سیرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ - واقعہ رجیع اور بئر معونہ
یہ حکم ملتے ہی سب صحابہ کرام رضی الله عنہم نے ان لوگوں سے علیحدگی اختیار کرلی۔خود آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے بھی بات چیت بند کردی۔صحابہ کرام نے تو یہاں تک کیا کہ اگر ان لوگوں میں کسی کا باپ اور بھائی بھی تھا تو اس نے اس سے بھی بات چیت ترک کردی۔ جب حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم تبوک کے لیے روانہ ہوئے تھے،اس وقت منافقوں کی ایک جماعت مدینہ منوره ہی میں رہ گئی تھی۔ان کی تعداد 80 کے قریب تھی۔انہوں نے جہاد پر نہ جانے کے لیے مختلف حیلے بہانے کیے تھے...لیکن ان کے علاوہ تین مسلمان ایسے تھے جو صرف سستی کی وجہ سے نہیں گئے تھے، یہ حضرت کعب بن مالک،مراره بن ربیع اور ہلال بن امیہ رضی الله عنہم تھے۔ان حضرات سے مسلمانوں نے بات چیت ترک کردی۔جب انہوں نے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنا اپنا عذر پیش کیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: "تم لوگ جاؤ!اللّٰہ تمہارے حق میں فیصلہ فرمائیں گے۔" چند دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے انہیں اپنی بیویوں سے بھی الگ رہنے کا حکم فرمادیا... انہوں نے بیویوں کو اپنے ماں باپ کے گھر بھیج دیا... البتہ حضرت بلال بن امیہ رضی اللّٰہ عنہ بوڑھے تھے۔ان کے بڑھاپے کی وجہ سے انہیں اتنی اجازت دی گئی کہ بیوی گھر میں ره کر خدمت کرسکتی ہے...لیکن رہیں گے الگ الگ۔ اس طرح پچاس دن گزرگئے۔سب لوگ ان تین حضرات سے بات چیت چھوڑ چکے تھے۔پچاس دن بعد اللّٰہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی۔لوگوں نے انہیں مبارک باد دی...تینوں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے...آپ صلی الله علیہ وسلم نے بھی انہیں مبارک باد دی...ان حضرات نے اس خوشی میں اپنا بہت سا مال صدقہ کیا۔ غزوہ تبوک کے بعد آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے کسی جنگ میں خود حصہ نہیں لیا۔البتہ صحابہ کرام کو مختلف مہمات پر آپ روانہ فرماتے رہے۔جن مہمات میں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے بذات خود حصہ نہیں لیا۔ان مہمات کو سرایا کہا جاتا ہے۔سرایا،سریہ کی جمع ہے...ایسے سرایا غزوہ تبوک سے پہلے بھی ہوئے اور بعد میں بھی۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی زندگی مبارک میں 47 مرتبہ کے قریب صحابہ کرام کو سرایا کے لیے روانہ فرمایا۔ان میں سے واقعہ رجیع اور واقعہ بئر معونہ بہت دردناک اور مشہور ہیں ۔پہلے واقعہ رجیع کی تفصیلات پڑھیے۔ قبیلہ عضل اور قبیلہ قاره کا ایک گروه آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ان لوگوں نے کہا "اے اللّٰہ کے رسول! ہمارے علاقے میں دین سکھانے کے لیے اپنے کچھ صحابہ بھیج دیجئے۔" رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے چھ صحابہ کو ان کے ساتھ بھیج دیا۔ان کے نام یہ ہیں ۔مرثد بن ابو مرثد غنوی،خالد بن بکیر لیثی،عاصم بن ثابت بن ابوالافلح،خبیب بن عدی،زید بن دثنہ اور عبداللہ بن طارق رضی الله عنہم۔حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے مرثد بن ابو مرثد کو ان پر امیر مقرر فرمایا۔وہ ان لوگوں کے ساتھ روانہ ہوگئے۔آخر یہ لوگ رجیع کے مقام پر پہنچے۔رجیع حجاز کے ایک ضلع میں واقع تھا۔ یہاں پہنچ کر قبیلہ عضل اور قاره کے لوگوں نے قبیلہ ہزیل کو آواز دی،قبیلہ ہزیل کے لوگ فوراً آگئے...گویا سازش پہلے ہی تیار کرلی گئی تھی...یہ لوگ انہیں سازش کے تحت لائے تھےتھے...قبیلہ ہزیل کے لوگوں کی تعداد سو کے قریب تھی۔ ان لوگوں نے ان صحابہ کو گھیر لیا...انہوں نے بھی تلواریں سونت لیں ...اس طرح جنگ شروع ہوگئی...