے چند سوالات کیے جس پر یہ سورة نازل ہوئی اس میں ایک سوال یہ بھی تھا کہ ذوالقرنین کون تھے ؟ اللہ نے فرمایا کہ وہ ایک نیک انسان تھے جو لوگوں کی خدمت کرنے کو سب سے بڑی سادت سمجھتے تھے اور اتنے بڑے بادشاہ ہونے کے باوجود ان میں غرور تکبر نہ تھا۔
کفار مکہ نے یہودیوں کے کہنے پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے چند ایسے واقعات کے متعلق پوچھا جس سے عام طور پر عرب کے لوگ ناواقف تھے۔ کفار مکہ اور یہودی یہ سمجھ رہے تھے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سوالوں کا جواب نہ دے سکیں گے لہٰذا ہمیں ان کو جھٹلانے اور مذاق اڑانے کا موقع مل جائے گا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے تمام سوالوں کے ایسے بھرپور جوابات دیتے کہ دشمنان اسلام حیران و پریشان رہ گئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کفار مکہ کے ظلم و ستم و ستم، بربریت اور معاشی بائیکاٹ کی انتہا ہوچکی تھی۔ کفار مکہ کے سوالات اور مکہ کے سنگین حالات میں سورة الکہف نازل کی گئی تاکہ کفار کے منہ بند ہوجائیں اور اہل ایمان کو تسلی اور تشقی مل جائے۔
اصحاب کہف کون تھے ؟ کیا تھے ؟ ان کی تعداد کتنی تھی ؟ اور کن حالات میں یہ واقعات پیش آئے ؟ اس کی تفصیل کو چھوڑ کر مختصر انداز میں اصحاب کہف کے جذبہ ایمانی اور ایثار و قربانی پر زور یدتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ وہ چند ایسے مخلص نوجوان تھے جنہوں نے شہری زندگی، گھر کے راحت و آرام اور خود اپنے گھر والوں کو چھوڑکر پہاڑوں کے غاروں کو اپنا مسکن بنا لیا تھا تاکہ ان کے ایمان کی حفاظت ہو سکے اور اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل ہو سکے۔ اللہ نے ان کے اس جذبے کو قبول فرماتے ہوئے انہیں عزت و سربلندی کے اس مقام تک پہنچا دیا جس پر انسانیت ناز کرسکتی ہے۔ ان کی صحبت کو اتنا عظیم قرار دیا کہ ان کے ساتھ لگ کر آنے والے کتے کو بھی شرف انسانیت سے نوازنے کا فیصلہ فرمایا گیا۔ یہی کتا جب کل قیامت میں اٹھایا جائے گا تو اس کو انسانی شرف سے نوازا جائے گا۔
قرآن کریم، احادیث اور تاریخی اعتبار سے اس واقعہ کی تفصیل جو سامنے آتی ہے وہی ہے کہ شہر افسوس میں رومی شہنشاہ دقیانوس نے اہل ایمان کو مٹانے کا طریقہ یہ اپنا رکھا تھا کہ اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے بتوں کے سامنے زبردستی سجدہ کراتا تھا اگر کوئی اس سے انکار کرتا تو اس پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے سے گریز نہیں کرتا تھا۔ اسی زمانے میں چند ایسے نوجوان یا نوجوان شہزادے جذبہ ایمانی کے پیکر بھی تھے جنہوں نے نہایت جرات و ہمت سے ظالم بادشاہ کے بتوں کے سامنے سجدہ کرنے سے بھرے دربار میں صاف انکار کردیا۔ یہ اتنی بڑی گستاخی تھی کہ اس پر ان نوجوان کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا لیکن نوجوان بچے سمجھ کر ان کو چند دنوں کی مہلت دے کر کہا گیا کہ وہ اچھی طرح غور کرلیں اور اپنے انجام کی فکر کرلیں مگر ان نوجوانوں نے اس بات کا فیصلہ کرلیا کہ کچھ بھی ہوجائے وہ غیر اللہ کے سامنے سجدہ نہیں کریں گے۔
یہ نوجوان ایک ایک کر کے پہاڑوں کی طرف نکل گئے۔ ان میں سے ایک شخص کے ساتھ ایک کتا بھی تھا یہ سب نوجوان جو ایک دوسرے سے ناقواف تھے جب کچھ دیر بعد آپس میں تعارف ہوا تو انہیں یہ معلوم کر کے بڑی خوشی ہوئی کہ وہ سب ایک ہی کشتی کے سوار ہیں یعنی سب کا ایک ہی ایمانی جذبہ ہے۔ سب نے مل کر طے کرلیا کہ وہ ان پہاڑوں میں بھوکے پیاسے مر جائیں گے لیکن بادشاہ کے گھڑے ہوئے بتوں اور اس کے ظلم و ستم کے آگے سر نہیں جھکائیں گے۔ ان سب نے اللہ کی بارگاہ میں راہ ہدایت پر قائم رہنے کی دعا بھی کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان نوجوانوں کے جذبہ ایمانی کی قدر کرتے ہوئے ان کی حفاظت کا انتظام فرما دیا۔ ان سب پر ایک ایسی نیند طاری فرما دی کہ وہ تین سو نو سال تک پڑے سوتے رہے۔ جب آنکھ کھلی تو وہ آپس میں ذکر کرنے لگے کہ ہم کتنے سوئے ہوں گے ؟ سب نے کہا کہ ہم دن بھر یا آدھے دن تک سوتے رہے ہیں۔ اللہ کی عظیم قدرت کو دیکھیے کہ وہ تین سو نو سال تک پڑے سوتے رہے نہ ان کو بھوک لگی نہ پیاس، بیدار ہوتے ہی ان کو بھوک نے ستانا شروع کردیا طے پایا کہ ان میں سے کوئی ایک آدمی نہایت خاموشی اور احتیاط سے شہر چلا جائے اور کچھ کھانے پینے کا سامان لے آئے۔ انہوں نے کہا کہ دیکھو اس طرح جانا کہ کسی کو شبہ بھی نہ ہو ورنہ وہ ظالم لوگ ہمیں یا تو قتل کردیں گے یا اپنے راستے پر چلانے کی کوشش کریں گے۔ ادھر تین سو نو سال بعد ملک کے حالات بالکل تبدیل ہوچکے تھے دقیانوس ظالم بادشاہ کو مرے ہوئے برسوں گذر چکے تھے اور بت پرستوں کے بجائے حضرت عیسیٰ کے ماننے والوں کی حکومت قائم تھی۔ چناچہ اس نوجوان نے کسی جگہ سے کھانے پینے کا سامان خریدا اور اس کے عوض چند سکے دیئے۔ دوکاندار اس نوجوان کے حلیے اور صدیوں پرانے سکھ دیکھ کر سوچنے لگا کہ یقینا اس نوجوان کو کسی جگہ سے گڑا ہوا خزانہ ہاتھ لگ گیا ہے اور وہ اس کو لے کر بازار آگیا ہے۔ اس دوکاندار نے حاکم شہر سے کہا۔ حاکم شہر نے اس نوجوان کو بادشاہ کے سامنے پیش کردیا بادشاہ نے اس کو یقین دلایا کہ وہ بالکل محفوظ ہے اور کفر و شرک کی حکومت مٹ چکی ہے بادشاہ کے جذبہ ایمانی کو دیکھ کر نوجوان نے سب کچھ بتا دیا۔ بادشاہ جو حضرت عیسیٰ کے لائے ہوئے دین پر قائم تھا اسے تاریخی اعتبار سے یہ معلوم تھا کہ برسوں پہلے کچھ نوجوان اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے غائب ہوگئے تھے اور تلاش کرنے کے باوجود ان کا کوئی سراغ نہ مل سکا تھا۔ بادشاہ سمجھ گیا کہ یقینا یہی وہ نوجوان ہیں جن کی داستانیں پرانے زمانے کے لگو سنایا کرتے تھے۔ نیز اس زمانے میں یہ بحث بھی ہو رہی تھی کہ جب انسان مر جائے گا اس کے جسم کا ریزہ ریزہ ہوجائے گا تو وہ جسم و جان کے ساتھ کس طرح دوبارہ پیدا ہوگا ۔ اصحاب کہف کے اسو اقعہ نے اس بحث کا خاتمہ بھی کردیا۔ بادشاہ نے اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ ہمیں بقیہ نوجوانوں کی بھی زیارت کرنی چاہئے چناچہ بادشاہ، اس کے اہل خانہ، وزرائ، درباری اور ہزاروں عام شہری پہاڑ کے اس غار کی طرف روانہ ہوگئے جہاں اصحاب کہف ٹھہرے ہوئے تھے ۔ جب یہ لوگ غار کے قریب پہنچے تو اصحاب کہف یہ سمجھ کر کہ شاید بادشاہ کو معلوم ہوگیا ہے اور وہ لوگ ان کو پکڑنے آ رہے ہیں دوبارہ غاروں میں چھپ گئے۔ وہ نوجوان جو کھانا لینے گیا تھا وہ تلاش کرنے نکلا تو اپنے ساتھیوں کے ساتھ خود بھی کسی غار میں گم ہوگیا۔ علماء نے لکھا ہے کہ ان سب پر اللہ نے موت کو دوبارہ طاری فرما دیا ہوگا ۔ اس طرح اللہ نے اصحاب کہف پر دوبارہ نیند کا پردہ ڈال کر ایسا رعب اور دہشت طاری کردی کہ پھر کوئی شخص وہاں رک نہ سکا۔
بادشاہ وقت اور لوگوں نے مشورے کے بعد ان غاروں کے پاس علامت کے طور پر ایک مسجد بنا دی۔ اس واقعہ میں اللہ تعالیٰ نے تمام کفار اور مشرکین اور خاص طور پر کفار مکہ کو اس حقیقت پر متوجہ کیا ہے کہ یہ چند نوجوان جو پہاڑی غاروں میں ہجرت کرنے کی وجہ سے ” اصحاب کہف “ کہلاتے ہیں اللہ نے ان کے تذکرے کو کس قدر عزت و عظمت کا مقام عطا فرمایا ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے اور آخرت کی ابدی راحتیں ان کو کتنا سکون پہنچائیں گی اس کا تصور بھی مشکل ہے اگر یہ نوجوان بھی دنیا کی زیب وزینت ، راح و آرام اور دنیاوی لذتوں میں گم ہوجاتے تو آج صدیوں کے بعد ان کا ذکر خیر نہ ہوتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے اس کی راہ میں جان و مال سے قربانیاں دینا، اپنے ایمان و عمل صالح پر قائم رہنا اور اللہ کے لئے اپنا سب کچھ لٹا دینے کا جذبہ رکھنا حقیقی کامیابی ہے اور اسی میں دین و دنیا کی عظمتوں کا راز پوشیدہ ہے۔