حضرت عماربن یاسررضی اللہ عنہ - حضرت عماربن یاسررضی اللہ عنہ
رسول اللہ ﷺ کے جلیل القدرصحابی حضرت عماررضی اللہ عنہ کے والدحضرت یاسررضی اللہ عنہ کاتعلق دراصل ملکِ یمن سے تھا،ایک باروہ کسی کام کے سلسلے میں یمن سے مکہ آئے تھے،اورپھرمستقل وہیں رہائش اختیارکرلی تھی،اورپھررفتہ رفتہ شہرمکہ میں مقامی باشندوں کے ساتھ ان کے تعلقات مستحکم ہوتے گئے،حتیٰ کہ آخرسردارانِ قریش میں سے کسی نے اپنی کنیز’’سُمیّہ ‘‘کے ساتھ ان کی شادی کرادی ،کچھ عرصے بعداللہ نے ان دونوں میاں بیوی کوبیٹاعطاء فرمایاجس کانام انہوں نے ’’عمار‘‘رکھا۔ مکہ کے گلی کوچوں میں کھیلتے کودتے عمارنے اپنابچپن گذارا،اورپھر جب نوجوانی کے مرحلے میں قدم رکھاٗ توانہی دنوں شہرمکہ آفتابِ نبوت کی کرنوں سے جگمگانے لگاتھا…رسول اللہ ﷺ نے جب اپنے رب کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے پیغامِ حق پہنچانے کاسلسلہ شروع فرمایاتوبالکل ابتدائی دنوں میں ہی ان تینوں افرادپرمشتمل یہ مختصرساگھرانہ دعوتِ حق پر لبیک کہتے ہوئے مسلمان ہوگیا۔ دینِ اسلام کے ابتدائی دنوں میں مسلمانوں کوجن مصائب وآلام سے گذرناپڑتاتھا،وہی صورتِ حال ان تینوں کے ساتھ بھی پیش آئی ،آزمائشوں اورپریشانیوں کے وہی لامتناہی سلسلے ان کے سامنے بھی آکھڑے ہوئے…ہرروزجب سورج بلندہوجاتااوردھوپ خوب چمکنے لگتی…اوپرسے سورج آگ برساتا…اورنیچے سے دہکتی ہوئی زمین شعلے اگلتی… ایسے میں مشرکینِ مکہ ان تینوں کوکسی کھلے میدان میں لے جاتے،،تب بڑے بڑے سردارانِ قریش ٗ نیزشہرکے آوارہ اوراوباش قسم کے نوجوان بھی …سب جمع ہوجاتے اورہرکوئی خوب جی بھرکرانہیں زدوکوب کرتا،ہرقسم کی اذیت پہنچاتا،تپتے ہوئے سنگریزوں پرانہیں گھسیٹاجاتا،دہکتے ہوئے انگاروں پرلٹایاجاتا،راہگیروہاں سے گذرتے،مگرکوئی کچھ نہ بولتا،اکثررسول اللہ ﷺ کابھی وہاں سے گذرہوتا،آپؐ اپنی آنکھوں سے یہ دردناک مناظردیکھتے ،اوربس تڑپ کررہ جاتے،لیکن آپؐ کچھ کرنہیں سکتے تھے…البتہ اکثراس موقع پرآپؐ یہ الفاظ کہاکرتے: صَبْراً یَا آل یَاسِر، فَاِنَّ مَوعِدَکُمُ الجَنَّۃ… یعنی’’اے یاسرکے گھرانے والو!صبرسے کام لو،تمہارے لئے تویقیناجنت کاوعدہ ہے…‘‘ یوں وہاں مکہ میں دن گذرتے رہے،مشرکینِ مکہ کی طرف سے ایذاء رسانیوں کے سلسلے بھی بدستور چلتے رہے…حتیٰ کہ ایک روزجب ہرکوئی ان مظلوموں اوربیکسوں پرخوب زوروشورکے ساتھ طاقت آزمائی کررہاتھا،اورہرکوئی خوب بڑھ چڑھ کرمارپیٹ میں مشغول تھا…اسی دوران ابوجہل کاوہاں سے گذرہوا،اس نے جب یہ منظردیکھاتووہ بھی ظلم وستم کے اس سلسلے میں شریک ہوگیا،اورتب اس نے پوری قوت کے ساتھ اپنانیزہ سُمیہ کودے مارا،جس کے نتیجے میں اسی وقت …موقع پرہی سُمیہ کی موت واقع ہوگئی… اوریوں عمارکی والدہ سُمیہ تاریخِ اسلام میں پہلی شہیدتھیں …(رضی اللہ عنہا)۔ اورپھرانہی دنوں ایسے ہی تکلیف دہ حالات میں ایک روزیاسر(رضی اللہ عنہ)بھی اس دنیاسے منہ موڑگئے…اورتب باقی رہ گئے تنہاعمار…ایسے میں مشرکینِ مکہ کی طرف سے وحشیانہ مظالم کاسلسلہ مزیدشدت اختیارکرگیا،اُن دنوں انہیں اس قدرتکلیفیں پہنچائی گئیں کہ آخری عمراوروفات تک ان تکلیفوں کے آثاراوران زخموں کے نشان ان کے جسم پرجابجانمایاں نظرآتے رہے۔ ایک روزجب وحشیانہ مظالم کایہی سلسلہ جاری تھا،مشرکینِ مکہ پہلے توعماربن یاسررضی اللہ عنہ کوتپتی ہوئی ریت پرگھسیٹتے رہے،پھرجلادصفت لوگ ان کے جسم کے مختلف حصوں کودہکتے ہوئے انگاروں سے داغتے رہے،اورپھرپانی میں ڈبکیاں لگانے کاسلسلہ شروع کیا،باربار دیرتک عمارکاچہرہ پانی میں ڈبوئے رکھتے ،تاکہ سانس بندہوجائے، اوراصرار کرتے کہ کلمۂ کفرکہو،دینِ اسلام کی حقانیت کا ٗ نیزمحمد( ﷺ )کی نبوت کاانکارکرو… عماربن یاسررضی اللہ عنہ انتہائی تکلیف کے باوجودراہِ حق میں یہ تمام اذیتیں برداشت کرتے رہے،لیکن تکلیف کی شدت کی وجہ سے ان پرکچھ غشی طاری ہونے لگی،اورتب ہوش وحواس بھی ساتھ چھوڑنے لگے…ایسی کیفیت میں غیرارادی طورپراورلاعلمی میں نہ جانے کب ان کی زبان سے کوئی نامناسب بات نکل گئی…کوئی کلمۂ کفرانہوں نے کہہ دیا…تب اذیتوں کاوہ سلسلہ موقوف ہوا،اورپھررفتہ رفتہ ہوش وحواس بھی بحا ل ہونے لگے،تب انہیں کچھ یادآنے لگاکہ ظلم وستم اورزدوکوب کے دوران یہ لوگ مجھے کلمۂ کفرکہنے پرمجبورکررہے تھے،تب میری زبان سے بے اختیارشایدکوئی نامناسب بات نکل گئی تھی…یہ سوچ کر یہ انتہائی پریشان اورشرمندہ ہونے لگے،اذیتوں کایہ تمامترسلسلہ جو عرصۂ درازسے چلاآرہاتھا…اس پریہ کبھی اس قدرپریشان نہیں ہوئے تھے کہ جس قدر آج اس بے خودی اورنیم بیہوشی کی کیفیت میں اپنی زبان سے کلمۂ کفرنکل جانے کی وجہ سے پریشان وپشیمان تھے…کسی صورت انہیں چین نہیں آرہاتھا۔ آخربڑی ہمت کرکے اورموقع پاکررسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضرہوئے ،اورتمام ماجرابیان کیا،اُس وقت ان کی آنکھوں سے مسلسل آنسوبہہ رہے تھے،آپؐ نے اپنے دستِ مبارک سے ان کے بہتے ہوئے آنسوصاف کئے ،اورانہیں تسلی بھی دی کہ فکرکی بات نہیں ،مجبوری میں اورغیرارادی طورپراگرکلمۂ کفرزبان سے نکل بھی گیاہو …تواللہ معاف فرمائیگا…اورپھردوچارروزہی گذرے تھے کہ قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی : {مَن کَفَر بِاللّہِ مِن بَعْدَ اِیمَانِہٖ اِلّا مَن أُکرِہَ وَقَلْبُہٗ مُطمَئِنٌّ بَالاِیمَانِ وَلٰکِن مَن شَرَحَ بِالکُفْرِ صَدْراً فَعَلَیھِمْ غَضَبٌ مِنَ اللّہِ وَلَھُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ}(۱) ترجمہ’’جوشخص اپنے ایمان کے بعداللہ سے کفرکرے ٗ سوائے اس کے جس پرجبرکیاگیاہو جبکہ اس کادل ایمان پربرقرارہو ،مگرجولوگ کھلے دل سے کفرکریں ،توان پراللہ کاغضب ہے اورانہی کیلئے بہت بڑاعذاب ہے‘‘۔ یعنی اس آیت میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی طرف سے یہ خوشخبری سنادی گئی کہ جس کسی کو کفر پر مجبورکیاگیاہو اوراس نے محض اپنی جان بچانے کیلئے کوئی کلمۂ کفراپنی زبان سے کہہ دیاہو ٗ جبکہ اس کادل پوری طرح ایمان پرمطمئن اوربرقرارہو ٗتوایساکرنے کی وجہ سے وہ کافرنہیں ہوجائے گا… یہ آیت نازل ہونے کے بعدحضرت عماربن یاسررضی اللہ عنہ بہت زیادہ مسرورومطمئن ہوگئے، اوران کی وہ پریشانی اب جاتی رہی۔ مکی دورمیں اسی طرح وقت کایہ سفرجاری رہا…آخرنبوت کے تیرہویں سال جب ہجرتِ مدینہ کاحکم نازل ہوا ٗتب رسول اللہ ﷺ ودیگرتمام اہلِ ایمان کی طرح حضرت عماربن یاسر رضی اللہ عنہ نے بھی مکہ شہرکوالوداع کہااورمدینہ منورہ جاپہنچے ٗجہاں ایک نئی اوربدلی ہوئی زندگی کاآغازہوا… اورپھرجب ہجرت کے بعدمحض اگلے سال یعنی سن دوہجری سے ہی مشرکینِ مکہ کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف مسلح جارحیت کاسلسلہ شروع ہواجس کے نتیجے کے طورپرغزوات کی نوبت آئی …تب ہمیشہ ہرغزوے کے موقع پرحضرت عماربن یاسررضی اللہ عنہ پیش پیش رہے اورشجاعت وبہادری کے خوب جوہردکھاتے رہے… اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضری ٗ علمی استفادہ ٗ اورکسبِ فیض میں بھی یہ ہمیشہ نہایت جذبے ٗ اخلاص اورلگن کے ساتھ مشغول ومنہمک رہے۔ اسی کیفیت میں مدینہ منورہ میں وقت گذرتارہا…حتیٰ کہ رسول اللہ ﷺ کامبارک دور گذر گیا، آپؐ عماربن یاسررضی اللہ عنہ سے ہمیشہ تادمِ آخرانتہائی مسرورومطمئن رہے۔
Top