اس جنگ کے نتیجے میں حضرت مرثد،خالد بن بکیر، حضرت عاصم اور عبداللہ بن طارق رضی الله عنہ شہید ہوگئے۔زید بن دثنہ اور خبیب بن عدی رضی الله عنہ گرفتار ہوگئے۔حضرت زید بن دثنہ رضی الله عنہ نے غزوہ بدر میں امیہ بن خلف کو قتل کیا تھا۔اس کے بیٹے صفوان نے اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے انہیں ان لوگوں سے خرید لیا اور قتل کروادیا۔ره گئے خبیب بن عدی رضی الله عنہ انہیں مکہ سے باہر تعنیم کے مقام پر لایا گیا...تاکہ انہیں پھانسی پرلٹکادیں ۔اس وقت حضرت خبیب بن عدی رضی الله عنہ نے ان سے فرمایا: "مناسب سمجھو تو قتل کرنے سے پہلے مجھے دو رکعت نماز ادا کرلینے دو۔" انہوں نے اجازت دے دی۔حضرت خبیب رضی الله عنہ نے دو رکعت بہت اچھی طرح اطمینان اور سکون سے پڑھیں ۔پھر ان لوگوں سے فرمایا: "میرا جی چاہتا تھا،یہ دو رکعت زیادہ لمبی پڑھوں ... لیکن تم خیال کرتے کہ میں موت کے خوف سے نماز لمبی کررہا ہوں ۔" تاریخ اسلام میں قتل سے پہلے دو رکعت نماز سب سے پہلے حضرت خبیب بن عدی رضی الله عنہ نے ادا کی۔اس کے بعد پھانسی کے تختے پر کھڑا کیا گیا اور اچھی طرح باندھا گیا۔اس وقت انہوں نے فرمایا: "اے اللّٰہ! میں نے تیرے رسول کا پیغام پہنچادیا،پس تو بھی رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم کو اس بات کی خبر پہنچادے کہ ان لوگوں نے میرے ساتھ کیا کیا ہے۔" اس کے بعد یہ دعا پڑھی: "اے اللّٰہ!ان کفار کو گِن لے اور انہیں الگ الگ کرکے قتل کر اور ان میں سے ایک بھی نہ چھوڑ۔" اس کے بعد کفار نے انہیں شہید کردیا۔ قریش مکہ کی ایک عورت سلافہ کے دو بیٹے حضرت عاصم رضی الله عنہ کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے۔اس نے منت مانی تھی کہ کوئی مجھے عاصم رضی الله عنہ کا سر لاکر دے گا تو میں اس کی کھوپڑی میں شراب ڈال کر پیوں گی...حضرت عاصم رضی الله عنہ کو اس منت کا پتا تھا،چنانچہ شہید ہونے سے پہلے انہوں نے دعا کی تھی کہ اے اللّٰہ میری لاش ان کے ہاتھ نہ لگے...چنانچہ جب انہیں شہید کردیا گیا اور وہ لوگ لاش کو اٹھانے کے لیے بڑھے تو ان پر شہد کی مکھیوں نے حملہ کردیا... وہ بھاگ کھڑے ہوئے،پھر انہوں نے فیصلہ کیا کہ رات کے وقت لاش اٹھالیں گے،رات کو تو شہد مکھیاں نہیں ہوں گی...لیکن رات کو اللّٰہ تعالیٰ نے پانی کا ایک ریلہ بھیجا جو لاش کو بہالے گیا۔ اس طرح اللّٰہ تعالیٰ نے ان کی لاش کی حفاظت فرمائی۔ حضرت خبیب رضی الله عنہ کی دعا بھی پوری ہوگئی... آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے بتایا گیا کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا گیاہے۔آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو بھی یہ خبر سنائی۔ واقعہ رجیع کے دنوں ہی میں بئر معونہ کا واقعہ پیش آیا۔اس کی تفصیل کچھ یوں ہے: حضور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے پاس قبیلہ بنی عامر کا سردار آیا۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے اسے اسلام کی دعوت دی۔اسلام قبول کرنے کے بجائے اس نے کہا: "میں سمجھتا ہوں کہ آپ کا پیغام نہایت شریفانہ اور اچھا ہے۔بہتر یہ ہے کہ آپ اپنے کچھ صحابہ کو نجد والوں کی طرف بھیج دیں ...وہاں قبیلہ بنی عامر اور بنی سلیم آباد ہیں ،وہ وہاں دین کی دعوت دیں ،مجھے امید ہے کہ نجد کے لوگ آپ کی دعوت قبول کریں گے۔" اس پر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "مجھے نجد والوں کی طرف سے اندیشہ ہے...کہیں وہ میرے صحابہ کو نقصان نہ پہنچائیں ۔" یہ بات آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس لیے فرمائی کہ ابو عامر کا چچا عامر بن طفیل اسلام کا بدترین دشمن تھا اور وہاں کے لوگ بھی سخت مخالف تھے۔