حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ - حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ
حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کاتعلق مکہ شہرمیں قبیلۂ قریش کے انتہائی مشہور ومعزز ترین خاندان ’’بنوہاشم‘‘سے تھا،مکہ میں رسول اللہ ﷺ کی ولادت باسعادت سے دو سال قبل ان کی ولادت ہوئی تھی۔ حضرت حمزہؓ رسول اللہ ﷺ کے چچا ٗ نیزرضاعی بھائی تھے،ابولہب کی کنیزثُویبہ(۱) جس نے آپؐ کی ولادت باسعادت کے فوری بعدآپؐ کودودھ پلایاتھا ٗ اسی نے انہیں بھی دودھ پلایاتھا۔ مکہ شہرمیں اوراس معاشرے میں ابتداء سے ہی حضرت حمزہ ؓ کی بڑی حیثیت اوربہت زیادہ قدرومنزلت تھی،خاندان بنوہاشم کے چشم وچراغ تھے،شجاعت وبہادری میں اپنی مثال آپ تھے،ان کی شخصیت میں ایک خاص قسم کارعب ٗ جلال ٗ اوروقارپایاجاتاتھا۔ دینِ اسلام کاابتدائی دورجوکہ مسلمانوں کیلئے انتہائی مشکلات سے بھرپورتھا،اسی دورمیں جب نبوت کاچھٹاسال چل رہاتھا ٗ ایک روزرسول اللہ ﷺ جب ’’صفا‘‘کے قریب کسی جگہ سے گذررہے تھے،تب اتفاقاً وہاں ابوجہل بھی آپہنچا،آپؐ کواس نے بہت زیادہ برا بھلا کہا،انتہائی نازیباقسم کی باتیں کیں ،اورخوب ہرزہ سرائی کرتارہا…آپؐ نے اس کی اس بیہودگی کاکوئی جواب نہیں دیا…تب وہ اپنی اس فضول اوربیہودہ گفتگوکے بعد، اور آپ ؐکی شان میں اس قدرگستاخی کے بعدوہاں سے کچھ فاصلے پرسردارانِ قریش کی ایک محفل میں جا کربیٹھ گیا،اوران کے ساتھ اِدھراُدھرکی ہانکنے میں مشغول ہوگیا۔ اتفاقاً اس وقت وہاں ’’صفا‘‘کے قریب ایک کنیزکھڑی ہوئی تھی ،رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بدبخت ابوجہل نے جس طرح گستاخی اوربدسلوکی کی تھی ٗ اس نے یہ تمام منظراپنی آنکھوں سے دیکھاتھا، اوراسے اس بات پربہت ہی رنج اورصدمہ محسوس ہورہاتھاکہ محمد( ﷺ ) جیسے انتہائی شریف ٗ معصوم ٗ اچھے ٗ اورسچے انسان کے ساتھ بلاوجہ اورناحق اس قدربدسلوکی ، آخر کیوں …؟ اسی دوران حضرت حمزہ ؓ وہاں سے گذرے ، جوکہ شکارکی غرض سے کہیں گئے ہوئے تھے ، اوراب وہاں سے واپس آرہے تھے ،لہٰذاہاتھ میں تیرکمان تھامے ہوئے تھے،کنیزنے جب انہیں دیکھاتوان کے سامنے تمام ماجرابیان کرتے ہوئے کہاکہ’’ابھی کچھ ہی دیرقبل ابوجہل نے یہاں آپ کے بھتیجے محمد( ﷺ )کے ساتھ بہت زیادہ بدسلوکی کابرتاؤکیاہے اوربغیرکسی سبب کے ان کے سامنے بہت مغلظات بکی ہیں …‘‘ تب حضرت حمزہؓ سیدھے اس محفل میں پہنچے جہاں ابوجہل بڑے سردارانِ قریش کے