حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ - حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ عہدِنبوی کے بعد
٭…رسول اللہ ﷺ کامبارک دورگذرجانے کے بعدخلیفۂ اول حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے دورمیں بھی حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کووہی بلندترین مقام ومرتبہ حاصل رہااوراس معاشرے میں ان کی وہی قدرومنزلت برقراررہی…خلیفۂ اول کے مشیرِ خاص اورانتہائی قریبی دوست کی حیثیت سے انہیں دیکھاجاتارہا …ظاہرہے کہ ان دونوں جلیل القدرشخصیات میں بہت قدیم تعلق تھااورپرانی شناسائی اوردوستی تھی…حتیٰ کہ مکہ شہرمیں دینِ اسلام کے بالکل ابتدائی دورمیں خودحضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی طرف سے دعوت کے نتیجے میں ہی توسعدرضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے تھے…جب ان کی عمرمحض سولہ برس تھی… ٭…اورپھرخلیفۂ اول کے انتقال کے بعدجب حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے خلیفۂ دوم کی حیثیت سے منصبِ خلافت سنبھالا…تب کچھ ایسے حالات پیداہوتے چلے گئے جن سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ خالقِ ارض وسماء نے سعدؓکے نصیب میں بہت زیادہ عظمت ورِفعتلکھی ہوئی ہے…اوریہ کہ سن دس ہجری میں حجۃ الوداع کے موقع پررسول اللہ ﷺ نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے یہ جویادگارالفاظ ارشادفرمائے تھے: وَلَعَلّکَ أن تُخَلَّف ، حَتّیٰ یَنتَفِعَ بِکَ أقوَامٌ ، وَیُضَرُّ بِکَ آخَرُونَ، یعنی’’اے سعد!شایدتمہیں (اللہ کی طرف سے اس دنیامیں )مزیدزندگی عطاء کی جائے…تب کچھ لوگوں (یعنی اہلِ حق)کوتم سے فائدہ …جبکہ دوسرے کچھ لوگوں (یعنی اہلِ باطل)کوتم سے نقصان پہنچے گا… ‘‘ شایدآپؐ کی اس پیشین گوئی کی تکمیل کاوقت اب آچکاتھا… ٭…اس بات کاپس منظرکچھ اس طرح ہے کہ اُس دورمیں روئے زمین پردوعظیم ترین قوتیں تھیں ، سلطنتِ روم اورسلطنتِ فارس،ان دونوں میں سے سلطنتِ روم کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف مسلسل جارحیت کے نتیجے میں خودرسول اللہ ﷺ کے دورمیں ہی غزوۂ مؤتہ اورپھرتاریخی غزوۂ تبوک کی نوبت آئی تھی،نیزآپؐ نے آخری ایام میں حضرت اسامہ بن زیدرضی اللہ عنہماکی سپہ سالاری میں رومیوں کے خلاف مناسب تادیبی کارروائی کی غرض سے ایک لشکرکی روانگی کاحکم دیاتھا…جوکہ آپؐ کی رحلت کے فوری بعدخلیفۂ اول حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے منصبِ خلافت سنبھالنے کے بعداپنی منزلِ مقصودکی جانب روانہ ہوگیاتھا…اورپھرخلیفۂ اول کے دورمیں رومیوں کے خلاف یہ سلسلہ جاری رہا،متعددچھوٹی بڑی جنگوں کی نوبت آتی رہی۔ اورپھرخلیفۂ دوم حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کے دورمیں یہ سلسلہ مزیدتقویت پکڑگیا…حتیٰ کہ اُس دورمیں سن تیرہ ہجری میں مشہورومعروف تاریخی ’’جنگِ یرموک‘‘ اور پھرسن پندرہ ہجری میں ’’فتحِ دمشق‘‘اوراس کے فوری بعد’’فتحِ بیت المقدس‘‘کے یادگار اور اہم ترین واقعات پیش آئے۔ ٭…دوسری طرف روئے زمین کی دوسری بڑی قوت یعنی ’’سلطنتِ فارس‘‘کی طرف سے بھی مسلمانوں کے خلاف وقتاًفوقتاًمختلف مقامات پرجارحیت اوراشتعال انگیزیوں کاسلسلہ جاری تھا،جس کے نتیجے میں خلیفۂ اول حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے مایۂ نازسپہ سالارسیف اللہ خالدبن ولیدرضی اللہ عنہ کوسن گیارہ ہجری میں یمامہ کے علاقے میں مسیلمہ کذاب کی طرف سے بہت بڑے پیمانے پربرپاکردہ شورش کی نہایت کامیابی کے ساتھ مکمل سرکوبی کے بعد ٗاب انہیں سلطنتِ فارس کی طرف روانگی کاحکم دیاتھا،اورتب وہ اس حکم کی تعمیل میں فارس پہنچے تھے،اوروہاں مختلف علاقوں میں نہایت کامیابی کے ساتھ پیش قدمی کرتے چلے گئے تھے،اورپھرسن تیرہ ہجری میں حضرت ابوبکرؓ نے انہیں فارس کی بجائے اب سلطنتِ روم کے خلاف برسرِپیکاراسلامی لشکرکی سپہ سالاری کے فرائض سنبھالنے کی غرض سے ملکِ شام کی طرف کوچ کرجانے کی ہدایت کی تھی۔ الغرض سلطنتِ فارس کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف جارحیت کے اس سلسلے کی روک تھام کی غرض سے کئے جانے والے مختلف اقدامات کے باوجوداہلِ فارس وقتاًفوقتاً مسلمانوں کونقصان پہچاتے رہتے تھے،اورخلیفۂ اول کے دورمیں یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا… اورپھر خلیفۂ دوم کے دورِخلافت میں جب اہلِ فارس نے یہ منظردیکھاکہ یہ مٹھی بھرمسلمان کس قدرتیزرفتاری کے ساتھ سلطنتِ روم کے ماتحت علاقوں (اردن ، فلسطین ،شام ، لبنان ،وغیرہ)میں رومیوں کی عظیم الشان قوت کوروندتے ہوئے مسلسل آندھی اورطوفان کی مانندپیش قدمی کرتے چلے جارہے ہیں …تب ’’سلطنتِ فارس‘‘کے ایوانوں میں کھلبلی مچ گئی…اورانہیں اب یہ پریشانی ستانے لگی کہ کہیں ان مسلمانوں کے ہاتھوں ہمارا بھی یہی انجام نہو…لہٰذااب انہوں نے مسلمانوں کے خلاف اپنی جارحیت اوراشتعال انگیزیوں کے سلسلے مزید تیزترکردئیے،اورپھریہ سلسلہ روز بروز بڑھتا ہی رہا،حتیٰ کہ اسی سلسلے میں ایک ایساواقعہ پیش آیاجس کے نتیجے میں مسلمانوں کوبہت بڑانقصان اٹھاناپڑا، چارہزارسپاہی شہیدہوگئے، جن میں سے سترصحابۂ کرام تھے۔ (۱) جب یہ افسوسناک خبرمدینہ پہنچی تواب خلیفۂ وقت حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ کے صبرکاپیمانہ لبریزہوگیا،اتنابڑانقصان،ایک ہی دن میں چارہزارسپاہیوں کی شہادت… ؟ اگرچہ عین ایسے وقت میں کہ جب مسلمان سلطنتِ روم کے خلاف بہت بڑے پیمانے پر برسرِپیکارتھے…ایسے میں اب دوسری بڑی قوت یعنی سلطنتِ فارس کے خلاف محاذآرائی میں مزیداضافہ …بظاہرکوئی دانشمندی نہیں تھی…اوراس میں بڑے خطرات پوشیدہ تھے… لیکن اس کے باوجود…فارسیوں کی طرف سے اب مسلمانوں کے خلاف ظلم وزیادتی کا اوراتنی بڑی جارحیت کایہ افسوسناک واقعہ جوپیش آیا…تواس کے نتیجے میں حضرت عمررضی اللہ عنہ نے بیک وقت ’’سلطنتِ روم ‘‘کے ساتھ ساتھ اب’’سلطنتِ فارس‘‘سے بھی فیصلہ کن ٹکرلینے کاخطرناک اوریادگارفیصلہ کرہی لیا… ٭…اس موقع پرحضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے سلطنتِ فارس کی جانب روانہ کرنے کی غرض سے ایک نیالشکرتیارکیا…اورخوداس کی قیادت کرتے ہوئے مدینہ سے فارس کی جانب روانگی کافیصلہ کیا۔ مدینہ میں موجوداکابرصحابہ کوجب حضرت عمرؓ کے بارے میں یہ اطلاع ملی کہ وہ خوداس لشکرکی قیادت کرتے ہوئے مدینہ سے جاناچاہتے ہیں …تب وہ سب بڑی تشویش میں مبتلاہوگئے،ان میں سے متعددحضرات نے حضرت عمرؓسے ملاقات کی ،اورانہیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ ’’آپ کاخودمدینہ سے اس قدردور…سلطنتِ فارس کے خلاف جنگ کی غرض سے جاناکسی صورت مناسب نہیں ہے‘‘۔ لیکن حضرت عمرؓ نے کسی کی بات نہیں سنی اوراپنے فیصلے پرقائم رہے،بلکہ مزیدیہ کہ اس چیزکاباقاعدہ اعلان کرتے ہوئے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کواپنی اس غیرموجودگی کے دوران مدینہ میں اپنانائب بھی مقررکردیا۔ دوسری جانب حضرات اکابرصحابہ بدستوراپنی اسی رائے پرقائم رہے، اوربڑی تشویش میں مبتلارہے ،اس بارے میں ان میں باہمی صلاح مشورے کاسلسلہ چلتارہا،اورانہوں نے یہ طے کیاکہ ہم امیرالمؤمنین (عمربن خطاب رضی اللہ عنہ )کوکسی صورت اتنی دورنہیں جانے دیں گے،آخرانہوں نے طے کیاکہ حضرت عمرؓ کوقائل کرنے کیلئے کوئی ایساشخص تلاش کیاجائے جس کی بات کووہ ردنہ کرسکیں ،اورپھرباہم غوروفکرکے بعدان تمام اکابرصحابۂ کرام نے سوچاکہ یہ کام عبدالرحمن بن عوف (رضی اللہ عنہ) کے ذمے لگایاجائے، ان کی بات کوحضرت عمرؓردنہیں کریں گے۔چنانچہ یہ کام عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے ذمے لگایا گیا،جس پرانہوں نے حضرت عمرؓ سے اس بارے میں بات کی اورتمام اکابرصحابہ کے موقف کی شدیدتائیدکرتے ہوئے وہی مطالبہ دہرایاکہ آپ خوداس لشکرکی قیادت کرتے ہوئے دارالخلافہ (مدینہ منورہ)سے اتنی دورکسی صورت نہیں جائیں گے…‘‘۔اورتب واقعی حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی بات کونہ ٹال سکے،اوران کامشورہ منظورکرتے ہوئے اپنافیصلہ تبدیل کرلیا،البتہ شرط یہ رکھی کہ’’ مجھے اس مقصدکیلئے کوئی مناسب ترین شخص مہیاکیاجائے،جویہ کام عین میری مرضی کے مطابق انجام دے سکے…‘‘۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے جب تمام اکابرصحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کواس صورتِ حال سے مطلع کیا،تووہ سب خوش بھی ہوئے کہ حضرت عمرؓ نے اپنافیصلہ تبدیل کرلیاہے، لیکن ساتھ ہی اب وہ سب اس نئی پریشانی کاشکارہوگئے، کہ کوئی مناسب آدمی تلاش کیاجائے، ظاہرہے کہ یہ بہت ہی بڑی ذمہ داری تھی،اورانتہائی خطرناک کام تھا،سلطنتِ فارس کے خلاف باقاعدہ بڑی جنگ کی غرض سے روانہ ہونے والے اس اولین لشکرکی سپہ سالاری،اس مقصدکیلئے بے انتہاء جرأت وشجاعت ٗ استقامت ٗ تجربہ ٗ فنونِ حرب میں بے مثال مہارت ٗ صلاحیت ٗ بہت بڑی ہمت ،نیزبہت بڑے دل گردے کی ضرورت تھی۔ مزیدپریشانی یہ کہ اس مقصدکیلئے اگرکوئی خودکوپیش کرے …یا…کسی دوسرے کانام تجویزکرے،بہرصورت اگرخدانخواستہ لشکرکووہاں پہنچنے کے بعدناکامی وہزیمت کاسامنا کرناپڑا،یااورکوئی بھی مصیبت کھڑی ہوگئی، توذمے دارکون ہوگا…؟؟یہی وجہ تھی کہ مدینہ میں تمام اکابرصحابہ اب انتہائی شش وپنج کی کیفیت میں پھنس کررہ گئے تھے… دوچارروزاسی کیفیت میں گذرگئے ،کسی کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا،حضرت عمرؓ انتظارہی کرتے رہے،آخرایک روزانہوں نے اکابرصحابۂ کرام کومخاطب کرتے ہوئے خودہی فرمایا’’میں نے وہ مناسب ترین شخص تلاش کرلیاہے…آپ سب دیکھتے رہئے گا…کہ وہ شخص عنقریب اللہ کے دشمنوں پر…بس… شیرکی مانندجھپٹے گا…‘‘ حضرت عمرؓ کی زبانی یہ بات سننے کے بعدتمام شہرمدینہ میں تجسس پھیل گیاکہ دیکھیں وہ کون شخص ہے؟اوراسی کیفیت میں چندروزمزیدگذرگئے،اس دوران نہ کسی نام کا اعلان ہوا، نہ ہی لشکرروانہ ہوا… تب ایک روزحضرت عمرؓ نے تجسس کی اس کیفیت کومحسوس کرتے ہوئے فرمایا’’بات یہ ہے کہ میں نے اس عظیم مقصدکیلئے جس شخص کومنتخب کیاہے ٗوہ اتفاقاًاس وقت مدینہ میں نہیں ہے،بلکہ طائف گیاہواہے،میں نے اسے وہاں سے جلدواپسی کیلئے پیغام بھجوایاہے‘‘۔ لوگوں نے اصرارکیاکہ’’اے امیرالمؤمنین!اس عظیم شخص کانام توبتادیجئے‘‘اس پرحضرت عمرؓنے جواب دیاکہ’’اس شخص کانام ہے’’سعدبن ابی وقاص‘‘۔ ٭…چنانچہ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کی طرف سے پیغام موصول ہونے کے بعدجلدہی حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ طائف سے سفرکرتے ہوئے مدینہ پہنچے اورپھرایک روزاُس لشکرکی قیادت کرتے ہوئے ، مدینہ سے فارس کی جانب رواں دواں ہوگئے ۔
Top