حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ - کارنامے اورخدمات: جیشِ اُسامہ کی روانگی
رسول اللہ ﷺ نے اپنی حیاتِ طیبہ کے بالکل آخری دنوں میں رومیوں کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف بلاجوازمسلسل اشتعال انگیزی کے جواب میں مناسب کارروائی کی غرض سے ایک لشکرتیارفرمایاتھا،اورپھراسامہ بن زیدرضی اللہ عنہما(جواس وقت بالکل نوعمرتھے)کی زیرِقیادت اس لشکرکوملکِ شام کی جانب روانگی کاحکم دیاتھا۔ لیکن رسول اللہ ﷺ کی ناسازیٔ طبع کی وجہ سے یہ لشکرمدینہ شہرسے کچھ فاصلے پرپہنچ کررک گیاتھا،اور پھرانہی حالات میں رسول اللہ ﷺ کاانتقال ہوگیاتھا۔ رسول اللہ ﷺ کے اولین جانشین کی حیثیت سے صدیقِ اکبررضی اللہ عنہ نے جب خلافت کی ذمہ داری سنبھالی تو اب ان بدلے ہوئے حالات میں لشکرکومدینہ سے دوربھیج دینابہت ہی نازک اورانتہائی خطرناک اقدام تھا۔ کیونکہ اُن دنوں مسلمان جس نازک ترین صورتِ حال سے دوچارتھے ، اس سے بھرپورفائدہ اٹھاتے ہوئے اندرونی وبیرونی دشمن مسلمانوں پرفیصلہ کن ضرب لگانے کیلئے تیاربیٹھے تھے…لہٰذااس موقع پربڑے بڑے صحابۂ کرام نے مصلحت سے کام لینے اوراس لشکرکی روانگی کوفی الحال مؤخرکردینے کامشورہ دیا۔ جس پرحضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے نہایت پُرعزم اندازمیں دوٹوک فیصلہ سنایاکہ ’’جس لشکرکی روانگی کاحکم خودرسول اللہ ﷺ نے دیاتھا ٗ وہ لشکرضرورجائے گا‘‘۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی رحلت کے بعداب صدیقِ اکبررضی اللہ عنہ کے اس حکم کی تعمیل میں یہ لشکرروانہ ہوا، جس کی وجہ سے دشمنوں پرمسلمانوں کارعب قائم ہوگیا،اوروہ اب اس سوچ میں پڑگئے کہ ہم تومسلمانوں کوکمزورتصورکررہے تھے…لیکن ان میں تودم خم باقی ہے… ان کے حوصلے بلندہیں ، تبھی تواس قدرنازک صورتِ حال کے باوجودیہ لشکرروانہ ہواہے‘‘۔ یوں صدیقِ اکبررضی اللہ عنہ کایہ اقدام مسلمانوں کے حق میں مفیدثابت ہوا،اوراس کے نتائج مثبت اورخوشگوار رہے۔
Top