حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ - حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ
رسول اللہ ﷺ کے جلیل القدرصحابی حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کاتعلق مکہ شہرمیں مشہورقبیلۂ قریش کے معززترین خاندان ’’بنوہاشم‘‘سے تھا،یہ رسول اللہ ﷺ کے چچاتھے،عمرمیں آپؐ سے تقریباًچارسال بڑے تھے۔اپنے بھائی ابوطالب بن عبدالمطلب کی وفات کے بعدیہی خاندانِ ’’بنوہاشم‘‘کے سردار ٗنیز’’متولیِٔ کعبہ‘‘تھے،یہی وجہ تھی کہ اُس معاشرے میں انہیں انتہائی عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھاجاتاتھا۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ قبل ازاسلام اُس معاشرے میں بھی سخاوت وفیاضی میں اپنی مثال آپ تھے، مہمان نوازی ٗ نیزمحتاجوں وضرورتمندوں کی مددواعانت اوران کی خبرگیری کے معاملے میں ہمہ وقت پیش پیش رہاکرتے تھے۔ حضرت عباسؓابتداء سے ہی انتہائی شریف النفس قسم کے انسان تھے،ابوطالب کی طرح یہ بھی ہمیشہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بہت ہی رحمت وشفقت کامعاملہ کیاکرتے تھے،مشرکینِ مکہ کے مقابلے میں آپؐ کی طرف سے ہمیشہ مدافعت وحمایت کی بھی حتیٰ المقدورکوشش وجستجوکیاکرتے تھے۔ نبوت کے تیرہویں سال بیعتِ عقبہ ثانیہ کے موقع پرآپؐ جب مدینہ سے آئے ہوئے افرادکے ساتھ طے شدہ منصوبے کے مطابق خفیہ ملاقات کی غرض سے رات کی تاریکی میں اپنے گھرسے منیٰ کی جانب روانہ ہونے لگے،تب عین وقت پرحضرت عباسؓ بھی آپہنچے ، اوراصرارکیاکہ ’’میں آپ کو ہرگزتنہانہیں جانے دوں گا،میں بھی ضرورآپ کے ہمراہ وہاں جاؤں گا‘‘۔ حضرت عباسؓ اُس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے … اپنے پرانے دین پرہی قائم تھے… لیکن اپنے بھتیجے (یعنی رسول اللہ ﷺ )کے ساتھ محبت وشفقت کایہ عالم تھاکہ انہوں نے اس بات کوگوارانہیں کیاکہ اس قدرخطرہ مول لیتے ہوئے ان کابھتیجااکیلاوہاں جائے… ایک توراستے میں قدم قدم پرمشرکینِ مکہ کی طرف سے خطرہ … اوراس کے علاوہ مزیدیہ کہ انہیں کچھ اندازہ ہوچکاتھاکہ اس ملاقات میں آپؐ شایداب مستقل طور پر مکہ سے مدینہ منتقل ہوجانے کے بارے میں ان لوگوں کے ساتھ کچھ گفت وشنیدکریں گے اوراس سلسلے میں کچھ اہم معاملات طے کئے جائیں گے…! چونکہ یہ انتہائی نازک معاملہ تھا…لہٰذاحضرت عباسؓ کی یہ خواہش تھی کہ اس اہم اورحساس ترین معاملے پرگفت وشنیدکے موقع پروہ بھی موجودہوں اورفریقین کے مابین اس بارے میں جوکچھ بھی طے ہووہ ان کی موجودگی میں ہو… تاکہ ان کاپیارابھتیجاکسی مشکل میں نہ پھنس جائے…! چنانچہ آپ ﷺ اس موقع پراپنے مشفق ومہربان چچاکے اصرارکودیکھتے ہوئے انہیں اپنے ہمراہ لے گئے تھے،اوروہاں منیٰ میں اس ملاقات اورپھربیعت کے موقع پرانصارِمدینہ نے آپؐ کومستقل مدینہ چلے آنے والے کی دعوت دی تھی ٗ تب رسول اللہ ﷺ اور انصارِ مدینہ کے مابین اس حوالے سے طے کئے جانے والے معاملات اورضروری گفت وشنیدکے موقع پرحضرت عباسؓ بھی موجودتھے…یقینااس سے حضرت عباسؓ کے دل میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ والہانہ تعلق ٗ اورآپؐ کی خیریت وسلامتی کے حوالے سے فکر ٗ تشویش ٗ اورخیرخواہی کے جذبات کی خوب عکاسی ہوتی ہے۔ ٭حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ دینِ اسلام کے ظہورکے بعدبہت ابتدائی زمانے سے ہی دینِ برحق قبول کرناچاہتے تھے…لیکن …ایسانہیں ہوسکا۔البتہ اس کے باوجودوہ ہمیشہ مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی کااظہارکرتے رہے۔مسلمانوں کی حفاظت وسلامتی سے متعلق جوکچھ بھی ان سے بن پڑا…ہمیشہ ہی اس سلسلے میں حتیٰ المقدورکوشش و جستجو میں مشغول رہے… نبوت کے تیرہویں سال جب ہجرتِ مدینہ کاحکم نازل ہواتورسول اللہ ﷺ ودیگرتمام مسلمان اپنے آبائی شہرمکہ کوخیربادکہتے ہوئے مدینہ چلے آئے تھے،اورپھراس ہجرت کے بعدمحض اگلے سال ہی مشرکینِ مکہ مسلمانوں کونیست ونابودکردینے کی غرض سے مدینہ کی جانب رواں دواں ہوگئے تھے،اورپھر مدینہ شہرسے تقریباًایک سوساٹھ کلومیٹرکے فاصلے پر ’’بدر‘‘ کے مقام پرمسلمانوں اورمشرکینِ مکہ کے مابین اولین معرکہ پیش آیاتھا…اس موقع پر حضرت عباس مشرکینِ مکہ کے ہمراہ بادلِ ناخواستہ اورمجبوراًچلے آئے تھے…جبکہ ان کی دلی ہمدردیاں مسلمانوں کے ساتھ تھیں …اوریہ مسلمانوں کے خلاف کسی بھی قسم کی جارحیت اورلشکرکشی کے سخت مخالف تھے… اس موقع پررسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کویہ تاکیدفرمادی تھی کہ’’ دورانِ جنگ اگرکسی کاعباس کے ساتھ آمناسامناہوجائے …تووہ انہیں قتل نہ کرے…‘‘کیونکہ آپ ﷺ کواس حقیقت کاخوب احساس وادراک تھاکہ عباس خلوصِ دل کے ساتھ مسلمان ہوناچاہتے ہیں ،وہ مسلمانوں کے بڑے خیرخواہ ہیں ٗاوران کادل مسلمانوں کے ساتھ ہی دھڑکتاہے … اورپھرغزوۂ بدرکے اختتام پرکیفیت کچھ یوں تھی کہ مشرکینِ مکہ میں سے سترافرادمارے گئے تھے،سترہی مسلمانوں کے ہاتھوں قیدی بنے تھے،جبکہ باقی لوگ جان بچاکرواپس لوٹ گئے تھے۔ حضرت عباسؓ کانصیب انہیں ان تینوں قسم کے افرادمیں سے دوسری قسم کی جانب کھینچ لایاتھا…یعنی جوقیدی بن گئے تھے۔ اورپھرجب وہ دن ڈھل گیااوررات کے سائے ہرطرف پھیل گئے…قیدیوں کے کراہنے کی آوازیں بلندہونے لگیں …انہی آوازوں میں حضرت عباسؓ کی آوازبھی شامل تھی ، مشفق ومہربان چچاکے کراہنے کی آوازجب آپؐ کی سماعت سے ٹکراتی توآپ انتہائی رنجیدہ ودل گرفتہ ہوجاتے…صحابۂ کرام نے جب آپؐ کی یہ اداسی اوربے چینی دیکھی تو اس چیزکی وجہ دریافت کی…تب آپؐ نے فرمایا’’میں اپنے چچاعباس کی آوازکی وجہ سے پریشان ہوں …‘‘ اورپھرکچھ دیربعدعباسؓ کی آوازآنابندہوگئی،جس پرآپؐ نے اپنے ان صحابۂ کرام کومخاطب کرتے ہوئے استفسارفرمایا : مَالِي لَا أسمَع أَنِینَ العَبّاس…؟ یعنی’’کیابات ہوگئی…اب مجھے عباس کے کراہنے کی آوازسنائی نہیں دے رہی؟‘‘تب ان میں سے ایک شخص نے عرض کیاکہ ’’اے اللہ کے رسول!مجھ سے آپ کی بے چینی دیکھی نہیں جارہی تھی،اس لئے میں آپ کے چچاعباس کی رسی ڈھیلی کرآیاہوں ‘‘اس پرآپؐ نے فرمایا’’جاؤ، سب ہی قیدیوں کی رسی ڈھیلی کردو‘‘ اورپھرباہم مشاورت کے بعدان قیدیوں کے بارے میں جب یہ طے پایاکہ تمام قیدی فدیہ اداکریں اورآزادہوجائیں …تب دیگرقیدیوں کی طرح حضرت عباس بھی جب آزادہوئے …تواب مکہ واپسی کے بعددینِ اسلام ٗ پیغمبرِاسلام ٗ نیزتمام مسلمانوں کی بہتری اورخیروخوبی کیلئے حتیٰ المقدورکوششیں کرتے رہے…وقتاًفوقتاًرسول اللہ ﷺ کے ساتھ خفیہ خط وکتابت بھی کیاکرتے،جس میں مکہ کی صورتِ حال ٗ مشرکینِ مکہ کی جنگی تیاریاں ٗ ودیگرضروری اطلاعات ومعلومات بہم پہنچایاکرتے…جب انہیں مسلمانوں کی کسی کامیابی کے بارے میں علم ہوتاتوبہت خوش ہوتے،اورجب ان کی کسی ناکامی کی اطلاع ملتی توانتہائی رنجیدہ وافسردہ ہوجایاکرتے…اسی کیفیت میں وقت گذرتارہا… حتیٰ کہ سن آٹھ ہجری میں فتحِ مکہ سے کچھ قبل حضرت عباسؓ ہجرتِ مدینہ کی غرض سے مکہ شہرسے نکلے ، اورمدینہ کی جانب روانہ ہوگئے،لیکن راستے میں مکہ شہرسے کچھ فاصلے پرہی ان کی ملاقات رسول اللہ ﷺ سے ہوگئی ٗ جواس موقع پراپنے دس ہزارجاں نثاروں کی قیادت کرتے ہوئے مدینہ سے مکہ کی جانب پیش قدمی فرمارہے تھے…اورتب اس ملاقات کے موقع پرانہوں نے باقاعدہ طورپراپنے قبولِ اسلام کااعلان کیا،اورآپؐ کے لشکرمیں شامل ہوکراب واپس مکہ کی طرف گامزن ہوگئے۔ بعض مؤرخین کے بقول حضرت عباسؓ بہت پہلے ہی دینِ اسلام دل سے قبول کرچکے تھے…تاہم اس چیزکووہ چھپاتے تھے،البتہ اب فتحِ مکہ کے موقع پرجب مسلمانوں کوغلبہ نصیب ہوا تو انہوں نے اپنے قبولِ اسلام کاکھل کراعلان کردیا۔ فتحِ مکہ کے فوری بعدتاریخی ’’غزوۂ حنین‘‘ پیش آیا،مکہ سے تقریباًاسی کلومیٹرکے فاصلے پر واقع طائف شہرمیں ’’ہوازن‘‘اورثقیف‘‘نامی دوبڑے قبائل آبادتھے،انہیں جب مسلمانوں کے ہاتھوں فتحِ مکہ کی خبرموصول ہوئی تویہ اندیشہ ہونے لگاکہ کہیں مسلمان مکہ کے بعداب ہمارے شہرطائف کی جانب متوجہ نہوجائیں …لہٰذاانہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ قبل اس کے کہ ایسی نوبت آئے ٗ ہمیں خودہی مکہ پہنچ کرمسلمانوں پرحملہ کردیناچاہئے ، چنانچہ اس مقصدکیلئے چوبیس ہزارجنگجؤؤں پرمشتمل ان کالشکرِجرارطائف سے مکہ کی جانب روانہ ہوا۔ دوسری جانب رسول اللہ ﷺ کومکہ میں جب یہ اطلاع ملی توآپؐ نے بھی وہیں بیٹھ کران کاانتظارکرنے کی بجائے اپنے بارہ ہزارجاں نثاروں کے ہمراہ ان کی جانب کوچ کرنے کافیصلہ فرمایا،چنانچہ مکہ اورطائف کے درمیان ’’حُنین‘‘نامی مقام پردونوں لشکروں کاآمناسامناہوا۔