حضرت جعفربن ابی طالب رضی اللہ عنہ - حضرت جعفربن ابی طالب رضی اللہ عنہ
حضرت جعفربن ابی طالب رضی اللہ کاتعلق مکہ شہرمیں قبیلۂ قریش کے مشہورومعززترین خاندان’’بنوہاشم‘‘سے تھا،ان کی شکل وصورت میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بہت زیادہ مشابہت پائی جاتی تھی(۱)یہی وجہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ انہیں مخاطب کرکے فرمایاکرتے تھے: أشْبَھْتَ خَلْقِي وَ خُلُقِي(۲) یعنی’’آپ شکل وصورت میں بھی ٗ نیزاخلاق وعادات میں بھی میرے مشابہ ہیں ‘‘ حضرت جعفررضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے مشفق ومہربان چچاٗخاندانِ بنوہاشم کے سردارٗ اورمتولیِٔ کعبہ ٗ یعنی جناب ابوطالب کے بیٹے تھے،آپ ﷺ کی عمرمبارک آٹھ برس تھی جب آپؐ کے دادامحترم عبدالمطلب کاانتقال ہوگیاتھا،تب داداکی وصیت کے مطابق آپؐ ابوطالب کی کفالت میں آگئے تھے(۳) ابوطالب کے چاربیٹے تھے،طالب ٗ عقیل ٗ جعفر ٗ اورعلی ٗ حضرت جعفرؓحضرت علیؓ سے دس سال بڑے تھے،ظہورِاسلام کے وقت حضرت علی ؓدس سال کے تھے،جبکہ حضرت جعفرؓکی عمر اُس وقت بیس سال تھی۔ حضرت جعفررضی اللہ عنہ جب بڑے ہوئے توان کی شادی مشہورصحابیہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہاسے ہوئی(۱) رسول اللہ ﷺ کے اعلانِ نبوت کے فوری بعدیہ دونوں میاں بیوی مسلمان ہوگئے تھے ٗ لہٰذایہ دونوں ’’السابقین الأولین‘‘یعنی بھلائی میں سبھی لوگوں پرسبقت لے جانے والے ان عظیم ترین افرادمیں سے تھے جنہوں نے بالکل ابتدائی دورمیں دینِ اسلام قبول کیا تھاکہ جب مسلمانوں کیلئے بہت ہی مظلومیت اوربے بسی وبے چارگی کازمانہ چل رہاتھا…یہی وجہ ہے کہ ان حضرات کابڑامقام ومرتبہ ہے ،ان کیلئے عظیم خوشخبریاں ہیں ۔ قبولِ اسلام کے بعدتکالیف ٗ مصائب وآلام ٗاورآزمائشوں کادورشروع ہوا…دینِ اسلام کے اسی ابتدائی دورمیں جب مشرکینِ مکہ کی طرف سے ایذاء رسانیوں کاسلسلہ عروج پر تھا ، تب نبوت کے پانچویں سال رسول اللہ ﷺ کے مشورے پر بہت سے مسلمان مکہ سے ملکِ حبشہ کی جانب ہجرت کرگئے تھے،انہی مہاجرینِ حبشہ میں یہ دونوں میاں بیوی بھی شامل تھے۔ مشرکینِ مکہ کوجب ان مظلوم ومجبورمسلمانوں کی مکہ سے خفیہ روانگی اورپھرحبشہ پہنچنے کی خبرملی توانہیں یہ بات بہت ناگوارگذری اورانہوں نے طیش میں آکراپناایک وفدحبشہ کی جانب روانہ کیاٗتاکہ یہ وفدحبشہ پہنچ کروہاں کے بادشاہ ’’نجاشی ‘‘سے ملاقات کرے،اوراسے ان مسلمانوں کے خلاف ورغلانے کے بعداس بات پرآمادہ کرے کہ وہ ان مسلمانوں کودوبارہ ان (مشرکینِ مکہ)کے حوالے کردے۔ آخراس منصوبے کے تحت مشرکینِ مکہ کاایک وفدملکِ حبشہ جاپہنچا، اوربادشاہ سے ملاقات سے قبل اس کے درباریوں اورمشیروں سے متعددملاقاتیں کیں ،ان کے ساتھ تعارف اوردوستی کے رشتے استوارکئے،اورپھربطورِرشوت قیمتی تحائف اورنذرانے بھی پیش کئے ، یوں شاہی دربارمیں پیش ہونے اوروہاں اپنی آمدکامقصدبیان کرنے سے قبل ہی ان مکاروں اورشاطروں نے بادشاہ کے ان وزیروں اورمشیروں کواپنی مٹھی میں کرلیا…!! آخرایک روزشاہی دربارمیں پیش ہوئے ، وہاں بھی بھاری نذرانے اورقیمتی تحائف پیش کرنے کے بعداپنامدعیٰ بیان کرتے ہوئے یوں گویاہوئے: ’’اے بادشاہ!ہمارے شہرکے چندسرپھرے اورفتنہ پردازقسم کے لوگ اپنے آبائی دین سے برگشتہ ہوکرآپ کے ملک میں آبسے ہیں ،اے بادشاہ !اگرانہوں نے اپنے آباء واجداد کا دین چھوڑکرآپ کادین ہی اپنالیاہوتاتب بھی غنیمت تھا… مگرانہوں نے توایک ایساعجیب وغریب نیادین ایجادکرلیاہے جسے سمجھنے سے ہم اورآپ دونوں ہی قاصرہیں … اے بادشاہ!جس طرح انہوں نے ہمارے شہرمکہ میں فتنہ پھیلایاہے ٗ یقینااسی طرح اب یہ آپ کے ملک میں بھی فتنہ اورخرابی ہی پھیلائیں گے،لہٰذاہمارے بزرگوں اوردانشمندوں نے ہمیں آپ کی خدمت میں بھیجاہے ، تاکہ آپ انہیں ہمارے حوالے کردیں … اورہم انہیں اپنے ہمراہ واپس مکہ لے جاسکیں …‘‘ بادشاہ نے ان کی یہ بات سننے کے بعداپنے درباریوں اورمشیروں کی جانب استفہامیہ اندازمیں دیکھا، گویاوہ ان کی رائے جانناچاہتاہو… اورتب… رشوت بول اٹھی…سبھی درباریوں نے پرزوراندازمیں مشرکینِ مکہ کی تائیداوران کے مطالبے کی حمایت کی ، اوراپنے بادشاہ کومسلمانوں کی طرف سے مزیدبددل کرنے کیلئے تاکیدی اندازمیں کہاکہ جواپنے آباؤاجدادکے دین کے ساتھ غداری کرسکتے ہیں …ان سے خیرکی کیاتوقع کی جاسکتی ہے…؟ مشرکینِ مکہ اورپھران کے بعداپنے ان درباریوں کی گفتگوسننے کے بعدبادشاہ نے کہا: ’’انصاف کاتقاضایہ ہے کہ پہلے ان مسلمانوں کی بات بھی سن لی جائے ٗاوراس کے بعدان کے بارے میں کوئی فیصلہ صادرکیاجائے‘‘۔ چنانچہ مسلمانوں کووہاں دربارمیں طلب کیاگیا،بادشاہ نے ان سے دریافت کیا: ’’یہ کون سا دین ہے کہ جس کی خاطرتم نے اپنے آباؤاجدادکے دین کوچھوڑدیاہے…اورپھریہ کہ ہمارا دین بھی نہیں اپنایا…؟‘‘ بادشاہ کی طرف سے اس سوال کے جواب میں ان حضرات صحابۂ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین)میں سے حضرت جعفربن ابی طالبؓ کھڑے ہوئے اوریوں سلسلۂ گفتگوکاآغازکیا: ’’أیّھَا المَلِک! کُنّا قَوماً أھلَ جَاھِلِیّۃ ، نَعبُدُ الأصنَام ، وَ نَأتِي الفَوَاحِش ، وَ نَأکُلُ المَیتَۃ ، وَ نَقطَعُ الأرحَام ، وَ نُسِيئُ الجِوَار ، وَ یَأکُلُ القَوِيُّ مِنّا الضّعِیف ، فَکُنّا عَلیٰ ذلِکَ ، حَتّیٰ بَعَثَ اللّہُ اِلَینَا رَسُولاً مِنّا ، نَعْرِفُ نَسَبَہُ وَ صِدْقَہُ وَ أمَانَتَہٗ وَ عِفَافَہٗ ، فَدَعَانَا اِلیٰ اللّہِ لِنُوَحِّدَہٗ وَ نَعبُدَہٗ ، وَنَخلَعَ مَا کُنّا نَعبُدُ نَحنُ وَ آبَاؤنَا مِن دُونِہٖ مِنَ الحِجَارَۃِ وَالأوثَان … وَأمَرَنَا بِصِدقِ الحَدِیث ، وَأدَائِ الأمَانَۃ ، وَصِلَۃِ الرّحِم ، وَحُسْنِ الجِوَارِ، وَالکَفِّ عَنِ المَحَارِمِ وَ الدِّمَاء ، وَنَھَانَا عَنِ الفَوَاحِشِ،وَقَولِ الزّور، وَأکلِ مَالِ الیَتِیم ، وَ قَذْفِ المُحصَنَات … فَصَدّقنَاہُ وَ آمَنّا بِہٖ … فَعَدَا عَلَینَا قَومُنَا ، فَعَذّبُونَا ، وَ فَتَنُونَا عَن دِینِنَا ، لِیَرُدُّونَا اِلیٰ عِبَادَۃِ الأوثَانِ مِن دُونِ اللّہ… فَلَمّا قَھَرُونَا ، وَ ظَلَمُونَا ، وَ حَالُوا بَینَنَا وَ بَینَ دِینِنَا ، خَرَجنَا اِلیٰ بِلَادکَ ، وَ اختَرنَاکَ عَلیٰ مَن سِوَاکَ ، وَ رَغِبنَا فِي جِوَارِکَ ، وَ رَجَونَا أن لَا نُظلَمَ عِندَکَ أیُّھَا المَلِک‘‘ ۔ ترجمہ:’’اے بادشاہ ! ہم جاہل تھے،ہم بتوں کی پوجاکیاکرتے تھے،بدکاری کیاکرتے تھے،ہم مردارکھاتے تھے،پڑوسیوں کے ساتھ براسلوک کیاکرتے تھے،ہم میں سے جو طاقتورتھاوہ کمزورکوکھاجاتاتھا،ہم اسی کیفیت میں زندگی بسرکررہے تھے کہ اس دوران اللہ نے ہم میں سے ایک ایسی ہستی کونبی بناکرہماری جانب مبعوث فرمایاکہ جس کے حسب نسب ٗ نجابت وشرافت ٗ امانت ودیانت ٗنیزاس کی پاکیزہ زندگی سے ہم سب خوب واقف تھے،اس نے ہمیں ایک اللہ کی عبادت کی طرف دعوت دی،اوراللہ کے سواجن بتوں کی ہم اورہمارے باپ داداپوجاکرتے چلے آرہے تھے … ان کی پوجاسے بازرہنے کی تاکید کی، اس نے ہمیں راست بازی ٗامانت داری ٗ صلہ رحمی ٗ اورپڑوسیوں کے ساتھ حسنِ سلوک کا سبق سکھایا،خونریزی ٗبے حیائی ٗ دروغ گوئی ٗ یتیموں کامال ہڑپ کرجانے ٗ اورپاکدامن عورتوں پربہتان لگانے سے ہمیں منع کیا،پس ہم نے اس کی تصدیق کی اوراس پرایمان قبول کیا،جس پرہماری قوم ہمارے درپے آزارہوگئی،ہمیں ہرطرح ستایا ٗ پریشان کیا ٗ اور ہمیں اپنے دین سے برگشتہ کرنے کی ہرممکن کوشش کی، جب ان کاظلم وستم حدسے تجاوز کرگیاتواے بادشاہ ہم نے اپنے وطنِ عزیزکوخیربادکہا،اورپناہ کی تلاش میں ہم آپ کے ملک میں چلے آئے ،یہ امیدلئے ہوئے کہ یہاں ہمارے ساتھ انصاف کیاجائے گا،اوریہ کہ یہاں ہمارے ساتھ کوئی ظلم وزیادتی نہیں ہوگی…‘‘۔ یہ تھااس نبیٔؐ اُمّی کے مکتب کافیض… کہ ایک صحرانشیں … جس نے دنیاکی کسی درسگاہ میں کوئی تعلیم حاصل نہیں کی… جس کے پاس کوئی ڈگری نہیں … جسے دنیاکے کسی شاہی دربارمیں جانے کاکبھی اتفاق ہی نہیں ہوا… شاہی درباروں کے آداب سے یکسر ناواقف ، سفارتی آداب سے مکمل بے خبر… مگربادشاہ کے دریافت کرنے پرجوجواب دیا… وہ کس قدر جامع ٗپُرمغز ٗ مدلل ٗاوراثرانگیزتھا… یقینایہ معلّمِ انسانیت رسول اکرم ﷺ کی پاکیزہ تربیت ہی کافیضان تھا…!! اس کے بعد نجاشی نے حضرت جعفررضی اللہ عنہ سے کہا’’تمہارے نبی کی جانب اللہ کی طرف سے جوکلام نازل کیاگیاہے ٗکیااس میں سے کچھ تم مجھے سناسکتے ہو؟ اس پرحضرت جعفرؓنے سورۂ مریم کی ابتدائی چندآیات تلاوت کیں ، جنہیں سن کرنجاشی زاروقطاررونے لگا، اس کی آنکھوں سے آنسورواں ہوگئے جواس کے رخساروں پربہنے لگے… تب بے اختیار وہ بول اٹھا : اِنّ ھٰذا وَالّذي جَائَ بِہٖ عِیسَیٰ لَیَخرُجُ مِن مِشکَاۃٍ وَاحِدَۃٍ یعنی’’بیشک یہ کلام اوروہ کلام جوکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام لائے ہیں ٗ دونوں ایک ہی چراغ سے نکلے ہوئے نورہیں ‘‘۔ نجاشی حضرت جعفرؓکی تقریرسے اورپھران کی زبانی سورۂ مریم کی تلاوت سے اس قدر متأثر ہواکہ اس نے ان مسلمانوں کومشرکینِ مکہ کے حوالے کرنے سے صاف انکارکردیا اور مشرکینِ مکہ کے وفدکومخاطب کرتے ہوئے یوں کہا ’’اللہ نے مجھے یہ سلطنت رشوت لے کر عنایت نہیں کی … پھرمیں کسی سے رشوت کیوں لوں …؟‘‘اورپھراس نے مشرکینِ مکہ کے اس وفدکوواپس لوٹ جانے کاحکم دیا۔ چنانچہ یہ تمام مسلمان اس کے بعدبدستورحبشہ میں ہی رہے،اورپھرنبوت کے تیرہویں سال جب ہجرتِ مدینہ کے نتیجے میں رسول اللہ ﷺ ودیگرتمام مسلمان مستقل طورپرمدینہ منتقل ہوگئے تب یہ مہاجرینِ حبشہ بھی رفتہ رفتہ وہاں سے مدینہ پہنچ گئے۔البتہ حبشہ میں قیام کے دوران ایک بارکسی نے یہ غلط خبراڑادی کہ تمام مشرکینِ مکہ اسلام قبول کرچکے ہیں ، جس پر متعدد حضرات (جن میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نیزان کی اہلیہ حضرت رقیہؓ بنت رسول ﷺ بھی شامل تھیں ) حبشہ سے مکہ واپس آگئے،لیکن یہاں آنے کے بعدمعلوم ہوا کہ یہ اطلاع غلط تھی ،چنانچہ یہاں پہنچنے کے بعدانہیں ازسرِنومشرکینِ مکہ کی طرف سے اذیتوں اورمصیبتوں کاسامناکرناپڑا… اورپھرجب ہجرتِ مدینہ کاحکم نازل ہواتب ان حضرات نے دوبارہ ہجرت کی،یعنی پہلے مکہ سے حبشہ کی جانب ،اورپھر مکہ سے مدینہ کی جانب ۔ جبکہ دیگربہت سے مسلمان بدستوروہاں حبشہ میں ہی مقیم رہے،جن میں حضرت جعفررضی اللہ عنہ بھی شامل تھے،اورپھرجب انہیں ہجرتِ مدینہ کے بارے میں اطلاع ملی تب یہ حضرات آہستہ آہستہ وہاں سے مدینہ کی جانب منتقل ہوگئے۔حضرت جعفرؓ اپنے اہل وعیال سمیت کچھ عرصہ مزیدوہیں حبشہ میں ہی رہے،آخر ۷ھ؁میں یہ وہاں سے مستقل نقل مکانی کرنے کے بعدمدینہ کی جانب عازمِ سفرہوئے اورطویل مسافت طے کرتے ہوئے مدینہ آ پہنچے۔ اتفاق سے یہ انہی دنوں کی بات ہے کہ جب’’فتحِ خیبر‘‘کے اہم ترین اورتاریخی واقعے کے فوری بعد رسول اللہ ﷺ کی اپنے جاں نثارساتھیوں کے ہمراہ خیبرسے مدینہ واپسی ہوئی تھی، نہایت صبرآزمااوراعصاب شکن قسم کی جنگ کے بعدوہاں خیبرمیں مسلمانوں کوبڑی فتح نصیب ہوئی تھی،اس یادگارفتح کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نیزآپؐ کے جاں نثارساتھی انتہائی مسروروشاداں تھے… عین انہی دنوں رسول اللہ ﷺ کے یہ چچازادبھائی حضرت جعفربن ابی طالب رضی اللہ عنہ بمع اہل وعیال حبشہ سے سفرکرتے ہوئے مدینہ پہنچے…توآپ ﷺ گویاخوشی سے جھوم جھوم اٹھے…آپ ﷺ نے حضرت جعفررضی اللہ عنہ کانہایت گرمجوشی کے ساتھ اورانتہائی والہانہ اندازمیں استقبال کیا،اس موقع پرآپؐ بارباریہ کلمات دہراتے رہے: مَا أدرِي بِأیِّھِمَا أنَا أشَدُّ فَرَحاً…أبِقُدُومِ جَعْفَر…أم بِفَتحِ خَیْبَر؟ یعنی’’مجھے نہیں معلوم کہ جعفرکی آمدکی وجہ سے میں زیادہ خوش ہوں …یافتحِ خیبرکی وجہ سے؟‘‘ آپؐ اورحضرت جعفرؓ کے دلوں میں باہم ایک دوسرے کیلئے جو محبت وقربت تھی ،اورجوتعلقِ خاطرتھا…اسے سمجھنے اورجاننے کیلئے اس موقع پر آپؐ کی زبان مبارک سے اداشدہ یہ کلمات بہت کافی ہیں ۔ نبوت کاپانچواں سال چل رہاتھاجب حضرت جعفربن ابی طالب رضی اللہ عنہ دیگرمسلمانوں کے ہمراہ مکہ سے ہجرت کرکے حبشہ کی جانب روانہ ہوئے تھے،اورپھرنبوت کے چودہویں سال ہجرتِ مدینہ کاواقعہ پیش آیاتھا،اوراب ۷ھ؁ میں حضرت جعفرؓ کی حبشہ سے مدینہ آمد ہوئی تھی…یعنی رسول اللہ ﷺ نیزمدینہ میں موجوددیگرمسلمانوں کے ساتھ حضرت جعفرؓکی تقریباً پندرہ یاسولہ سال کی مسلسل اورطویل جدائی کے بعداب یہ ملاقات ہوئی تھی۔یہی وجہ تھی کہ جس طرح حضرت جعفرؓ اوران کے اہل وعیال اس ملاقات پرانتہائی شاداں وفرحان تھے …بعینہٖ اسی طرح خودرسول اللہ ﷺ نیزدیگرتمام مسلمان بھی اس موقع پربہت زیادہ مسرور تھے۔ بالخصوص مدینہ میں مسلمانوں میں سے جوفقراء ومساکین تھے،وہ حضرت جعفررضی اللہ عنہ کی آمدکی وجہ سے بہت زیادہ خوش تھے،کیونکہ ان کی مدینہ آمدکے فوری بعدہی سبھی نے ان کے اس مزاج کوجان لیاکہ یہ توبہت ہی سخی ٗ فیاض ٗ مہمان نواز ٗاورمہربان قسم کے انسان ہیں ، محتاجوں اورضرورتمندوں کی مددواعانت کے معاملے میں خوب دریادلی سے کام لیاکرتے ہیں …چنانچہ ان کی اسی بے مثال خوبی کی وجہ سے اُن دنوں مدینہ میں وہ ’’أبوالمساکین‘‘ یعنی ’’غریب پرور‘‘کے لقب سے معروف ہوگئے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرمایاکرتے تھے: کَانَ أخْیَرَ النّاسِ لِلمسکِینِ جَعفَرُبن أبِي طَالب ، کَانَ یَنقَلِبُ بِنَا فَیُطعِمَنَا مَا کَانَ فِي بَیتِہٖ ، حَتّیٰ اِن کَانَ لَیُخرِجُ اِلَینَا العُکَّۃ الّتِي لَیسَ فِیھَا شَیٔ ، فَنَشُقُّھَا ، فَنَلْعَقُ مَا فِیھَا…(۱) یعنی’’ہم مساکین کیلئے توجعفربن ابی طالب بہت ہی اچھے انسان ثابت ہوئے تھے،وہ ہمیں اپنے گھرلے جایاکرتے ،جوکچھ کھانا میسرہوتا وہ ہمیں کھلایاکرتے،یہاں تک کہ جب کھاناختم ہوجاتاتووہ چمڑے کی خالی تھیلی لاکرہمارے حوالے کردیاکرتے[ جس میں گھی رکھاجاتاتھا]،ہم اس تھیلی کوپھاڑدیاکرتے ،اورتب اس کی دیواروں میں لگاہواگھی بھی ہم چاٹ لیاکرتے تھے…‘‘ یہ تھے وہ جذبات واحساسات…اوریہ تھاوہ خوشی کاسماں جوحضرت جعفربن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی مدینہ آمدکی وجہ سے وہاں چہارسودکھائی دیاکرتاتھا… لیکن…یہ خوشی دیرپانہ رہ سکی…خوشی کاسلسلہ بہت ہی مختصرثابت ہوا…حضرت جعفرؓ کی حبشہ سے مدینہ آمد ۷ھ؁میں ہوئی تھی ،اس کے فوری بعدمحض اگلے ہی سال ۸ھ؁ کے اوائل میں ’’غزوۂ مؤتہ‘‘کاعجیب وغریب واقعہ پیش آگیا… اس واقعے کاپس منظرکچھ اس طرح تھاکہ ۵ھ؁میں مسلمانوں اورمشرکینِ مکہ کے مابین ’’صلحِ حدیبیہ ‘‘کے نام سے جومشہورتاریخی معاہدہ طے پایاتھا،اس کے نتیجے میں رسول اللہ ﷺ اورتمام مسلمانوں کومشرکینِ مکہ کی جانب سے جب قدرے بے فکری نصیب ہوئی تھی، تب اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ ﷺ نے دعوتِ اسلام کے اس مبارک سلسلے کومزیدوسعت دینے کافیصلہ فرمایاتھا،اسی سلسلے میں ان دنوں مختلف فرمانرواؤں ٗ حکمرانوں ٗ امراء وسلاطین ٗ اوروالیانِ ریاست کوخطوط ارسال کئے گئے تھے ٗجن میں انہیں دینِ برحق قبول کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔ اسی سلسلے میں ’’بُصریٰ‘‘(۱)کے فرمانرواکے نام رسول اللہ ﷺ کی طرف سے تحریرفرمودہ نامۂ مبارک لئے ہوئے حارث بن عمیرالأزدی رضی اللہ عنہ جب مدینہ سے بُصریٰ کی جانب محوِسفرتھے …تب راستے میں ملکِ شام کی حدودمیں ’’بلقاء‘‘نامی ریاست (جوکہ سلطنتِ روم کے تابع تھی) کے فرمانروا شرحبیل الغسانی نے انہیں روکا،تشددکانشانہ بنایا،اورپھرانتہائی سنگدلی وسفاکی کامظاہرہ کرتے ہوئے ان کے ہاتھ پاؤں رسیوں سے جکڑنے کے بعدانہیں قتل کرڈالا… رسول اللہ ﷺ کوجب اس افسوسناک واقعے کی اطلاع ملی توآپؐ انتہائی رنجیدہ وافسردہ ہوگئے،کیونکہ کسی نہتے اوربے قصورانسان کو…بالخصوص غیرملکی قاصداورسفارتی نمائندے کویوں ناحق قتل کرڈالنا یقینابہت ہی بڑاجرم تھا، مزیدیہ کہ یہ سفارتی آداب کی سنگین خلاف ورزی بھی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ انتہائی افسوسناک بلکہ المناک واقعہ پیش آنے پریہ فیصلہ فرمایاکہ اب رومیوں کے خلاف تادیبی کارروائی ضروری ہوچکی ہے،چنانچہ تین ہزارافرادپرمشتمل ایک لشکرسلطنتِ روم کی جانب روانہ کیاگیا۔آپؐ نے اس لشکرکاسپہ سالاراپنے جلیل القدر صحابی ٗ زمانۂ قبل ازبعثت میں اپنے منہ بولے بیٹے ٗ اوراپنے آزادکردہ غلام حضرت زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ کومقررفرمایا،اوریہ وصیت فرمائی کہ زیدکے بعدسپہ سالاری کے فرائض جعفربن ابی طالب انجام دیں گے،اوران کے بعدعبداللہ بن رواحہ (جوکہ انصارِمدینہ میں سے تھے)انجام دیں گے،اوران کے بعدتم باہم مشاورت کے بعدکسی کواپناسپہ سالارمنتخب کرلینا(گویارسول اللہ ﷺ کومن جانب اللہ خبردے دی گئی تھی کہ اس موقع پریہ تینوں حضرات یکے بعددیگرے شہیدہوجائیں گے…)(۱) اورپھریہ لشکرحضرت زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ کی زیرِقیادت مدینہ منورہ سے سوئے منزل رواں دواں ہوگیا… طویل مسافت طے کرنے کے بعدجب یہ مبارک لشکرجزیرۃ العرب اورسلطنتِ روم کے مابین سرحدی علاقے میں پہنچاتووہاں ’’مؤتہ‘‘نامی مقام پر(جوکہ رفتہ رفتہ تقسیم درتقسیم کے سلسلوں کے بعداب موجودہ ’’اُردن‘‘میں واقع ہے)جو صورتِ حال نظرآئی وہ نہایت خلافِ توقع اورانتہائی پریشان کُن تھی،کیونکہ وہاں منظرکچھ ایساتھاکہ سامنے رومیوں کی ایک لاکھ فوج مقابلے کیلئے