آپ کی بات سن کر ابوعامر نے کہا: "آپ کے صحابہ میری پناه میں ہوں گے،میری ذمہ داری میں ہوں گے۔" آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس سے وعدہ کرلیا...وعدہ لے کر ابوعامر چلا گیا۔آپ نے حضرت منذر بن عمرو رضی الله عنہ کو چالیس یا ستر آدمیوں کے ساتھ روانہ فرمایا۔ یہ سب کے سب نہایت عابد اور زاہد صحابہ تھے، آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے انہیں ایک خط بھی لکھ کر دیا۔یہ لوگ مدینہ منوره سے روانہ ہوئے اور بئر معونہ پر جا ٹھرے۔بئر معونہ بنی عامر اور بنی سلیم کی سرزمین کے درمیان تھا۔بئر کنویں کو کہتے ہیں ۔یعنی معونہ کا کنواں ۔اس علاقے کو حرّه کہا جاتاہے۔یہاں سیاہ پتھر کثرت سے تھے۔ یہاں پہنچ کر ان حضرات نے حضرت حرام بن ملحان رضی الله عنہ کو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا خط دے کر عامر بن طفیل کی طرف بھیجا۔ حضرت حرام رضی الله عنہ اس کے پاس پہنچے اور آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا خط اسے دیا۔اس نے خط پڑھنا بھی گوارا نہ کیا۔ ادھر حضرت حرام رضی الله عنہ نے خط دیتے وقت ان سے کہا: "اے لوگوں !میں رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم کے قاصد کی حیثیت سے تمہارے پاس آیا ہوں ،اس لیے اللّٰہ اور اس کے رسول پر ایمان لےآؤ۔" ابھی وہ یہ الفاظ کہہ رہے تھے کہ عامر بن طفیل نے ایک شخص کو اشارہ کیا...وہ ان کے پیچھے آیا اور پہلو میں نیزہ دے مارا۔نیزہ ان کے جسم کے آر پار ہوگیا۔فوراً ہی ان کے منہ سے نکلا: "اللّٰہ اکبر!رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا۔" انہیں شہید کرانے کے بعد عامر بن طفیل نے اپنے لوگوں سے کہا: "اب اس کے باقی ساتھیوں کو بھی قتل کردو۔" انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا...کیونکہ کہ انہیں یہ بات معلوم تھی کہ یہ آنے والے حضرات ابوعامر کی پناه میں ہیں ۔ان کی طرف سے انکار سن کر عامر بن طفیل نے بنی سلیم کو پکارا۔اس کی پکار پر قبیلہ عصب،رعل اور ذکوان کے لوگ فوراً آگئے۔یہ سب مسلمانوں کی طرف بڑھے اور انہیں گھیرلیا۔مسلمانوں نے جب یہ صورت حال دیکھی تو فوراً تلواریں سونت لیں ...جنگ شروع ہوگئی...آخر لڑتے لڑتے یہ صحابہ کرام شہید ہوگئے۔ان میں صرف کعب بن زید رضی الله عنہ زندہ بچ گئے،وہ شدید زخمی تھے۔کفار نے انہیں مردہ خیال کیا... بعد میں انہیں میدان جنگ سے اٹھایا گیا تھا...اور یہ ان زخموں سے تندرست ہوگئے تھے۔ ان کے علاوہ حضرت عمرو بن امیہ رضی الله عنہ اور ان کے ساتھ ایک اور صحابی بھی اس لڑائی میں زندہ بچ گئے...جب مشرکوں نے مسلمانوں کو گھیرے میں لیا تھا تو یہ دونوں اس وقت اونٹ چرانے گئے ہوئے تھے۔جب ادھر ان صحابہ کو شہید کیا جارہا تھا،اس وقت آنحضرت صلی الله علیہ وسلم مدینہ میں خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ گھیرے میں آنے کے بعد مسلمانوں نے یہ دعا مانگی: "اے اللّٰہ!ہمارے پاس تیرے سوا ایسا کوئی ذریعہ نہیں کہ جو ہماری طرف سے تیرے رسول کو یہ خبر پہنچادے۔" اللّٰہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی...حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فوراً آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو اس واقعہ کی خبر دی۔آپ صلی الله علیہ وسلم نے خطبے کے دوران ہی یہ خبر صحابہ کرام رضی الله عنہم کو سنائی۔ "تمہارے بھائی مشرکوں سے دوچار ہوگئے۔مشرکوں نے انہیں شہید کردیا ہے۔" ادھر عمرو بن امیہ ضمری رضی الله عنہ اور ان کے ساتھی اونٹ چرانے گئے ہوئے تھے۔ ان دونوں نے پڑاؤ کی طرف مردار خور پرندوں کو منڈلاتے دیکھا تو پریشان ہوگئے،سمجھ گئے کہ کوئی خاص واقعہ پیش آگیا ہے۔چنانچہ یہ فوراﹰ اپنے ساتھیوں کی طرف روانہ ہوئے...اس وقت تک صحابہ کرام کے قاتل وہیں موجود تھے۔
Top