حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ - حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ عہدِنبوی کے بعد
رسول اللہ ﷺ کے مبارک دورمیں حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ہمیشہ نہایت ذوق وشوق اوراہتمام والتزام کے ساتھ آپؐ کی خدمت میں حاضری ٗ خدمت گذاری ٗ علمی استفادہ ٗ اورکسب ِفیض میں مشغول ومنہمک رہے…اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی طرف سے بھی ان کیلئے محبتوں اورعنایتوں کامبارک سلسلہ ہمیشہ جاری رہا،آپؐ تادمِ آخران سے انتہائی مسرورومطمئن رہے…یہاں تک کہ اسی کیفیت میں رسول اللہ ﷺ کامبارک زمانہ گذرگیا۔ عہدِنبوی کے بعداب خلیفۂ اول حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے دورِخلافت میں بھی انہیں دینی ٗ علمی ٗ معاشرتی ٗ سیاسی ٗ غرضیکہ ہرحیثیت سے بڑی اہمیت حاصل رہی اورانہیں حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے خاص دوست ٗ قریبی ساتھی ٗ اورمشیرِخاص کی حیثیت سے دیکھاجاتارہا۔ مکہ شہرمیں دینِ اسلام کے بالکل ابتدائی دنوں میں حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی دعوت وکوشش کے نتیجے میں ہی توحضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ مشرف باسلام ہوئے تھے،لہٰذاان دونوں جلیل القدرشخصیات میں گہری محبت وقربت یقینافطری چیزتھی۔ اورپھرخلیفۂ دوم حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کے دورِخلافت میں بھی حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی یہی حیثیت اورممتازومنفردمقام ومرتبہ برقراررہا، یہی وجہ تھی کہ حضرت عمرؓ جب نمازِفجرکی امامت کے دوران قاتلانہ حملے کے نتیجے میں شدیدزخمی ہوگئے تھے،تب انہوں نے فوری طورپرنمازمکمل کرنے کی غرض سے حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کو اپنی جگہ آگے بڑھادیاتھا۔ نیزاس موقع پرحضرت عمررضی اللہ عنہ کومسجدسے گھرمنتقل کئے جانے کے بعد ٗاُن کی نازک حالت کے پیشِ نظر ٗ اکابرِصحابہ میں سے متعددشخصیات نے جب یہ اصرارکیاتھاکہ ’’اے امیرالمؤمنین آپ اپناکوئی جانشین مقررکردیجئے‘‘تب آپؓ نے جن چھ افرادکے نام گنواتے ہوئے یہ تاکیدکی تھی کہ یہی چھ افرادباہم مشاورت کے بعدآپس میں سے ہی کسی کومنصبِ خلافت کیلئے منتخب کرلیں …ان چھ افرادمیں حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ بھی شامل تھے۔ اورپھراسی پراکتفاء نہیں …بلکہ مزیدیہ کہ ان چھ جلیل القدرشخصیات پرمشتمل اس ’’مجلسِ ِ شوریٰ‘‘کی سربراہی کیلئے حضرت عمرؓ نے ان میں سے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کومنتخب کیاتھا۔