موجودتھی،مزیدیہ کہ اس سرحدی علاقے میں آبادبہت سے عرب قبائل (غسان وغیرہ) جوکہ دینی ٗ معاشی ٗ وسیاسی طورپرسلطنتِ روم ہی کے تابع تھے ٗ ان کے ایک لاکھ جنگجوبھی یہاں رومی فوج کے شانہ بشانہ موجودتھے…یعنی صورتِ حال یہ بنی کہ ایک طرف مسلمان محض تین ہزار…جبکہ دوسری جانب ان کے بالمقابل دولاکھ مسلح اورچاق وچوبندجنگجؤوں پرمشتمل بہت بڑالشکرِجرار… اس خلافِ توقع صورتِ حال کی وجہ سے مسلمان کچھ ترددکاشکارہوگئے ، دوروزتک باہم مشاورت کاسلسلہ چلتارہا،کسی نے کہا’’ہمیں اب مزیدپیش قدمی کی بجائے یہیں رک کر رسول اللہ ﷺ کواس صورتِ حال سے مطلع کرناچاہئے اور آپؐ کی طرف سے اس بارے میں کسی فیصلے کاانتظارکرناچاہئے‘‘کسی نے کہا’’ہمیں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں یہ پیغام بھیجناچاہئے کہ مزیددستے ارسال کئے جائیں ‘‘اسی دوران حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے فیصلہ کن اندازمیں مشورہ دیتے ہوئے کہا’’ہمارے لئے ناکامی کاکوئی سوال ہی نہیں ہے،ہمارے سامنے تودونوں ہی صورتوں میں کامیابی ہی کامیابی ہے… یاشہادت… یافتح…لہٰذااس تمامترترددکی کیاضرورت ہے؟‘‘ چنانچہ سبھی نے اس مشورے کوقبول کیا،اوراس پرعمل کرتے ہوئے دشمن کی جانب پیش قدمی شروع کی…فریقین میں کوئی توازن ہی نہیں تھا…ایک طرف فقط تین ہزارمسلمان ، اوروہ بھی گھرسے بے گھر،وطن سے بہت دور،یہاں دشمن کی سرزمین پر…جبکہ دوسری جانب دولاکھ جنگجو…خوداپنی ہی سرزمین پراوراپنے ہی علاقے میں …مگراس کے باوجوددونوں جانب سے نہایت زورداریلغارہوئی…زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ نہایت بے جگری کے ساتھ لڑتے ہوئے شہیدہوگئے…تب رسول اللہ ﷺ کے حکم کے مطابق حضرت جعفربن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے قیادت سنبھالی،بے مثال شجاعت وبہادری کامظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کی صفوں کوچیرتے ہوئے دوراندرتک چلے گئے…آخرایک موقع ایساآیاکہ وہ اپنے گھوڑے سے نیچے اترآئے،اورپیدل ہی مسلسل مردانہ وارلڑتے رہے، حتیٰ کہ اس دوران ان کاایک بازوکٹ کرجسم سے الگ ہوگیا…پھردوسرابازوبھی کٹ کرالگ ہوگیا…لیکن اس کے باوجود آخری سانس تک مسلسل ثابت قدم رہے … اورپھر…بالآخر…اللہ کے دین کی سربلندی کی خاطرلڑتے ہوئے وہاں ’’مؤتہ‘‘کے میدان میں شہید ہوگئے…(۱) بوقتِ شہادت ان کی عمراکتالیس سال تھی۔ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماجوکہ غزوۂ مؤتہ کے موقع پراسلامی لشکرمیں موجودتھے، فرماتے ہیں کہ شہداء کے درمیان ہم نے جعفرکوتلاش کیا،اورجب وہ ملے توکیفیت یہ نظرآئی کہ … وَجَدنَا فِي جَسَدِہٖ بِضعاً وتِسْعِینَ مِن طَعْنَۃٍ وَرَمْیَۃٍ یعنی’’ہمیں ان کے جسم پرتلواروں ٗ نیزوں ٗ اورتیروں کے نوے سے زائدزخم نظرآئے‘‘(۲) اُدھرمدینہ میں (لشکرکی واپسی سے قبل) جب ان تینوں (حضرت زیدبن حارثہ ، حضرت جعفربن ابی طالب ، حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم اجمعین)کی شہادت کی خبرپہنچی تورسول اللہ ﷺ تعزیت کی غرض سے ان تینوں کے گھرتشریف لے گئے،اس موقع پرجب آپ ؐ حضرت جعفررضی اللہ عنہ کے گھرپہنچے توجوصورتِ حال پیش آئی اس کے بارے میں حضرت جعفرؓ کی اہلیہ محترمہ حضرت اسماء بنت عمیس ؓ فرماتی ہیں : ’’مجھے اطلاع ملی تھی کہ لشکرکی کسی بھی وقت مدینہ کی طرف واپسی متوقع ہے،لہٰذامیں جعفرکے استقبال کیلئے تیاریوں میں مشغول تھی،ایک روزمیں گھرمیں صفائی ستھرائی کررہی تھی کہ اس دوران غیرمتوقع طورپررسول اللہ ﷺ ہمارے گھرتشریف لائے،اُس وقت آپؐ کے چہرے پرانتہائی غم اوراداسی کے آثارتھے، جس کی وجہ سے میں بہت زیادہ سہم گئی اوربڑی پریشانی کاشکارہوگئی،لیکن میں نے اس خوف کی وجہ سے آپؐ سے کچھ پوچھانہیں کہ کہیں ایسانہوکہ میرے پوچھنے پر آپؐ مجھے جعفرکے بارے میں کوئی ایسی خبرسنادیں جسے سننے کی مجھ میں ہمت اورسکت ہی نہو…آپؐ اسی طرح کچھ دیرخاموش بیٹھے رہے… اورپھرآپؐ نے میری طرف متوجہ ہوتے ہوئے فرمایا’’اسماء…جعفرکے بچوں کوذرہ میرے پاس لاؤ‘‘میں نے بچوں کوآوازدی،تب سبھی بچے نہایت ہنسی خوشی دوڑتے ہوئے چلے آئے، خوب ہنستے مسکراتے ہوئے اورمعصوم پرندوں کی طرح چہچہاتے ہوئے آپؐ سے لپٹنے لگے،ہرکوئی آپؐ کی گودمیں بیٹھنے کیلئے مچلنے لگا…رسول اللہ ﷺ نے ان بچوں کوپیارکیا،شفقت سے ان کے سرپرہاتھ پھیرا،اورپھرآپؐ کی آنکھوں سے زاروقطار آنسو بہنے لگے…آپؐ جوابتک صبرکاپہاڑبنے ہوئے تھے،اب آپؐ کے صبرکاپیمانہ لبریزہونے لگا،درداورغم کاوہ طوفان جوآپؐ کے دل میں برپاتھا…اب وہ آنکھوں کے راستے چھلکنے لگا…تب میں بہت زیادہ خوفزدہ ہوگئی…مجھ پرشدیدلرزہ طاری ہوگیا…آخرمیں نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا: یَا رَسُولَ اللّہ، بِأبِي أنتَ وَأُمِّي، مَا یُبْکِیکَ؟ أبَلَغَکَ عَن جَعْفَر وَصَاحِبَیہِ شیٔ؟ یعنی’’اے اللہ کے رسول،آپ پرمیرے ماں باپ قربان،آپ کیوں رورہے ہیں ؟کیا آپ کوجعفراوران کے دونوں ساتھیوں (یعنی زیدبن حارثہ اورعبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہما)کے بارے میں کوئی خبرموصول ہوئی ہے؟‘‘آپؐ نے جواب میں فرمایا: نَعَم، لَقَد اُستُشھِدُوا… یعنی’’ہاں ، وہ شہیدہوچکے ہیں …‘‘ بس اتنا کہنے کے بعدآپؐ اپنی جگہ سے اٹھے،اوراپنی آنکھوں سے آنسوصاف کرتے ہوئے، چپ چاپ ، بوجھل قدموں کے ساتھ واپس روانہ ہوگئے…‘‘ یہ ہے اس عظیم انسان کی پاکیزہ داستان…وہ عظیم انسان جس کے تصورسے ہی دل اس کیلئے عقیدت ومحبت کے جذبات سے لبریزہونے لگتاہے…وہ عظیم انسان جس کانام سرفروشوں کی داستان میں ہمیشہ نمایاں رہے گا…اوروہ نام ہے’’جعفربن ابی طالب ‘‘ رضی اللہ عنہ۔(۱) اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں ان کے درجات بلندفرمائیں ۔
Top