درمیان بیٹھاہواتھا،وہاں پہنچتے ہی انہوں نے کسی سے کوئی بات کئے بغیرفوری طورپر اچانک پوری قوت کے ساتھ اپنی کمان ابوجہل کے سرمیں دے ماری…جس کی وجہ سے اس کے سرسے خون بہنے لگا…اچانک اوربا لکل ہی غیرمتوقع طورپریہ منظردیکھ کرتمام سردرانِ قریش حیرت زدہ رہ گئے،اورحمزہؓ کوروکنے کی غرض سے ان کی طرف لپکے،اوریوں کہنے لگے :’’حمزہ یہ آپ کیاکررہے ہیں ؟‘‘ تب ابوجہل بولا’’میں سمجھ گیا…دراصل ابھی کچھ ہی دیرقبل میں نے ان کے بھتیجے محمد ( ﷺ )کوبرابھلاکہاتھا،شایدانہیں خبرہوگئی ہے ،یہ اسی کابدلہ انہوں نے لیاہے مجھ سے‘‘۔ اورتب تمام سردارانِ قریش حمزہؓ کی جانب متوجہ ہوکرکہنے لگے’’حمزہ !آپ کومعلو ہے کہ آپ کابھتیجاآباؤاجدادکے دین کوچھوڑکرکسی نئے دین کی تبلیغ کررہاہے ،اوریہ چیزہمارے درمیان بڑے فتنے کاباعث بن رہی ہے‘‘ اس پرحضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے جواب میں یوں فرمایا’’خوب اچھی طرح سُن لوتم سب، آج سے میں بھی اسی نئے دین میں شامل ہورہاہوں ، اسی دین کوقبول کررہاہوں ، کیونکہ وہی دینِ برحق ہے،تم میں سے کوئی مجھے روک سکتاہے توروک لے،میں جارہاہوں ‘‘ اورپھرحضرت حمزہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی تلاش میں وہاں سے روانہ ہوگئے ،خدمتِ اقدس میں حاضری دی،آمدکامقصدبیان کیا،دینِ اسلام قبول کیا،رسول اللہ ﷺ کے سامنے کلمۂ حق پڑھا’’أشہدأن لاالٰہ الااللہ،وأشہدأن محمدارسول اللہ‘‘اوریوں مسلمان ہوگئے۔ ان کے قبولِ اسلام کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کو ٗنیزتمام مسلمانوں کوانتہائی مسرت ہوئی،جبکہ مشرکین کیلئے یہ بات بڑے ہی صدمے اورپریشانی کاسبب بنی،کیونکہ اس معاشرے میں ان کاجوبہت بڑااثرورسوخ تھا،اس کومدِنظررکھتے ہوئے ان کاقبولِ اسلام مسلمانوں کیلئے بڑی کامیابی ٗ جبکہ مشرکین کیلئے بڑاخسارہ تھا۔ ٭حُسنِ اتفاق ملاحظہ ہوکہ حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے قبولِ اسلام کے محض دودن بعدہی با لکل اچانک اورغیرمتوقع طورپرمکہ کی ایک اوربہت ہی اہم ترین شخصیت یعنی حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ بھی مسلمان ہوگئے…یکے بعددیگرے …ان دوعظیم ترین ٗانتہائی بااثراورطاقتورشخصیات کااچانک قبولِ اسلام…مشرکینِ مکہ کیلئے یہ ایسا صدمہ تھاکہ جس کی وجہ سے ان میں صفِ ماتم بچھ گئی،ان کے دل مرجھانے لگے،اوران کے حوصلے پست پڑنے لگے۔ مکہ میں دینِ اسلام کے ابتدائی دورمیں یہی وہ بڑی تبدیلی تھی کہ جس کے نتیجے میں مسلمانوں نے اب پہلی بارعلیٰ الاعلان بیت اللہ کاطواف اوروہاں عبادات کاآغازکیا،ورنہ اس سے قبل یہ سلسلہ نہیں تھا،صورتِ حال یکسر مختلف تھی۔ مکہ میں وقت کایہ سفرجاری رہا،اورپھرنبوت کے تیرہویں سال ہجرت کاحکم نازل ہونے پردیگرتمام مسلمانوں کی طرح حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ بھی اپنے آبائی شہرمکہ کو خیرباد کہتے ہوئے مدینہ جاپہنچے۔ ہجرتِ مدینہ کے بعداگلے ہی سال یعنی ۲ھ؁میں حق وباطل کے مابین پیش آنے والے اولین معرکے یعنی ’’غزوۂ بدر‘‘کے موقع پرحضرت حمزہؓ پیش پیش رہے اورانتہائی بہادری ودلیری کامظاہرہ کرتے ہوئے بڑی ہی بے جگری سے لڑے ،بیک وقت دونوں ہاتھوں میں تلوارلئے ہوئے جب یہ کسی بپھرے ہوئے شیرکی مانندمشرکین کے لشکرپرجھپٹتے تولوگ انتہائی حیرت کے ساتھ انہیں بس دیکھتے ہی رہ جاتے… اورپھراگلے ہی سال یعنی ۳ھ؁ میں جب مشرکینِ مکہ دوبارہ چلے آئے تھے،مسلمانوں سے اپنی شکست کابدلہ لینے کی خاطر…تب ابتداء میں مسلمان تقریباً یہ جنگ جیت ہی چکے تھے، لیکن پھراچانک اپنی ہی ایک غلطی کی وجہ سے مسلمان اپنی یہ جیتی ہوئی جنگ ہارگئے تھے،اوراس وقت بہت زیادہ افراتفری پھیل گئی تھی،مسلمان اپنی صفوں میں نظم و ضبط برقرار نہیں رکھ سکے تھے… ایسے میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بڑی ہی استقامت اورپامردی کے ساتھ مشرکین کے خلاف جنگ میں مشغول ومنہمک تھے۔ اس حوالے سے ایک قابلِ ذکر بات یہ کہ غزوۂ اُحدسے قبل غزوۂ بدرکے موقع پرچونکہ متعدد سردارانِ قریش اور نامی گرامی شہسوارحضرت حمزہؓ کے ہاتھوں مارے گئے تھے، لہٰذاان کے رشتے داروں میں سے بہت سے جنگجواب اُحدکے موقع پرمحض حضرت حمزہؓ سے اپناانتقام لینے کی غرض سے وہاں پہنچے تھے،اورانہوں نے بطورِخاص بس انہی پرنظررکھی ہوئی تھی۔ ایسے ہی ایک بڑاسردارطُعیمہ بن عُدی جو’’غزوۂ بدر‘‘کے موقع پرحضرت حمزہؓ کے ہاتھوں ماراگیاتھا،اس کی موت کے بعدمکہ میں اس کا بھتیجا مسلسل انتقام کی آگ میں جل رہاتھا، اوراسے کسی صورت سکون نہیں مل رہاتھا…اس کاایک حبشی غلام تھا،جس کانام تھا’’وحشی بن حرب‘‘جسے دورسے ہی نیزہ پھینک کرشکارکرنے میں بڑی مہارت حاصل تھی اس کانشانہ کبھی خطانہیں جاتاتھا(۱) جنگِ اُحدسے قبل مشرکینِ مکہ جن دنوں مسلمانوں کے خلاف خوب زوروشورکے ساتھ تیاریوں میں مصروف تھے ، ان کاجنگی جنون جب عروج پرتھا…ایسے میں ایک روز ’’وحشی‘‘کے آقانے اسے مخاطب کرتے ہوئے یوں کہا’’کیاتمہیں آزادی کی تمنا ہے؟