حضرت سعیدبن زیدرضی اللہ عنہ - حضرت سعیدبن زیدرضی اللہ عنہ
رسول اللہ ﷺ کے جلیل القدرصحابی حضرت سعیدبن زیدرضی اللہ عنہ کاتعلق مکہ شہرمیں قبیلۂ قریش کے مشہورخاندان ’’بنوعدی‘‘سے تھا(۱)حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کاتعلق بھی اسی خاندان سے تھا،لہٰذادونوں میں قرابت داری تھی ،سعیدکے والدزید ٗ اورحضرت عمرؓ باہم چچازادبھائی تھے،سعیدکی اہلیہ فاطمہ بنت خطاب رضی اللہ عنہا حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کی بہن تھیں ۔ ٭حضرت سعیدبن زید رضی اللہ عنہ ’’السابقین الأولین‘‘یعنی بھلائی میں سبھی لوگوں پرسبقت لے جانے والوں میں سے تھے،یعنی وہ عظیم ترین افرادجنہوں نے بالکل ابتدائی دورمیں دینِ اسلام قبول کیا کہ جب مسلمانوں کیلئے بہت ہی مظلومیت اوربے بسی وبے چارگی کازمانہ چل رہاتھا…یہی وجہ ہے کہ ان حضرات کابڑامقام ومرتبہ ہے ،ان کیلئے عظیم خوشخبریاں ہیں ٗ اورانہیں قرآن کریم میں ’’السابقین الأولین‘‘کے نام سے یادکیاگیاہے۔ ٭مزیدیہ کہ حضرت سعیدبن زیدرضی اللہ عنہ ’’عشرہ مبشرہ‘‘یعنی ان دس خوش نصیب ترین افرادمیں سے تھے جنہیں اس دنیاکی زندگی میں ہی رسول اللہ ﷺ نے جنت کی خوشخبری سے شادکام فرمایاتھا۔ ٭سعیدکے والد(زیدبن عمروبن نفیل)مشرکینِ مکہ کی بت پرستی وگمراہی اوراخلاقی بے راہ روی سے سے بہت زیادہ دلبرداشتہ وبیزارتھے ،نیزرسول اللہ ﷺ کی بعثت سے قبل ہمیشہ تلاشِ حق میں سرگرداں رہاکرتے…اسی تلاشِ حق میں ہی انہوں نے متعددبارملکِ شام کاسفرکیا،وہاں راہبوں سے ملاقاتیں کرکے دینِ نصرانیت ٗاورکبھی یہودیت کے بارے میں معلومات حاصل کرتے رہے،لیکن مطمئن نہیں ہوسکے… ٭اُس دورمیں انتہائی رونگٹے کھڑے کردینے والی ایک برائی جوعرب معاشرے میں عام تھی ٗ وہ یہ کہ وہ لوگ عارکے ڈرسے اپنی نوزائیدہ بچیوں کوخوداپنے ہی ہاتھوں زندہ درگور کر دیا کرتے تھے۔ سعیدکے والدزیدنے یہ معمول بنارکھاتھا کہ جس کسی کے بارے میں انہیں یہ بات معلوم ہوتی کہ وہ اپنی بیٹی کوزندہ درگورکرنے والاہے…یہ اس کے پاس پہنچ جاتے،اوراس سے وہ بیٹی ہمیشہ کیلئے اپنی کفالت میں لے لیتے ،اورخوداس کی پرورش کیاکرتے…یوں زیدکی زیرِکفالت بڑی تعدادمیں ایسی بچیاں پرورش پایاکرتی تھیں ۔ ٭مکہ شہرمیں اُن دنوں زیدکے بارے میں یہ بات مشہورتھی کہ عزیزواقارب اوردوستوں کے ساتھ میل جول اورملاقات کی غرض سے آمدورفت کے موقع پریہ کسی کے گھرمیں گوشت نہیں کھایاکرتے تھے،اوریوں کہاکرتے تھے کہ’’اللہ کانام پڑھے بغیرجوجانورذبح کیا گیا ہو ٗاس کاگوشت کھاناحرام ہے،تم لوگ اللہ کے نام کی بجائے اپنے بتوں کے نام پرجانور قربان کیاکرتے ہو…لہٰذامیں تمہارے ان جانوروں کاگوشت نہیں کھاؤں گا‘‘۔ ایک روزمکہ میں کوئی بڑاعالی شان میلہ لگاہواتھا،بہت رش تھاٗ اوربڑی رونق تھی، بڑے بڑے مالداراورصاحبِ حیثیت افراداورخوشحال قسم کے لوگ وہاں موجودتھے ، جنہوں نے نفیس لباس زیب تن کررکھے تھے،سروں پرقیمتی پگڑیاں سجارکھی تھیں ،نیز ان کی عورتیں بھی خوب زیورات سے آراستہ اورزرق برق لباس پہنے ہوئے بڑی تعدادمیں ان کے ہمراہ تھیں ،یوں یہ امیرکبیراورسردارقسم کے لوگ اپنی خواتین اوربچوں کے ہمراہ وہاں اِتراتے پھررہے تھے…مزیدیہ کہ ان کے ہمراہ بڑی تعدادمیں قیمتی جانوربھی موجودتھے ، جنہیں انہوں نے خوب سجارکھاتھا،ان کے گلوں میں ہاراورپاؤں میں گھنگروڈال رکھے تھے۔ زیدہرسال ہی اس میلے کے موقع پراس قسم کے مناظردیکھاکرتے تھے،اس سال بھی حسبِ معمول یہی تمام مناظران کی آنکھوں کے سامنے موجودتھے…تب ان سے رہانہ گیا… اورانہوں نے وہاں موجودان بڑے بڑے سردارانِ قریش کی موجودگی میں سب کومخاطب کرتے ہوئے بآوازِبلندیوں کہناشروع کیا:’’لوگو!تمہیں کیاہوگیاہے؟ان جانوروں کواللہ نے پیداکیاہے، اسی اللہ نے آسمان سے پانی برسایا توان جانوروں کواپنی پیاس بجھانا نصیب ہوا،اسی اللہ نے ہی زمین سے سبزہ اُگایاٗ جسے کھاکریہ جانوراپنی بھوک مٹانے کے قابل ہوسکے، پھریہ کہاں کی عقلمندی ہے کہ تم ان جانوروں کو اللہ کے نام کی بجائے اپنے ان بتوں کے نام پرقربان کیاکرتے ہو…؟‘‘ زیدکی یہ باتیں سن کروہ سردارانِ قریش سخت برہم ہوئے ،انہیں خوب برابھلاکہا،اورسخت لہجے میں تنبیہ کرتے ہوئے کہا’’بہت ہوچکا…آئندہ کبھی ایسی فضول باتیں نہ کرنا… ورنہ انجام اچھانہیں ہوگا…‘‘یوں زیدکوڈرادھمکاکرخاموش کردیاگیا۔ اُس ماحول سے بیزارزیدنے’’ تلاشِ حق‘‘ کی جستجوجاری رکھی…اسی سلسلے میں انہوں نییہ فیصلہ کیاکہ اپنے اردگردایسے لوگوں کوتلاش کیاجائے جواس معاملے میں ان کے ہمخیال ہوں …اورپھرتلاشِ بسیارکے بعدآخرانہیں مکہ میں تین افرادایسے ملے جوشرک وبت پرستی سے بیزاری کے سلسلے میں ان کے ہم خیال نکلے، وہ تین افرادیہ تھے،ورقہ بن نوفل ، عبداللہ بن جحش ، اورعثمان بن حارث،اورپھرکچھ عرصہ بعداُمیمہ بنت عبدالمطلب (رسول اللہ ﷺ کی پھوبھی) بھی ان میں شامل ہوگئیں ۔