(۱) ٭یوں حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کوخودرسول اللہ ﷺ کے مبارک زمانے میں ٗ نیزاس کے بعدخلیفۂ اول ٗ اورپھرخلیفۂ دوم کے زمانۂ خلافت میں بھی اس معاشرے میں انتہائی قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھاجاتارہا…نیزحضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کی وہی کیفیت اوروہی معمولات جاری رہے …کہ … دینِ اسلام اورمسلمانوں کی دینی وعلمی ٗ سماجی ٗ اوربالخصوص مالی خدمات کے معاملے میں ہمیشہ پیش پیش رہے…زمانۂ جنگ کے موقع پراسلامی لشکرکی تیاری کیلئے گراں قدرعطیات پیش کیاکرتے…زمانۂ امن اورعام حالات میں عام مسلمانوں کی فلاح وبہبودکیلئے انتہائی سخاوت وفیاضی ٗانسان دوستی ٗ اوردریادلی کامظاہرہ کیاکرتے۔ ایک ایساوقت بھی آیاکہ جب یہ بات تمام لوگوں میں ضرب المثل بن گئی کہ مدینہ شہرمیں ہرکسی انسان کاضرورکسی نہ کسی شکل میں عبدالرحمن بن عوفؓکے مال کے ساتھ تعلق ہے … کیونکہ ان کایہ معمول تھاکہ مدینہ شہرمیں جوخوشحال اورصاحبِ حیثیت افرادتھے ٗان کیلئے یہ وقتاًفوقتاً خیرسگالی اورباہمی اخوت ومحبت کے اظہارکے طورپرہدایاوتحائف روانہ کیا کرتے، ضرورت مندوں کوروپیہ پیسہ بطورِقرض دیاکرتے…جوناداراورمفلس قسم کے لوگ تھے ٗ بڑے پیمانے پرصدقات وخیرات کے ذریعے ہمیشہ ان کی مددواعانت کیاکرتے تھے…الغرض اُس دورمیں مدینہ شہرمیں آبادہرشخص کاعبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے مال ودولت کے ساتھ کسی نہ کسی شکل میں تعلق ضرورتھا،ہدایاوتحائف ٗقرض ٗ اوریاپھر صدقہ وخیرات کی شکل میں ۔ ٭اُس معاشرے میں بالخصوص تین قسم کے افرادایسے تھے جن پرعبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بہت زیادہ دریادلی کے ساتھ اپنامال ودولت خرچ کیاکرتے تھے: پہلی قسم: تمام ’’بدری‘‘ حضرات،یعنی وہ جلیل القدرشخصیات جنہیں حق وباطل کے درمیان لڑی جانے والی اولین اوراہم ترین جنگ یعنی’’غزوۂ بدر‘‘میں شرکت کاشرف نصیب ہوا۔حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ہمیشہ پابندی کے ساتھ ان کی خدمت میں قیمتی تحائف بھیجتے رہتے تھے۔ دوسری قسم: قبیلۂ قریش کے خاندان’’بنوزہرہ‘‘سے تعلق رکھنے والے افراد(کیونکہ خودعبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کاتعلق بھی اسی خاندان ’’بنوزہرہ‘‘سے تھا)۔(۱) تیسری قسم : اُمہات المؤمنین ٗ یعنی رسول اللہ ﷺ کی ازواجِ مطہرات۔رسول اللہ ﷺ کی اس جہانِ فانی سے رحلت کے بعدحضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ تمام امہات المؤمنین کی ضروریاتِ زندگی کابہت زیادہ خیال رکھاکرتے تھے،ہمیشہ ان سبھی کی خدمت میں اشیائے خوردونوش ودیگراشیائے ضرورت ٗنیزقیمتی ہدایاوتحائف ارسال کرتے رہناان کاروزمرہ کامعمول تھا،بالخصوص ہرسال حجِ بیت اللہ کے موقع پریہ ان کے ہمراہ جاتے ، دورانِ سفرہرطرح سے ان کی ضروریات کاخیال رکھتے،خوب خدمت بجالاتے،اُن کیلئے عمدہ ترین سواریوں کاانتظام ،نیزہرطرح ان کی راحت وآرام اورقیام وطعام کابندوبست خوداپنی ذاتی نگرانی میں کیاکرتے۔ ظاہرہے کہ امہات المؤمنین رضوان اللہ علیہن کی خدمت اوران کی خبرگیری بذاتِ خودبہت بڑی سعادت تھی…مزیدیہ کہ اس سے حضرت عبدالرحمن بن عوف کی ایک اوربڑی سعادت مندی یہ بھی ظاہرہوتی ہے کہ امہات المؤمنین کوان پرکس قدراعتمادتھااورمکمل بھروسہ تھا۔ ٭یوں ہجرتِ مدینہ کے فوری بعدایک موقع پررسول اللہ ﷺ نے ان کیلئے جودعائے خیروبرکت فرمائی تھی ٗ اس کے نتیجے میں ان کی خوشحالی وفراوانی میں حیرت انگیزطورپرمسلسل اضافہ ہوتاہی چلاگیا…اوریہ اللہ کے دئیے ہوئے اس مال میں سے ہمیشہ دینِ اسلام کی سربلندی ٗاورمسلمانوں کی خیروخوبی کیلئے مسلسل انتہائی سخاوت وفیاضی کے ساتھ خرچ کرتے رہے۔ مگریہ تمام مال ودولت اورروپیہ پیسہ انہیں اللہ کی یادسے ٗ یادینی فرائض کی ادائیگی سے کبھی غافل نہ کرسکا، نہ ہی ان کے مزاج میں کسی قسم کی خرابی ٗبگاڑ ٗ یاتکبروغرورکاسبب بن سکا۔ ٭اپنی زندگی کے آخری ایام میں انہیں اکثریہ فکرلاحق رہتی کہ اللہ نے جومجھے اس قدرمال ودولت اورخوشحالی وفراوانی سے نوازرکھاہے،کہیں ایسی بات تونہیں کہ اللہ نے مجھے سب کچھ بس اسی عارضی وفانی دنیامیں ہی دے دیاہو،اوروہاں آخرت کی ابدی ودائمی زندگی میں میرے لئے فقط محرومی ہو…یہ بات سوچ کربہت زیادہ پریشان ہوجاتے،اکثررقت طاری ہوجاتی…اورتب اللہ کی راہ میں مزیدصدقہ وخیرات کرتے…یوں ’’انفاق فی سبیل اللہ ‘‘کایہ سلسلہ آخری ایام میں بہت زیادہ بڑھ گیاتھا۔ چنانچہ انہی دنوں (سن ۳۲ہجری میں )یہ واقعہ بھی پیش آیاکہ جب کُل تین سوتیرہ’’بدری ‘‘ حضرات میں سے ایک سو بقیدِحیات تھے…تب حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے ان(ایک سوبدری حضرات) میں سے ہرایک کی خدمت میں نقدچارسودیناربطورِ ہدیہ ارسال کئے …جوکہ یقینابہت خطیررقم تھی…(۱) انہی دنوں ایک بارملکِ شام سے ان کاتجارتی قافلہ مدینہ پہنچا،یہ قافلہ سامانِ تجارت سے لدے ہوئے سات سواونٹوں پرمشتمل تھا…بڑی تعدادمیں خُدام وملازمین بھی ہمراہ تھے…مال واسباب سے لدے ہوئے یہ سات سواونٹ اوران کے چلانے اورہنکانے والے …ودیگرملازمین…جب مدینہ پہنچے …اوروہاں مختلف گلیوں اورمحلوں سے گذرتے ہوئے جب یہ سب آگے بڑھ رہے تھے…توان کی نقل وحرکت اورشوروغل کی وجہ سے عجب سماں بندھ گیا…ہرکوئی گھرسے نکل کرحیرت سے اس قافلے کوتکنے لگا… ایسے میں کسی نے اس قافلے کی جانب دیکھتے ہوئے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے بارے میں کوئی ایسی بات کہی جس سے یہ مفہوم سمجھ میں آتاتھاکہ ’’عبدالرحمن بن عوف توبس اب دنیاداری میں ہی کھوکررہ گئے ہیں …‘‘ جلدہی یہ بات کسی طرح عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ تک پہنچ گئی…ابھی وہ قافلہ مدینہ شہرمیں اپنی آخری منزل تک پہنچابھی نہیں تھا…مال واسباب ان اونٹوں سے اتارنے کی ابھی نوبت بھی نہیں آئی تھی…کہ کسی تاخیرکے بغیرفوراًہی حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اپنی جگہ سے اٹھے ،اورنہایت سرعت وبے چینی کی کیفیت میں اس قافلے کے پاس پہنچے،اوروہاں موجودتمام افرادکومخاطب کرتے ہوئے بآوازِبلندیہ الفاظ کہے: ’’لوگو!