‘‘ اپنے آقاکی زبانی یہ بات سن کروحشی حیرت زدہ رہ گیا،اسے اپنے کانوں پریقین ہی نہیں آرہاتھا…تب وہ اپنے آقاکی جانب معنیٰ خیزنگاہوں سے دیکھنے لگا،گویاوہ اس بارے میں مزیدوضاحت چاہتاہو… تب اس کے آقانے اس کی جانب بغوردیکھتے ہوئے یوں کہا’’دیکھووحشی!مسلمانوں کے خلاف جنگ کی غرض سے ہم لوگ بس چندہی دنوں میں مدینہ کی جانب کوچ کرنے والے ہیں ، اگرتم بھی ہمارے ساتھ چلو،اوروہاں میدانِ جنگ میں حمزہ کوقتل کرڈالو…تومیں تمہیں بطورِانعام آزادکردوں گا‘‘۔ ظاہرہے کہ وحشی کیلئے اس سے بڑالالچ اورکیاہوسکتاتھا…لہٰذامحض حضرت حمزہ ؓکوقتل کرنے کی خاطر…اوراس کے عوض اپنی آزادی کے لالچ میں مشرکینِ مکہ کے لشکرکے ہمراہ وہ بھی مدینہ کی جانب روانہ ہوگیا،لشکرمسلسل مدینہ کی جانب پیش قدمی کرتارہا،اس دوران وحشی روزانہ بڑے ہی اہتمام سے اپنانیزہ تیزکیاکرتا…اس کاتیزدھاراورچمکدارنیزہ دھوپ میں خوب چمکتاہوادورسے ہی نظرآیاکرتاتھا،جسے دیکھ کربڑے بڑے سردارانِ قریش اس کی خوب حوصلہ افزائی کیاکرتے تھے… اسی کیفیت میں وحشی مشرکینِ مکہ کے لشکرکے ہمراہ وہاں پہنچاتھا،اوراُحدکے میدان میں اس نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کوتلاش کیااورپھرمسلسل انہی پرنگاہ مرکوزکئے رکھی، اور مسلسل ان کے تعاقب میں رہا…حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اس موقع پرجس بے جگری سے لڑرہے تھے اس پریہ وحشی باربارلرزاٹھتا،اس کے سراپاپرعجیب ساخوف طاری ہونے لگتا، اتنی ہمت وہ کہاں سے لاتاکہ ان کے قریب جاکروارکرے، اوردورسے وارکرنے کاکوئی مناسب موقع نہیں مل رہاتھا…اسی دوران مشرکینِ مکہ کے ناموربہادروں میں سے سِباع بن عبدالعُزیٰ نامی ایک شخص کی نظرحضرت حمزہؓ پرپڑی ، اس نے جب انہیں دونوں ہاتھوں میں تلوارلئے ہوئے اس قدربہادری وبے جگری کے ساتھ لڑتے دیکھاتوانہیں مخاطب کرتے ہوئے چلایا: بَارِزنِي یا حَمزۃ… یعنی’’اے حمزہ ذرہ مجھ سے مقابلہ کرو…‘‘ تب حضرت حمزہؓ برق رفتاری کے ساتھ اس کی جانب لپکے ،اور اس پربھرپور وار کیا ،اگلے ہی لمحے تکبروغرورکاوہ پتلازمین بوس ہوگیا،تاہم ابھی تک حضرت حمزہؓ اسی کی طرف متوجہ تھے،اُس وقت ان کی پشت ایک درخت کی جانب تھی جس کی آڑمیں وحشی چھپا کھڑاتھا…تب وحشی نے موقع غنیمت جانا،اورپوری قوت کے ساتھ نیزہ ان کی کمرکے نچلے حصے میں ایک پہلومیں دے مارا…جوکہ اسی وقت آرپارہوگیا… جیساکہ بعدمیں وحشی نے خودبیان کیاکہ’’نیزہ لگتے ہی حضرت حمزہؓ نے نہایت غصے کے عالم میں گھوم کرمیری جانب دیکھا،اورمیری طرف بڑھنے کی کوشش کی،تب میں انتہائی خوف ودہشت کی کیفیت میں وہاں سے بھاگنے کیلئے مڑا،حمزہ بھی میرے تعاقب میں آئے مگردوچارقدم کے بعدوہ لڑکھڑائے ،اورپھررک گئے،اورپھرتھوڑی ہی دیربعدگرگئے، تب میں اپنی جگہ رک گیا،اورکچھ دیررکاہی رہا،اورجب خوب یقین ہوگیاکہ اب ان کی جان نکل چکی ہے،تب میں نے آگے بڑھ کران کے جسم میں پیوست اپنانیزہ نکالا،اوروہاں سے چلتابنا…کیونکہ مجھے اب اورکوئی غرض نہیں تھی،میرامقصدپوراہوچکاتھا‘‘۔(۱) ٭جنگِ اُحدکے موقع پرمشرکینِ مکہ کی عورتیں ان مشرکین کی دلجوئی ٗنیزحوصلہ افزائی کی غرض سے بڑی تعدادمیں ہمراہ آئی تھیں ، مشرکینِ مکہ کے سپہ سالارابوسفیان(جوبعدمیں فتحِ مکہ کے موقع پرمسلمان ہوگئے تھے) کی بیوی ہندبھی ان عورتوں میں شامل ٗبلکہ پیش پیش تھی،ایک توسپہ سالارکی بیوی ہونے کی وجہ سے لشکرمیں اس کی خاص حیثیت اوربڑی شان تھی،مزیدیہ کہ غزوۂ بدرکے موقع پراس کاباپ عتبہ بن ربیعہ ٗ چچا شیبہ بن ربیعہ ٗ اوربھائی ولیدبن عتبہ …جن کاشمارمکہ کے بڑے معززترین افرادمیں ہوتاتھا…تینوں ہی مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے(۱)اوراسی وجہ سے ہندکے دل ودماغ پرمسلمانوں سے انتقام کاجنون سوارتھا،لہٰذا اس جنگ کے موقع پرمسلمانوں کے خلاف وہ خوب سرگرمی کامظاہرہ کررہی تھی،مشرکینِ مکہ کے بڑے سرداروں کی بیگمات کی قیادت کرتے ہوئے وہ لشکرمیں گھوم پھرکرنہایت جوش وخروش کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی میں مصروف تھی۔اورپھرجنگ کے خاتمے کے بعدمسلمان شہداء کے درمیان گھوم پھرکروہ دیوانہ وارخوشی منارہی تھی…اسی دوران جب اس کی نظرحضرت حمزہؓ کے جسدمبارک پرپڑی تواس کی خوشی کی انتہاء نہ رہی،اورتب اس پرجنونی کیفیت طاری ہونے لگی،کیونکہ غزوۂ بدرکے موقع پراس کامغرورومتکبرباپ ’’عتبہ‘‘ حضرت حمزہ ؓکے ہاتھوں ہی ماراگیاتھا…لہٰذااب اس نے انتقام کی آگ بجھانے کی خاطروہاں اُحدکے میدان میں خوب زوروشورکے ساتھ اپنامکروہ وقبیح ترین کام شروع کردیا،اورانتہائی درندگی وسفاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حضرت حمزہؓ کے جسم سے مختلف اعضاء نوچ نوچ کرکاٹنے لگی،ناک کان کاٹے ، آنکھیں نکالیں ٗ پھربھی تسلی نہیں ہوئی …تب سینہ چاک کیا،کلیجہ نکالا،اوراسے چبانے لگی…نگلنے کی کوشش کرتی رہی،لیکن نگل نہیں سکی ،تب غصے میں اگل کروہاں سے چلتی بنی…اورجب اسے یہ بات معلوم ہوئی کہ حضرت حمزہؓ کووحشی نے قتل کیاہے ٗ تووہ وحشی کوتلاش کرتی ہوئی اس کے پاس پہنچی اوراپنے گلے سے ہاراتارا،پھرکانوں سے بالیاں بھی اتاریں ، اوراپنے یہ قیمتی زیورات بطورِانعام وحشی کے حوالے کرتے ہوئے اسے یہ تاکیدکی ’’ان زیورات کوخوب سنبھال کررکھنا ٗکیونکہ یہ بہت ہی قیمتی ہیں ‘‘۔ رسول اللہ ﷺ جب حضرت حمزہؓ کوتلاش کرتے ہوئے وہاں پہنچے ،اوران کایہ حال دیکھا،توآپ ﷺ انتہائی رنجیدہ ہوگئے،آپؐ کی آنکھوں سے آنسوبہنے لگے،مزیدیہ کہ اس موقع پرآپؐ کی ہچکیاں بھی سنی گئیں …جبکہ اس کے سواکسی اورموقع پرکبھی آپؐ کی ہچکیاں نہیں سنی گئیں ۔ وہاں آپؐ کے ہمراہ موجودصحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے جب آپؐ کواس قدررنجیدہ وافسردہ دیکھاتووہ قسم کھاکرکہنے لگے ’’آئندہ اگرکبھی ہمیں ان مشرکینِ مکہ کے مقابلے میں فتح نصیب ہوئی توہم ان کاایسامُثلہ کریں گے کہ تاریخ میں مثال نہیں مل سکے گی‘‘(۱) اورتب خودرسول اللہ ﷺ نے بھی یہ قسم کھائی: لَو ظَھَرْنَا عَلَیھِم لَنَُمَثِّلَنَّ بَثَلَاثِینَ رَجُلاً مِنھُم … یعنی’’اگرہمیں ان کے مقابلے میں فتح نصیب ہوئی توہم ان کے تیس آدمیوں کاایساہی مُثلہ کریں گے‘‘۔(۲) اورتب آسمانوں سے …اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے یہ آیت نازل ہوئی: {وَاِن عَاقَبتُم فَعَاقِبُوا بِمِثلِ مَا عُوقِبتُم بِہٖ وَلَئِن صَبَرتُم لَھُوَ خَیرٌ لِلصَّابِرِینَ وَاصْبِر وَمَا صَبْرُکَ اِلَّا بِاللّہِ وَلَا تَحْزَن عَلَیھِم وَلَا تَکُ فِي ضَیْقٍ مِّمَّا یَمکُرُونَ اِنَّ اللَّہَ مَعَ الَّذِینَ اتَّقَوا وَالَّذِینَ ھُم مُحْسِنُونَ}(۳) ترجمہ:(اوراگرتم بدلہ لو ٗ توبالکل اتناہی جتناصدمہ تمہیں پہنچایاگیاہو،اوراگرصبرکرلو ٗ توبے شک صابرین کیلئے یہی بہترہے،آپ صبرکیجئے، اوربغیرتوفیق الٰہی کے آپ صبرکرہی نہیں سکتے،اوران کے حال پررنجیدہ نہوں ،اورجومکروفریب یہ کرتے ہیں ان سے تنگ دل نہوں ، یقین مانوکہ اللہ پرہیزگاروں اوراچھے کام کرنے والوں کے ساتھ ہے)۔ ان آیات میں اولاً تویہ تنبیہ کی گئی کہ اگرانتقام لیناہوتومحض اتناہی لوکہ جتناتم پرظلم کیاگیا ہے، اس سے زیادہ ہرگزنہیں ۔اس کے ساتھ ہی یہ تعلیم بھی دے دی گئی کہ اگربالکل ہی انتقام نہ لو ٗ صبرسے کام لو ٗ تویہ بہت بہترہے۔