(۱) اس دوران زیدمسلسل تلاشِ حق کی خاطرجستجومیں مشغول ومنہمک رہے،نصرانیت اور یہودیت کی تعلیمات کے بارے میں انہوں نے بہت زیادہ غوروفکرکیا،لیکن ان کادل یہ گواہی دیتاتھاکہ بس ’’دینِ ابراہیم‘‘ہی اصل اوربرحق دین ہے… مکہ شہرمیں وہ رات دن اپنی آنکھوں سے بیت اللہ کانظارہ ومشاہدہ کیاکرتے تھے،اوریہ سوچ کرانتہائی افسردہ ہوجایاکرتے تھے کہ یہ بیت اللہ جس کے معمارحضرت ابراہیم علیہ السلام تھے،ان کاتعمیرکردہ یہ مبارک گھرہمارے اپنے ہی شہرمیں ہے ،ہماری نگاہوں کے سامنے ہے ،مگرافسوس کہ وہ دینِ ابراہیم جس کی بنیاد’’توحید‘‘پرتھی…اس دینِ برحق کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کاکوئی طریقہ نظرنہیں آتا…کوئی وسیلہ دکھائی نہیں دیتا، البتہ اسی کیفیت میں شرک وبت پرستی سے مکمل اجتناب کرتے ہوئے وہ اپنی دانست کے مطابق اللہ وحدہ لاشریک لہ کی عبادت کیا کرتے…لیکن یہ کہ دینِ ابراہیم کے مطابق اس ایک اللہ کی عبادت کااصل کیاطریقہ ہے؟ نیزاس دین کی مزیدکیاتفصیلات ہیں ؟ اس بارے میں وہ مسلسل غوروفکرمیں گم رہاکرتے تھے۔ اسی کیفیت میں وقت گذرتارہا…اس دوران رسول اللہ ﷺ سے بھی ان کاتعارف اورمیل جول کاسلسلہ جاری رہا،تاہم اس وقت تک رسول اللہ ﷺ کونبوت ورسالت سے سرفرازنہیں کیاگیاتھا۔ ایک بارجب اسی سلسلے میں جستجواورتلاش کی غرض سے وہ ملکِ شام گئے ہوئے تھے ٗ تب وہاں اسی بارے میں کسی راہب کے ساتھ کچھ تبالۂ خیال کی نوبت آئی ،راہب نے ان کی گفتگوسننے اوران کے خیالات جاننے کے بعدکہا:’’اے مکہ والے…تمہاری باتیں سننے کے بعدمیں اس نتیجے پرپہنچاہوں کہ جس دین کی تمہیں تلاش ہے ٗ وہ ’’دینِ ابراہیم‘‘ہے ۔تم اس کی تلاش میں سرگرداں ہو، لیکن اس دین کااب اس دنیامیں کوئی وجودباقی نہیں رہا…‘‘ اورپھراس راہب نے مزیدکہا:’’ہاں البتہ تمہارے ہی شہرمکہ میں عنقریب ایک ایسی شخصیت کاظہورہونے والاہے جواللہ کے حکم سے اس ’’دینِ ابراہیم‘‘کی تجدیدکرے گا،لہٰذامیری نصیحت یہ ہے کہ تم جلدازجلدواپس مکہ روانہ ہوجاؤ‘‘۔ راہب کی زبانی یہ بات سننے کے بعدزیدکویوں محسوس ہواگویامتاعِ گمشدہ مل گئی ہو، اور گوہرِمقصودہاتھ آگیاہو…چنانچہ انہوں نے فوراًہی واپسی کی تیاری کی ،اورملکِ شام سے شہرمکہ کی جانب رواں دواں ہوگئے…! اس سفرکے دوران راستے میں کسی ویران مقام پررہزنوں کے ایک گروہ نے ان کے قافلیپرحملہ کردیا،جس کے نتیجے میں ان کے ساتھیوں میں سے کوئی ماراگیا اورکوئی زخمی ہوا،زیدبھی بری طرح زخمی ہوئے ،اوران پرنزع کی کیفیت طاری ہونے لگی ،ایسے میں جب آخری سانسیں چل رہی تھیں ٗ زیدنے نگاہ آسمان کی جانب اٹھائی، اپنے دونوں لرزرتے ہوئے ہاتھ فضاء میں بلندکئے،اورپھرکپکپاتے ہونٹوں سے یہ دعاء کی : اللّھُمّ اِن کُنتَ حَرَمْتَنِي مِن ھٰذَا الخَیر فَلَاتَحْرِم مِنہ ابنِي سَعِیداً یعنی’’اے اللہ!میں تواس خیرسے محروم ہی رہ گیا…لیکن اب تومیرے بیٹے سعیدکواس خیرسے محروم نہ رکھنا‘‘ اوراس کے ساتھ ہی زیدنے آخری ہچکی لی اوردنیائے فانی سے کوچ کرگئے۔ زیدکے دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی یہ دعاء اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہوئی، چنانچہ اس کے بعدمحض چندروزہی گذرے تھے کہ مکہ میں دینِ اسلام کاسورج طلوع ہوا،رسول اللہ ﷺ نے اپنے رب کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے جب دنیاوالوں کواللہ کاپیغام پہنچانے اوردینِ برحق کی طرف دعوت دینے کامبارک سلسلہ شروع فرمایا…تب زیدکے بیٹے سعیداُن خوش نصیب ترین افرادمیں شامل تھے جنہوں نے بہت جلداس دعوتِ حق پرلبیک کہتے ہوئے دینِ اسلام قبول کرلیاتھا۔ دراصل سعیدبن زیدکی تو آنکھ ہی اس گھرانے میں کھلی تھی جہاں مشرکینِ مکہ کے اس ماحول سے مکمل بیزاری وبے رغبتی پائی جاتی تھی،سعیدکی تربیت ایسے باپ کی زیرِنگرانی ہوئی تھی جوزندگی بھرتلاشِ حق میں سرگرداں رہاتھا،اورپھراسی حق کی جستجومیں ہی دورانِ سفراس نے اپنی جان دے دی تھی… رسول اللہ ﷺ کی دعوتِ حق پردل وجان سے لبیک کہتے ہوئے سعیدمحض تنہاہی مسلمان نہیں ہوئے تھے ٗبلکہ ان کے ہمراہ ان کی اہلیہ فاطمہ بنت خطاب بھی مسلمان ہوگئی تھیں ،جوکہ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کی بہن تھیں ۔ قبولِ اسلام کے بعدمشرکینِ مکہ کی طرف سے ایذاء رسانیوں کے سلسلے زوروشورکے ساتھ شروع ہوگئے،مشرکین ومخالفین نے سرتوڑکوشش کی کہ سعیدکسی طرح دینِ اسلام سے منحرف ہوجائیں ،اوردوبارہ اپنے پرانے دین کواپنالیں …اس مقصدکیلئے ترغیب وترہیب سمیت تمام حربے آزمائے گئے،لیکن مشرکینِ مکہ اپنی اس کوشش میں کامیاب نہوسکے…بلکہ الٹایہ صورت ہوئی کہ ان دونوں میاں بیوی نے مشرکینِ مکہ سے ان کی ایک انتہائی اہم اوربااثرترین شخصیت کوچھین لیا…یعنی عمربن خطاب(رضی اللہ عنہ) ہوایوں کہ عمربن خطاب (رضی اللہ عنہ ) دینِ اسلام کے ابتدائی دورمیں جب مسلمانوں کے شدیددشمن تھے ،انہی دنوں جب انہیں یہ بات معلوم ہوئی کہ ان کی اپنی بہن (فاطمہ بنت خطاب) اوربہنوئی (سعیدبن زید)مسلمان ہوچکے ہیں …تب وہ انتہائی غیظ وغضب کی کیفیت میں بہن کے گھرپہنچے تھے،جہاں اس وقت حضرت خباب بن الأرت رضی اللہ عنہ ان دونوں کوقرآن پڑھارہے تھے،عمربن خطاب(رضی اللہ عنہ)کوآتادیکھ کر خباب توکہیں چھپ گئے تھے،البتہ عمربن خطاب(رضی اللہ عنہ) نے اس موقع پربہن اور بہنوئی کے ساتھ بہت سختی ودرشتی کامعاملہ کیا…لیکن بالآخرجب انہوں نے وہاں قرآن کریم کی وہ آیات پڑھیں جواس وقت ان کی بہن اوربہنوئی پڑھ رہے تھے…(۱) تب دیکھتے ہی دیکھتے عمربن خطاب( رضی اللہ عنہ) کے دل کی دنیابدل گئی،اورپھراگلے ہی لمحے وہ دینِ اسلام قبول کرنے اورکلمۂ توحیدپڑھنے کی خاطررسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضری کی غرض سے کوہِ صفاسے متصل ’’دارالأرقم‘‘کی جانب راونہ ہوگئے تھے… اورپھرصورتِ حال یہ ہوئی تھی کہ مشکلات سے بھرپور اس ابتدائی دورمیں حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کاقبولِ اسلام مسلمانوں کیلئے بڑی تقویت کاباعث بناتھا،جبکہ کفارومشرکین کے حوصلے پست ہوگئے تھے…اوربے اختیاروہ یوں کہنے لگے تھے کہ ’’آج مسلمانوں نے ہم سے بدلہ لے لیا‘‘۔ ٭حضرت سعیدبن زیدرضی اللہ عنہ جب مسلمان ہوئے تب ان کی عمرمحض بیس برس تھی ، قبولِ اسلام کے بعدسے وہ ہمیشہ دینِ اسلام اورپیغمبرِاسلام کی خدمت ٗنیزدینِ برحق کی رفعت و سربلندی کیلئے ہرممکن کوشش کرتے رہے، اوراس راستے میں پیش آنے والے تمامترمصائب وآلام کاخندہ پیشانی کے ساتھ مقابلہ کرتے رہے۔ ٭نبوت کے تیرہویں سال ہجرتِ مدینہ کاحکم نازل ہونے کے بعدرسول اللہ ﷺ ودیگرتمام مسلمانوں کی طرح حضرت سعیدبن زیدرضی اللہ عنہ نے بھی اپنے آبائی شہرمکہ کوخیربادکہااورمدینہ جاپہنچے،اورپھرہجرت کے دوسرے ہی سال سے جب مشرکینِ مکہ کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف مسلسل جارحیت کاآغازہواتوحق وباطل کے مابین اولین معرکہ یعنی غزوۂ بدرکے موقع پریہ شرکت نہیں کرسکے تھے،اوراس کی وجہ یہ ہوئی تھی کہ ان دنوں خودرسول اللہ ﷺ نے انہیں اورحضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ (۱)کومشرکینِ مکہ کے لشکرکی نقل وحرکت پرنظررکھنے کی غرض سے مدینہ سے باہرکسی مقام کی جانب بھیجاہواتھا، اورپھران کی واپسی سے قبل ہی غزوۂ بدرکاتاریخی واقعہ پیش آگیاتھا، تب رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں حضرات کواس غزوے میں شرکت کے اجروثواب کی خوشخبری سے شادکام فرمایا تھا۔ البتہ غزوۂ بدرکے بعدرسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ کے دوران جتنے بھی غزوات پیش آئے ٗ ہرغزوے کے موقع پرحضرت سعیدبن زیدرضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی زیرِقیادت حاضر اور شریک رہے اوراللہ کے دین کی سربلندی کی خاطرہمیشہ بے مثال شجاعت وبہادری کامظاہرہ کرتے رہے… وقت کایہ سفرجاری رہا…حضرت سعیدبن زید رضی اللہ عنہ کی طرف سے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضری ٗ کسبِ فیض ٗاستفادہ ٗ نیزآپؐ کی خدمت وپاسبانی کایہ سلسلہ اسی طرح چلتارہا…آپؐ کی طرف سے بھی سعیدؓکیلئے محبتوں اورشفقتوں کے مبارک سلسلے مسلسل جاری رہے…حتیٰ کہ اسی کیفیت میں آپؐ کامبارک دورگذرگیا،آپؐ تادمِ آخران سے ہمیشہ انتہائی خوش اورمسرورومطمئن رہے۔
Top