ایک تودشمن کی تعدادمسلمانوں کے مقابلے میں بہت زیادہ تھی،مزیدیہ کہ انہوں نے ایک تنگ وتاریک پہاڑی درے میں بڑی تعدادمیں تیراندازبٹھارکھے تھے،عام یلغارسے قبل یہ صورتِ حال پیش آئی کہ مسلمان جب وہاں سے گذرنے لگے تو ان چھپے ہوئے تیراندازوں نے مسلمانوں پرشدیدتیراندازی شروع کردی ،مسلمان اس اچانک اوربالکل ہی غیرمتوقع حملے کی وجہ سے افراتفری کاشکارہوگئے…اچانک تیروں کی بارش،نامعلوم اورانتہائی تنگ وتاریک پہاڑی راستے…لہٰذاابتداء میں مسلمانوں کو بڑی پریشانی کاسامناکرناپڑا،ان کی صفوں میں نظم وضبط برقرارنہ رہا،آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ بھی برقرارنہ رہ سکا…اوریوں وہ سب ایک دوسرے سے بے خبر ان انجان اورگمنام راستوں میں اِدھراُدھربکھرگئے…مزیدیہ کہ اتنے بڑے پیمانے پر افراتفری اوربھاگ دوڑ کی وجہ سے گردوغبارکاایساطوفان اٹھاکہ دن میں رات کاگمان ہونے لگا،یہ چیزمزیدسراسیمگی وبدحواسی کاسبب بنی… ایسے میں جب رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ محض گنتی کے چندافرادہی رہ گئے تھے…ان میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے،جنہوں نے اس موقع پرآپؐ کی حفاظت وحمایت کی خاطربے مثال جرأت اوربڑی استقامت کامظاہرہ کیا،مزیدیہ ان کی آوازقدرتی طور پرچونکہ کافی بلندتھی ،لہٰذااس موقع پروہ بارباربآوازِبلندپکارتے رہے کہ’’مسلمانو!دیکھو رسول اللہ ﷺ یہاں ہیں …لہٰذاسب یہاں چلے آؤ‘‘ان کی اس پکارکی وجہ سے مسلمان دوبارہ وہاں یکجا ہوئے ، اپنی صفوں کومنظم کیا،اورپھرایسازوردارحملہ کیاکہ دشمن کے پاؤں اکھڑگئے… غرضیکہ اس نازک ترین موقع پرحضرت عباس رضی اللہ عنہ کی یہ استقامت جہاں مسلمانوں کیلئے بڑی خیروخوبی کاسبب بنی…وہیں اس سے ان کے اخلاص ٗنیزرسول اللہ ﷺ کے ساتھ ان کی بے مثال محبت اورجذبۂ وفاء کی بھی خوب عکاسی ہوتی ہے… اورپھرغزوۂ حنین کے فوری بعدپیش آنے والے غزوۂ طائف کے موقع پر ٗ نیز ۹ھ؁میں تاریخی غزوۂ تبوک کے موقع پرحضرت عباسؓ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ موجود تھے ۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے قبولِ اسلام کے بعدرسول اللہ ﷺ ان کی بہت زیادہ عزت کیاکرتے تھے ،اورفرمایاکرتے تھے: ھٰذا عَمّي و صِنوُ أبي (۱) یعنی’’یہ میرے چچاہیں اورمیرے لئے والدکی مانندہیں ‘‘۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ بہت ہی سخی اورفیاض قسم کے انسان تھے، قبولِ اسلام کے بعد اس سخاوت وفیاضی میں مزیداضافہ ہوگیاتھا،فقراء ومساکین کی بہت زیادہ مددواعانت کیاکرتے تھے،رسول اللہ ﷺ ان کے بارے میں فرمایاکرتے تھے: ھٰذا العَبّاس عَمُّ نَبِیِّکُم ، أجْوَدُ قُریشٍ کَفّاً ، وأوْصَلُھا (۲) یعنی’’یہ عباس ہیں ، تمہارے نبی کے چچا تمام قبیلۂ قریش میں سب سے زیادہ سخی ٗاورسب سے بڑھ کرصلہ رحمی کرنے والے انسان ‘‘ ، غرضیکہ حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے قبولِ اسلام کے بعدرسول اللہ ﷺ ہمیشہ ان کے ساتھ بہت ہی عزت واحترام سے پیش آتے رہے ،اوریوں آپؐ کامبارک دورگذرگیا۔
Top