تم سب گواہ رہناکہ میں اپنے یہ تمام(سات سو) اونٹ بمع سامان ٗ اللہ کی راہ میں صدقہ کرتاہوں …‘‘ شب وروزاورماہ وسال کایہ سفرجاری رہا… سن ۳۲ہجری میں ایک دن جب حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے روزہ رکھاہواتھا…افطارکاوقت جب قریب آیا، خادم نے افطارکاسامان اورکھاناوغیرہ پیش کیا…اس کھانے پرجب نظرپڑی توانتہائی اداس ہوگئے،مزاج پررقت طاری ہوگئی،دسترخوان پرکچھ مہمان بھی موجودتھے،انہوں نے جب ان کی یہ اچانک افسردگی وپریشانی دیکھی تواس چیزکی وجہ دریافت کی… تب عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے آنسوچھلکنے لگے…اور گلوگیرآوازمیں یوں گویاہوئے:’’مصعب بن عمیرتومجھ سے بہت اچھے تھے…اللہ کے ہاں ان کامقام ومرتبہ مجھ سے زیادہ تھا…لیکن اس کے باوجودکیفیت یہ ہوئی کہ آج سے تقریباً تیس سال قبل ’’اُحد‘‘کے میدان میں رسول اللہ ﷺ کی معیت میں جب ہم انہیں کفن پہنارہے تھے، تب کیفیت یہ تھی کہ ہم ان کاسرڈھانپتے توپاؤں ظاہرہوجاتے…پاؤں ڈھانپنے کی کوشش کرتے توسراورچہرہ ظاہرہوجاتا…آخراس ناکام کوشش کے بعد…بس اسی طرح ، اس ادھورے اورپھٹے پرانے سے کفن میں ہی ہم نے انہیں سپردِخاک کردیا…حالانکہ وہ تومجھ سے بہت اچھے تھے…مگرپھربھی اس حالت میں وہ دنیاسے رخصت ہوئے۔ اتناکہنے کے بعدعبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ خوب پھوٹ پھوٹ کررونے لگے… اورپھرتھوڑی دیربعدجب طبیعت کچھ سنبھلی تویوں بولے’’مصعب بن عمیرکاتویہ حال…جبکہ میرے پاس یہ اس قدرمال ودولت کی فراوانی…کہیں ایسانہوکہ اللہ نے مجھے سب کچھ بس یہیں اس فانی وعارضی دنیامیں ہی دے دیاہو…اوروہاں آخرت میں میرے لئے اب کچھ نہو…نہ جانے وہاں اللہ کے پاس میرااب کیابنے گا…؟‘‘(۱) یہ سوچ تھی حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی …اوریہ جذبہ تھا…جس کی وجہ سے مال ودولت کی فراوانی وخوشحالی اورہرقسم کے دنیاوی مال واسباب کی بہتات کے باوجودان کے مزاج میں کسی خرابی کی بجائے…اوران کے اخلاق وکردارمیں کسی فسادکی بجائے…اپنے اللہ کے ساتھ تعلق مزیدمضبوط ومستحکم کرنے کی لگن…اللہ کے سامنے جوابدہی کاہمہ وقت احساس…نیزاللہ کے بندوں کے ساتھ حسنِ سلوک اوران کی مدد واعانت کاجذبہ ہرگذرتے ہوئے لمحے کے ساتھ مضبوط سے مضبوط ترہوتاہی چلاگیا۔ اسی کیفیت میں آتے جاتے موسموں کایہ سفرجاری رہا…آخرسن۳۲ہجری میں ۷۵سال کی عمرمیں مدینہ منورہ میں ان کاانتقال ہوگیا…خلیفۂ وقت امیرالمؤمنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ٗ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ٗ حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ٗ ودیگرمتعددکبارِصحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے مل کرتجہیزوتکفین کے فرائض انجام دئیے، نمازِجنازہ ان کی وصیت کے مطابق خلیفۂ وقت حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے پڑھائی…اورپھرمدینہ منورہ کے قبرستان’’بقیع‘‘میں انہیں سپردِخاک کردیاگیا… یوں رسول اللہ ﷺ کے یہ انتہائی عظیم المرتبت اورجلیل القدرصحابی حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اپنے اللہ سے جاملے… اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے درجات بلندفرمائیں ۔
Top