اس کے بعد یہ تلقین کی گئی کہ صبرکادامن تھامے رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ اللہ سے صبرکی توفیق طلب کی جائے،اس کی طرف سے توفیق شاملِ حال ہوگی توصبرنصیب ہوگا،ورنہ نہیں …اورپھرخالقِ ارض وسماء کی طرف سے ہمیشہ کیلئے یہ نسخہ بتادیاگیاکہ اللہ کی معیت ونصرت کی طلب وآرزوہے تو’’اللہ کاخوف‘‘ نیز’’اللہ کے بندوں کے ساتھ حسنِ سلوک‘‘کاراستہ اختیارکرو…تب جاکرتمہیں اللہ کی معیت ونصرت نصیب ہوسکے گی،اورجب اللہ کی معیت ونصرت جیسی عظیم ترین نعمت نصیب ہوجائے گی …توپھرغم کیسا…؟پھرانتقام کی آگ میں سلگناکیسا…؟ پھرتوکسی ’’انتقام‘‘یاکسی ’’مُثلہ‘‘کی کوئی ضرورت ہی باقی نہیں رہے گی… چنانچہ ان آیات میں خالقِ کائنات کی طرف سے ان توجیہات اورپاکیزہ تعلیمات کے نزول کے بعدرسول اللہ ﷺ نے اپنی اس قسم(یعنی مشرکینِ مکہ کامُثلہ کرنے کی قسم) کاکفارہ اداکیا… اورپھرفتحِ مکہ کے تاریخی موقع پروہی تمام بڑے بڑے مجرم…جنہوں نے غزوۂ اُحدکے موقع پریہ اتنابڑاظلم کیاتھا…ناک ٗ کان کاٹے ٗ آنکھیں نکالیں ٗ سینہ چاک کیا ٗ کلیجہ نکالا ٗ اورچبانے کی کوشش کی …اورمحض یہی نہیں …بلکہ اس سے قبل تیرہ سالہ مکی دورمیں یہی لوگ مسلمانوں پرظلم وستم کے پہاڑتوڑتے رہے…آپ ﷺ نہایت محبت ٗ نرمی ٗ اور شفقت کے ساتھ انہیں دینِ برحق کی طرف دعوت دیتے رہے…آپ ﷺ تیرہ سال مسلسل ان پروعظ ونصیحت کے پھول برساتے رہے…جبکہ جواب میں یہ لوگ ہمیشہ پتھر ہی برساتے رہے تھے…آج یہی تمام لوگ مغلوب ومفتوح،ہاتھ باندھے اور سر جھکائیکھڑے تھے…بے بس اورلاچار… تب اس موقع پرآپ ﷺ نے انہی مذکورہ آیات میں اپنے رب کی طرف سے نازل فرمودہ تعلیمات وتوجیہات کے مصداق کے طورپر’’صبر‘‘اور’’عفوودرگذر‘‘کاایسامظاہرہ فرمایاتھاکہ ’’عفوودرگذر‘‘کے باب میں یقینا تمام تاریخِ عالَم اس جیسی کوئی اورمثال پیش کرنے سے ہمیشہ عاجزوقاصرہی رہے گی… ۳ھ؁ میں مدینہ منورہ کے مضافات میں واقع اُحدپہاڑکے دامن میں پیش آنے والے اس تاریخی غزوہ کے اختتام پررسول اللہ ﷺ کے انتہائی جلیل القدرصحابی ٗ آپؐ کے محترم ومکرم چچا ٗآپؐ کے رضاعی بھائی …اسداللہ واسدرسولہٖ…سیدالشہداء … حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کواُحدپہاڑکے دامن میں ہی ٗدیگرشہدائے اُحدکے ہمراہ سپردِ خاک کردیاگیا،بوقتِ شہادت ان کی عمر۵۸برس تھی۔ اللہ تعالیٰ سیدالشہداء حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ ٗ ودیگرتمام شہدائے اُحدکے درجات جنت الفردوس میں بلندفرمائیں ، نیزہمیں وہاں اپنے حبیب ﷺ اورتمام صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی صحبت ومعیت سے نوازیں ۔
Top