سیرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ - سفرآخرت
جب آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو اپنا ہاتھ مبارک پانی میں ڈال کر اپنے چہرہ انور پر پھیرنے لگے۔اس وقت آپ صلی الله علیہ وسلم فرمارہے تھے: "اے اللّٰہ!موت کی سختیوں پر میری مدد فرما۔" سیدہ فاطمہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ جب میں نے رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم پر بےچینی کے آثار دیکھے تو میں پکار اٹھی: "ہائے میرے والد کی بے چینی!" یہ سن کر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "آج کے بعد پھر کوئی بےچینی تمہارے باپ کو نہیں ہوگی۔" حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم پر وفات کے وقت جو اس قدر تکلیف اور بےچینی کے آثار ظاہر ہوئے،اس میں بھی اللّٰہ تعالیٰ کی حکمت ہے...یہ کہ اگر کسی مسلمان کو موت کے وقت اس طرح کی تکلیف اور بےچینی ہو تو حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی تکلیف کو یاد کرکے خود کو تسلی دے سکتا ہے۔یعنی دل میں کہہ سکتا ہے کہ جب اللّٰہ کے رسول پر موت کے وقت اتنی تکلیف گذری تو میری کیا حیثیت ہے؟یوں بھی موت کی سختی مومن کے درجات بلند ہونے کا سبب بنتی ہے۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں : "آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر موت کی تکلیف کے بعد اب میں کسی پر بھی موت کے وقت سختی کو ناگوار محسوس نہیں کرتی۔" جب آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو تکلیف ہوتی تھی تو فرمایا کرتے تھے: "اے تمام لوگوں کے پروردگار!یہ تکلیف دور فرمادے اور شفا عطا فرمادے کہ تو ہی شفا دینے والا ہے،تیری دی ہوئی شفا ہی اصل شفا ہے جس میں بیماری کا نام و نشان نہیں ہوتا۔" حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ جب آپ صلی الله علیہ وسلم کی بےچینی بڑھی تو میں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کا دایاں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور دعا کے یہی کلمات پڑھ کر دم کرنے لگی۔پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ مبارک کھینچ لیا اور یہ دعا پڑھی: " اے اللّٰہ! میری مغفرت فرما اور مجھے رفیق اعلیٰ میں جگہ عطا فرما۔" آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کو جب بھی کوئی تکلیف ہوتی عافیت اور شفا کی دعا کیا کرتے تھے۔لیکن جب مرض وفات ہوا تو اس میں شفا کی دعا نہیں مانگی۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ اس حالت میں میرے بھائی عبدالرحمن رضی الله عنہ آئے،ان کے ہاتھ میں مسواک تھی۔آنحضرت صلی الله علیہ وسلم اس مسواک کو دیکھنے لگے۔میں سمجھ گئی کہ مسواک کی خواہش محسوس کررہے ہیں ، کیونکہ مسواک کرنا آپ صلی الله علیہ وسلم کو بہت پسند تھا،چنانچہ میں نے پوچھا: "آپ کو مسواک دو۔" آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے سر مبارک سے ہاں کا اشارہ فرمایا۔میں نے مسواک دانتوں سے نرم کر کے دی۔اس وقت آنحضرت صلی الله علیہ وسلم مجھ سے سہارا لیے ہوئے تھے۔ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں : "میرے اوپر اللّٰہ کے خاص انعامات میں سے ایک انعام یہ بھی ہے کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا انتقال میرے گھر میں ہوا۔آپ کا جسم مبارک اس وقت میرے جسم سے سہارا لیے ہوا تھا۔وفات کے وقت اللّٰہ تعالیٰ نے میرا لعاب دہن آپ صلی الله علیہ وسلم کے لعاب دہن سے ملادیا، کیونکہ اس مسواک کو میں نے نرم کرنے کے لیے چبایا تھااور آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے اس سے اپنے دانتوں پر پھیرا تھا۔" حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم پر بے ہوشی طاری ہوئی تو سب ازواج مطہرات آس پاس جمع ہوگئیں ۔ مرض کے دوران آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے چالیس غلام آزاد فرمائے۔گھر میں اس وقت چھ یا سات دینار تھے۔حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی الله عنہا کو حکم دیا کہ ان دیناروں کو صدقہ کردے...ساتھ ہی ارشاد فرمایا: "محمد اپنے رب کے پاس کیا گمان لے کر جائے گا کہ اللّٰہ تعالیٰ سے ملاقات ہو اور یہ مال اس کے پاس ہو۔" سیدہ عائشہ رضی الله عنہا نے اسی وقت ان دیناروں کو صدقہ کردیا۔آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی بیماری سے چند روز پہلے حضرت عباس رضی الله عنہ نے خواب دیکھا تھا کہ چاند زمین سے اٹھ کر آسمان کی طرف چلا گیا۔انہوں نے حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کو خواب سنایا تھا...خواب سن کر آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔ "اے عباس!وہ تمہارا بھتیجا ہے۔" یعنی یہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی وفات کی طرف اشارہ تھا۔ اپنی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی الله عنہا سے آپ صلی الله علیہ وسلم کو بے پناه محبت تھی۔علالت کے دوران آپ صلی الله علیہ وسلم نے انہیں بلا بھیجا۔وہ تشریف لائیں تو ان کے کان میں کچھ باتیں کیں ،وہ سن کر رونے لگیں ،پھر ان کے کان میں کچھ فرمایا تو وہ ہنس پڑیں ۔بعد میں انہوں نے عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا کو بتایا کہ پہلے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اسی مرض میں وفات پا جاؤں گا،یہ سن کر میں رو پڑی...دوسری بار فرمایا کہ خاندان میں سب سے پہلے تم مجھ سے ملوگی۔یہ سن کر میں ہنس پڑی۔ چنانچہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے انتقال کے کچھ عرصے بعد سب سے پہلے آپ صلی الله علیہ وسلم کے گھرانے میں حضرت فاطمہ رضی الله عنہا کا ہی انتقال ہوا۔ وفات سے ایک یا دو دن پہلے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے لوگوں سے ارشاد فرمایا: "یہود اور نصاریٰ پر خدا کی لعنت ہو،انہوں نے اپنے پیغمبروں کی قبروں کو عبادت گاه بنالیا۔" یہ بھی فرمایا کہ یہودیوں کو جزیرۃ العرب سے نکال دو اور فرمایا: "لوگو!نماز...نماز...نماز کے بارے میں اللّٰہ سے ڈرو اور اپنے غلاموں کا خیال رکھو۔" وفات سے پہلے حضرت جبرئیل علیہ السلام ملک الموت کے ساتھ آئے۔انہوں نے عرض کیا: "اے محمد صلی الله علیہ وسلم اللّٰہ تعالیٰ آپ کے مشتاق ہیں ۔" یہ سن کر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "تو حکم کے مطابق میری روح قبض کرلو۔" ایک روایت کے مطابق حضرت جبرئیل علیہ السلام ملک الموت کے ساتھ آئے تھے۔انہوں نے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا تھا: "اے اللّٰہ کے رسول!یہ ملک الموت ہیں اور اور آپ سے اجازت مانگتے ہیں ...آپ سے پہلے انہوں نے کسی سے اجازت نہیں مانگی اور نہ آپ کے بعد کسی سے اجازت مانگیں گے۔کیا آپ انہیں اجازت دیتے ہے؟۔" آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی۔تب عزرائیل علیہ السلام اندر آئے۔انہوں نے آپ کو سلام کیا،اور عرض کیا: "اے اللّٰہ کے رسول اللّٰہ تعالیٰ نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے۔اگر آپ مجھے حکم دیں کہ میں آپ کی روح قبض کروں تو میں ایسا ہی کروں گا اور اگر آپ حکم فرمائیں کہ چھوڑ دو تو میں ایسا ہی کروں گا۔ " آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: "کیا تم ایسا کرسکتے ہو کہ روح قبض کیے بغیر چلے جاؤ؟ " انہوں نے عرض کیا: "ہاں !مجھے یہی حکم دیا گیا ہے۔" آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے جبرئیل علیہ السلام کی طرف دیکھا تو انہوں نے عرض کیا: "اے اللّٰہ کے رسول!اللّٰہ تعالیٰ آپ کی ملاقات کے مشتاق ہیں ۔" آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: "مجھے اپنے پروردگار سے ملاقات عزیز ہیں ۔" پھر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے حضرت عزرائیل علیہ السلام سے فرمایا: "تمہیں جس بات کا حکم دیا گیا ہے،اس کو پورا کرو۔" چنانچہ ملک الموت نے نبی آخر الزماں صلی الله علیہ وسلم کی روح قبض کرلی انا لله و انا الیه راجعون۔ اس روز پیر کا دن تھا اور دوپہر کا وقت تھا۔تاریخ وفات میں اختلاف پایا جاتا ہے۔معتبر قول کے مطابق ربیع الاول کی 9 تاریخ تھی۔وفات کے فوراً بعد حضرت ابوبکرصدیق رضی الله عنہ کو اطلاع بھیجی گئی...وہ فوراً آئے۔آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے،انہوں نے آتے ہی رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کو بوسہ دیا۔اور یہ الفاظ کہے: "آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں ۔آپ زندگی میں بھی پاک اور مبارک تھے اور موت کی حالت میں بھی پاک اور مبارک ہیں ،جو موت آپ کو آنا تھی آچکی،اب اللّٰہ تعالیٰ آپ کو موت نہیں دیں گے۔"
Top