بصیرتِ قرآن - مولانا محمد آصف قاسمی
سورۃ التحريم - تعارف
تعارف
تعارف : سورة التحریم سورة نمبر 66 کل رکوع 2 آیات 12 الفاظ و کلمات 253 حروف 1124 مقام نزول مدینہ منورہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی اسوہ حسنہ ہے اس لئے اگر آپ سے کہیں بھول ہوجاتی تھی تو اللہ کی طرف سے آپ کی فوری رہنمائی فرما دی جاتی تھی۔ آپ نے محض ازواج کے کہنے کی وجہ سے شہد کو اپنے اوپر حرام کرلیا تھا اگر آپ کو اس سے مطلع نہ کیا جاتا تو شہد کا استعمال ممنوع ہوجاتا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر مومن کو بتادیا کہ اصل چیز اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت و فرمانبرداری ہے کسی کا بیٹا، بیوی اور بھائی ہونا کافی نہیں ہے۔ حضرت نوح کا بیٹا اور حضرت لوط کی بیوی نافرمان تھے تو انہیں نبی کی بیوی اور بیٹا ہونا کام نہیں آیا لیکن فرعون جیسے ظالم کی بیوی حضرت آسیہ جو ایمان لے آئیں تھیں اللہ نے ان کا ذکر بڑی شان سے کیا ہے۔ حضرت مریم جنہوں نے ہمیشہ اپنی آبرو کی حفاظت کی تھی اور عمل صالح کو زندگی بنایا تھا تو اللہ نے ان کو عظیم مقام عطا فرمایا۔ معلوم ہوا کہ جنت کی ابدی راحتوں کے لئے ایمان اور عمل صالح بنیاد ہے ۔ ٭نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عصر کی نماز کے بعد تھوڑی تھوڑی دیر کے لئے اپنی ازواج کے پاس ان کی خیریت معلوم کرنے تشریف لے جایا کرتے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سب ہی ازواج آپ سے بےانتہا محبت کرتی تھیں اور ہر ایک کی خواہش ہوتی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زیادہ سے زیادہ ان کے پاس رہیں تاکہ وہ اللہ کی رحمت کو حاصل کرسکیں۔ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت زیب (رض) کے پاس تشریف لے جاتے تو انہیں معلوم تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو میٹھی چیز بہت پسند ہے اور وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آنے سے پہلے شہد تیار رکھتیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جیسے ہی تشریف لاتے تو حضرت زینب (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شہد پیش کرتیں جس کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ازواج کے مقابلے میں حضرت زینب (رض) کے پاس زیادہ رک جاتے تھے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ مجھے اس پر شک آتا۔ میں نے حضرت حفصہ (رض) سے مشورہ کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائیں تو ہم یہ کہیں کہ کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مغافیر (گوند جیسا جس میں کچھ بدبو بھی ہوتی تھی) استعمال فرمایا ہے۔ چونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بدبو سے دلی نفرت تھی تو حضرت عائشہ (رض) اور پھر حضرت حفصہ (رض) کے کہنے کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قسم کھائی کہ آج کے بعد شہد استعمال نہ کروں گا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس خیال سے کہ حضرت زینب (رض) کو برا نہ لگے یا ان کی دل شکنی نہ ہو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حفصہ (رض) سے فرمایا کہ تم اس کا ذکر کسی سے نہ کرنا۔ مگر حضرت حفصہ (رض) نے اس کا ذکر حضرت عائشہ (رض) سے کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے وحی خفی کے ذریعہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس سے مطلع فرما دیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حفصہ (رض) سے فرمایا کہ تم نے یہ بات حضرت عائشہ (رض) کو کیوں بتائی ؟ حضرت حفصہ (رض) نے حیرت اور تعجب سے کہا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ بات کس نے بتا دی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے مطلع کیا ہے جو ہر بات کا جاننے والا ہے۔ اس کے بعد اللہ نے سورة الحتریم کی آیات نازل فرمائیں۔ چونکہ آپ کی ذات ایک بہترین نمونہ زندگی ہے اس لئے اللہ نے ان آیات میں آپ کو مطلع فرما دیا کہ اللہ نے جس چیز کو حرام نہیں کیا اس کو اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اوپر حرام کرلیں گے تو سب مسلمان ایک حلال چیز کو حرام سمجھنے لگیں گے اس لئے واضح الفاظ میں فرما دیا کہ کسی چیز کو حلال یا حرام جائز یا ناجائز قرار دینا یہ اللہ کا کام ہے نبی کا یہ کام نہیں ہے۔ ٭اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حلال چیز کو محض اپنی بیویوں کی خاطر کیوں حرام کرلیا ہے ؟ بہرحال اللہ تو معاف کرنے والا اور مہربان ہے۔ اس لئے اس نے قسم کھانے کے بعد (اگر وہ صحیح نہ ہو تو) اس پابندی سے باہر نکلنے کا طریقہ مقرر کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک بات مکمل راز داری کے ساتھ اپنی ایک بیوی کو بتائی۔ اس نے اس راز کی بات کو ظاہر کردیا تو اللہ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس سے مطلع کردیا۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ان بیبوی سے پوچھا تو وہ کہنے لگیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی اطلاع کس نے دی ؟ تو نبی و نے فرمایا کہ مجھے اس اللہ نے یہ بات بتائی جو ہر چیز کا جاننے والا اور ہر بات کی خبر رکھنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں ازواج سے فرمایا کہ اگر تم دونوں نے اس سے توبہ کرلی تو تمہارے حق میں زیادہ بہتر ہے۔ کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ اس معاملہ میں تمہارے دل بھٹک گئے تھے۔ ٭فرمایا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلے میں کوئی جتھا بندی کی تو اللہ اس کے فرشتے جبرئیل تمام صالح اہل ایمان اور سارے فرشتے اس کے ساتھ اس کے مددگار ہیں۔ ٭اگر وہ تم سب کو طلاق دیدیں تو اللہ کسی کا محتاج نہیں ہے وہ تم سے بہتر بیویاں ان کو عطا کرسکتا ہے جو ہوسکتا ہے تم سے بھی زیادہ بہتر ہوں۔ وہ بھی سچی مسلمان، ایمان والیاں، اطاعت و فرمانبردار، توبہ کرنے والیاں، عبادت گزار اور روزے رکھنے والیاں، کنواری اور بیوہ وہ سب کچھ دینے پر قدرت رکھتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو چند اور بنیادی باتوں سے ان کی رہنمائی فرمائی ہے تاکہ ہر مومن اپنی دنیا اور آخرت کو سنوار سکے فرمایا۔ ٭ایمان والو سے فرمایا کہ ! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس زبردست آگ سے بچائو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔ اس آگ پر ایسے ہیبت ناک اور سخت گیر فرشتے مقرر ہوں گے جو کبھی اللہ کی نافرمانی نہیں کرسکتے اور ان کو جب اور جیسا حکم دیا جاتا ہے وہ اس کی پوری طرح تعمیل کرتے ہیں۔ فرمایا کہ قیامت کے دن کافروں سے کہا جائے گا کہ آج معذرتیں پیش کرنے کا دن نہیں ہے بلکہ جو کچھ تم نے کیا ہے آج اس کے بدلے کا دن ہے۔ جس نے جیسا کچھ کیا ہوگا اس کو ویسا ہی بدلہ دیا جائے گا۔ ٭اہل ِ ایمان سے فرمایا کہ ! تم ایسی توبہ کرو جو سچی اور خالص تو بہ ہو۔ وہ اللہ ایسا مہربان ہے کہ ممکن ہے وہ تمہاری خطاؤں کو معاف کردے اور ایسی جنتوں میں داخل فرما دے جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ اس دن اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو اور ان لوگوں کو جو ان کے ساتھ ایمان لائے ہیں رسوا نہ کرے گا۔ ان کے اعمال کا نور ان کے آگے آگے اور ان کے داہنی طرف دوڑ رہا ہوگا۔ ان کی زبانوں پر ہوگا کہ الٰہی ! اس نور اور روشنی کو آخر تک قائم رکھئے گا۔ ہم سے درگزر فرمائیے کیونکہ ہر چیز پر آپ ہی کو قدرت حاصل ہے۔ ٭نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا گیا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کفار اور منافقین سے جہاد کیجئے اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آئیے کیونکہ آخر کار ان کافروں اور منافقوں کا ٹھکانا وہ جہنم ہے جو بدترین ٹھکانا ہے۔ ٭اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) اور حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیویوں کی مثال پیش کی ہے۔ وہ دونوں ہمارے صالح اور نیک بندے تھے وہ اگرچہ ان کی زوجیت میں تھیں مگر انہوں نے اپنے شوہروں سے خیانت کی تھی تو اللہ کے مقابلے میں وہ ان کے کچھ بھی کام نہ آسکے۔ ان کی بیویوں سے کہہ دیا گیا کہ تم آگ میں داخل ہونے والوں کے ساتھ جائو۔ اس کے برخلاف فرعون جیسے ظالم کی بیوی (حضرت آسیہ) کی مثال یہ ہے کہ انہوں نے اللہ سے دعا کی الٰہی ! میرے لئے اپنے ہاں جنت میں میرا گھر اور ٹھکانا بنا دیجئے۔ مجھے فرعون اور اس کے عمل سے بچا لیجئے اور ظالم قوم سے نجات عطا فرمائیے۔ فرمایا کہ عمران کی بیٹی حضرت مریم (علیہ السلام) کی زندگی بھی ایک مثال ہے جنہوں نے اپنی آبرو کی حفاظت کی۔ پھر ہم نے ان کے ندر اپنی روح پھونک دی۔ اس نے اپنے پروردگار کے احکامات اور ارشادات کی اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور وہ اطاعت گزار بن کر رہی۔ مراد یہ ہے کہ انسان کے اعمال کی بڑی قدر و قیمت ہے۔ اونچی نسبت بھی اسی وقت کام دیتی ہے جب ایمان اور عمل صالح کی زندگی بھی ہو۔
Top