حضرت صُہیب بن سِنان رومی رضی اللہ عنہ - حضرت صُہیب بن سِنان رومی رضی اللہ عنہ
رسول اللہ ﷺ کے جلیل القدرصحابی حضرت صہیب بن سنان رومی رضی اللہ عنہ کے والدین کاتعلق دراصل ملکِ یمن سے تھا،اُس زمانے میں ملکِ یمن روئے زمین کی عظیم قوت ’’سلطنتِ فارس‘‘کے تابع تھا،حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ کی پیدائش سے قبل (زمانۂ قبل ازاسلام میں ) ان کاباپ سِنان بن مالک النُمیری سلطنتِ فارس کی طرف سے ملکِ یمن میں کسی بڑے سرکاری عہدے پرفائزتھا،سرکاری ملازم کی حیثیت سے وقتاًفوقتاً اس کاتبادلہ مختلف مقامات کی جانب ہوتارہتاتھا۔اسی طرح ایک بارسلطنتِ فارس کے بادشاہ کسریٰ نے’’اَلاُبُلّہ‘‘نامی ایک مقام کے گورنرکی حیثیت سے اس کی تقرری کی،اوراسے وہاں پہنچنے کی ہدایت کی،یہ مقام موجودہ شہر’’موصل‘‘ (عراق کامشہورشہرجوکہ ترکی کی سرحدسے متصل ہے،جہاں کُردباشندوں کی اکثریت ہے)کے قرب وجوارمیں کہیں واقع تھا ۔ چنانچہ اس حکم کی تعمیل میں سنان بن مالک النُمیری اپنی بیوی سلمیٰ سمیت وہاں منتقل ہوگیا، اوراس علاقے کے گورنرکی حیثیت سے نئی زندگی کاآغازکیا،اوریوں اس نئے مقام پرزندگی کاسفررواں دواں ہوگیا۔ کچھ ہی عرصہ گذراتھاکہ ان دونوں کے یہاں ایک بیٹے کی پیدائش ہوئی ،جس کانام انہوں نے ’’صہیب‘‘رکھا،گذرتے ہوئے وقت کے ساتھ …وہاں اس شاہی محل میں بہت ہی نازونِعَم اورشاہی شان وشوکت سے بھرپوراس ماحول میں اس بچے کی پرورش ہوتی رہی، گورنرکالاڈلابیٹااورنورِنظرہونے کے علاوہ مزیدخاص بات یہ کہ یہ بچہ خوبصورت بھی بہت تھا، کھِلاہواچہرہ ٗ بھورے بال ٗ آنکھوں سے جھانکتی ہوئی ذہانت وفطانت ٗ رفتار وگفتار سے جھلکتی ہوئی خاندانی شرافت ونجابت…کچھ ایسی کیفیت لئے ہوئے یہ بچہ پروان چڑھ رہاتھا… یہ علاقہ اُس دورمیں روئے زمین کی دوعظیم ترین قوتوں یعنی ’’سلطنتِ فارس‘‘اور’’سلطنتِ روم‘‘کے مابین سرحدی علاقہ تصورکیاجاتاتھا،یعنی اگرچہ یہ سلطنتِ فارس کاحصہ تھا،لیکن سلطنتِ روم کی سرحدسے بالکل متصل تھا،یہی وجہ تھی کہ یہاں اکثردونوں سلطنتوں کے سرحدی فوجی دستوں کے مابین آئے دن جھڑپوں کاسلسلہ چلتارہتاتھا۔ ایک روزاس بچے ’’صہیب‘‘کی ماں ’’سلمیٰ‘‘اپنی چندسہیلیوں ٗاورخدم وحشم ٗ نیزسرکاری محافظوں کے ایک دستے کی معیت میں اپنے اس لختِ جگرکوہمراہ لئے ہوئے سیروتفریح کی غرض سے اپنے شاہی محل سے قریب ہی کسی تفریحی مقام پرگئی،اتفاقاًعین اس وقت سرحدکے اُس پارسے رومی فوج کاایک دستہ گُھس آیا،سلمیٰ کے محافظوں اوران رومیوں کے مابین جھڑپ ہوئی،جس کے دوران رومیوں نے ان کابہت سامال واسباب اورزیورات لوٹے،سرکاری محافظوں میں سے کچھ کوقتل کیا،اوردیگرکچھ کوقیدی بناکراپنے ہمراہ ہنکالے گئے…انہی قیدیوں میں یہ کم سن بچہ ’’صہیب‘‘بھی شامل تھا،اس بچے کی ماں بس دیکھتے ہی رہ گئی،اوراس کے بعدکبھی زندگی بھرملاقات نہوسکی… اس کے بعداس بچے کودیگرقیدیوں کی طرح وہاں سلطنتِ روم میں ’’غلاموں کی خریدو فروخت‘‘کے بازارمیں فروخت کردیاگیا،جہاں یہ بچہ مرورِزمانہ کے ساتھ مسلسل ایک آقا سے دوسرے آقاکے ہاتھ بکتابکاتارہا…سالہاسال تک غلامی کی اس زنجیرمیں جکڑاہوا ، چپ چاپ…مختلف آقاؤں کی خدمت بجالاتارہا… یہ وہ زمانہ تھاجب ’’سلطنتِ روم‘‘کاسورج پوری آب وتاب کے ساتھ چمک رہاتھا، رومیوں کی قسمت انتہائی عروج پرتھی،ہرطرف خوشحالی کااورمال ودولت کاسیلاب تھا، حدِنگاہ تک دلفریب نظارے تھے،چہارسوبڑے بڑے محلات تھے،خوبصورت حویلیاں تھیں … ہرمحل میں …ہرحویلی میں …غلاموں ٗ خادموں ٗ اورکنیزوں کافوج درفوج ایک بہت بڑاسلسلہ آباد تھا… اس بچے نے اس ماحول میں ٗ ان حویلیوں میں ٗ لڑکپن اورپھرنوجوانی کازمانہ گذارا،اوراس معاشرے کی ظاہری خوبصورتی کے پیچھے پوشیدہ جواصل بھیانک چہرہ تھا،ظاہری چمک دمک کے پیچھے جن اندھیروں نے بسیراڈال رکھاتھا،ظاہری شرافت کے پیچھے عیاری ومکاری اورظلم وستم کاجوبازارگرم تھا،ظاہری مسکراہٹوں کے پیچھے قلب وجگرکو جھلسادینے والاآہوں اورسسکیوں کاجوایک لامتناہی سلسلہ تھا…یہ سب کچھ اس نوجوان نے وہاں حقیقت کی دنیامیں کھلی آنکھوں کے ساتھ نہایت قریب سے دیکھا… یہ نوجوان یعنی ’’صہیب‘‘بہت کم سنی سے ہی اس معاشرے میں رہنے کی وجہ سے اپنی اصل زبان یعنی ’’عربی‘‘کافی حدتک بھولتاچلاگیا،اوراس کی جگہ خودبخود’’رومی‘‘زبان اوراس رومی معاشرے کے طورطریقے اس کی زندگی کاحصہ بنتے چلے گئے،البتہ ان ظاہری تبدیلیوں کے باوجودلمحہ بھرکیلئے بھی یہ بات اس کے ذہن سے نکل نہیں سکی کہ وہ دراصل ایک عرب ہے…صحرانشین…اس کے دل میں ہمہ وقت اس غلامی سے نجات کا ٗ اورپھراپنے وطن اورہموطنوں سے جاملنے کاشوق اورجذبہ تازہ رہتاتھا… ایک روزیہ نوجوان ’’صہیب‘‘اپنے آقاکے ہمراہ کسی تقریب میں شریک تھا،وہاں اس نے کسی ’’کاہن‘‘کی گفتگوسنی جویوں کہہ رہاتھا’’بیشک اب وہ وقت آپہنچاہے کہ کسی بھی روز جزیرۃ العرب کے شہرمکہ میں آخری نبی کے ظہورکی خبرآجائے …جوکہ عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کی تصدیق کریں گے،لوگوں کوجہالت کے اندھیروں سے نکال کرہدایت کی روشنی کی طرف لے جائیں گے‘‘۔ اس کاہن کی زبانی یہ بات سن کریہ نوجوان انتہائی حیرت زدہ رہ گیا،نیزیہ کہ اس حیرت کے ساتھ ساتھ اب اس کے دل میں اپنے وطن کیلئے شوق ٗ نیزاس رومی معاشرے سے نجات کی تمنامزیدتقویت پکڑنے لگی،اوراب وہ ہمیشہ اس کوشش میں رہنے لگاکہ کسی طرح یہاں سے نکلنے کاکوئی موقع ہاتھ آجائے… آخرایک روزاسے وہاں سے بھاگ نکلنے کا موقع مل ہی گیا،اورتب یہ نوجوان ملکِ شام سے مسلسل سفرکرتاہوا…بہت طویل مسافت طے کرنے کے بعدمکہ جاپہنچا…کیونکہ اُس زمانے میں شہرمکہ ہی عربوں کااصل گڑھ اورمرکزی علاقہ تصورکیاجاتاتھا…اس سے بھی بڑھ کریہ کہ اس راہب نے نبیٔ آخرالزمان( ﷺ )کاتذکرہ کرتے ہوئے یہی کہاتھاکہ ان کاظہوراب کسی بھی وقت ’’مکہ‘‘میں متوقع ہے۔ یہ نوجوان ’’صہیب‘‘جب مکہ پہنچا توکیفیت یہ تھی کہ اس کی عربی زبان کافی شکستہ اور کمزور تھی،لہٰذا ابتداء میں یہ رومی زبان ہی بولاکرتاتھا،نیزیہ کہ اس کے بال بھی بھورے تھے، رنگت کافی صاف تھی،شکل وشباہت اوروضع قطع میں رومیوں کے ساتھ بہت زیادہ مشابہت تھی … لہٰذامکہ میں سبھی لوگ اسے ’’صہیب رومی‘‘کے نام سے پکارنے لگے تھے۔ مکہ میں وقت گذرتارہا…مختلف لوگوں کے ساتھ تعارف اورمیل جول کے بعدآخرمکہ میں ’’عبداللہ بن جُدعان‘‘نامی ایک معروف شخصیت اوربڑے مشہورتاجرسے تعارف ہوا، جوکہ اس نوجوان کی شخصیت اورصلاحیت وقابلیت سے کافی متأثرہوا،اورپھراس نے اپنے تجارتی معاملات کی دیکھ بھال کی غرض سے اس نوجوان کواپنے پاس ملازم رکھ لیا،جس کے بعدوہ اس نوجوان یعنی صہیب رومی کی ذہنی استعداد اورفہم وفراست سے مسلسل متأثر ہوتا چلا گیا،اس سے بھی بڑھ کریہ کہ صہیب کی امانت ودیانت کودیکھ کراس کادل باغ باغ ہوجایا کرتاتھا…تب اس نے صہیب کوطے شدہ تنخواہ کے علاوہ مزیدکمیشن کی بھی پیشکش کی ، تاکہ یوں یہ نوجوان طے شدہ کام کے علاوہ الگ سے بھی اس کی تجارت کے فروغ کیلئے جدوجہدکرتارہے…صہیب نے اس پیشکش کوقبول کرتے ہوئے مزیدہمت اوردلجمعی کے ساتھ کام شروع کردیا…جس کانتیجہ بہت جلدیہ ظاہرہواکہ اس شخص کی تجارت کافی وسیع ہوتی چلی گئی ،اوراس کے ساتھ ہی مسلسل کمیشن ملنے کی وجہ سے’’ صہیب رومی‘‘ نامی یہ نوجوان بھی کافی خوشحال اورمال دارہوتاچلاگیا… لیکن کسبِ معاش کی خاطران تمامترمصروفیات اوربڑے پیمانے پرتجارتی سرگرمیوں کے باوجوداس نوجوان کے دل کی گہرائیوں میں ابتک کاہن کے وہی الفاظ پیوست تھے… اور اس کے کانوں میں وہی الفاظ ہمہ وقت گونجتے رہتے تھے کہ’’آخری نبی کاظہورمکہ میں کسی بھی وقت متوقع ہے‘‘ اورتب …وہ اس سوچ میں پڑجاتاکہ نہ جانے کب وہ خوشخبری ملے گی…؟ شب وروزکی تجارتی مصروفیات اورکاروباری معاملات کے باوجودیہی سوال ذہن میں گردش کرتارہتاتھا…کہ ’’نہ جانے کب…؟‘‘ اورآخرجلدہی اس نوجوان کواپنے اس سوال کاجواب بھی مل گیا…ایک بارجب تجارتی سفرپریہ نوجوان مکہ سے باہرکہیں گیاہواتھا،اورپھرچندروزبعدجب اس سفرسے واپسی ہوئی تومکہ شہرمیں داخل ہوتے ہی اپنے کسی آشناسے ملاقات ہوئی ،اِدھراُدھرکی گفتگوکے بعداس نے یہ خبرسنائی کہ’’ محمدبن عبداللہ ( ﷺ )نے نبوت کا دعویٰ کیاہے ،اوریہ کہ لوگوں کووہ صرف اللہ کی عبادت کی طرف دعوت دے رہے ہیں …‘‘تب صہیب نے اس شخص سے دریافت کیا:’’کیایہ وہی شخص نہیں جنہیں سبھی لوگ’’امین‘‘کے لقب سے پکاراکرتے ہیں ؟‘‘اس نے جواب دیا:’’ہاں ،یہ وہی شخص ہیں ‘‘ صہیب نے پوچھا’’ان سے ملاقات کہاں ہوسکے گی؟‘‘اس شخص نے جواب دیا’’صفاکے قریب دارالأرقم میں ‘‘۔ اورپھراس شخص نے جب یہ محسوس کیاکہ یہ نوجوان یعنی صہیب توگویارسول اللہ ﷺ سے ملاقات کاخواہشمندہے اوریہ ان کی تعلیمات میں شایددلچسپی رکھتاہے ٗ تب اس نے اسے تنبیہ کرتے ہوئے کہا’’خبردار!تمہیں کوئی وہاں جاتے ہوئے نہ دیکھ لے،ورنہ تمہارے ساتھ بہت براہوگا،کیونکہ تم پردیسی ہو،یہاں اس شہرمکہ میں تم اجنبی ہو،یہاں نہ تمہاری کوئی قوم ہے ،نہ قبیلہ ہے ،اورنہ برادری…لہٰذامشکل وقت میں کون تمہاراساتھ دے گا؟کون تمہاری حفاظت کرے گا؟‘‘ لیکن صہیب کاگوہرِمقصودتویہی تھا…منزل سامنے نظرآنے لگی تھی…البتہ یہ معاملہ انتہائی نازک اورخطرناک تھا…آخرہمت کرکے صہیب دارالأرقم کی طرف روانہ ہوگئے،تمام راستے اِدھراُدھردیکھتے ہوئے…پھونک پھونک کرقدم رکھتے ہوئے…رؤسائے قریش کی نگاہوں سے بچتے بچاتے… اسی کیفیت میں صہیب جب دارالأرقم کے قریب پہنچے تووہاں اپنے ایک دوست عماربن یاسر(رضی اللہ عنہ) (۱) سے ملاقات ہوگئی،رسمی گفتگوکے بعدکچھ دیردونوں خاموش رہے، پھر صہیب نے دریافت کیا’’عمار!تم یہاں کیاکررہے ہو؟‘‘ عمارنے جواب دیا’’پہلے تم بتاؤ،تم یہاں کیاکررہے ہو؟‘‘ صہیب نے ہمت کرکے کہا’’میں تواس لئے یہاں آیاہوں کہ یہاں اس گھرمیں موجود شخص (یعنی رسول اللہ ﷺ ) سے ملاقات کرسکوں اوران کی گفتگوسن سکوں ‘‘ تب عمارکے چہرے پرمسکراہٹ دوڑگئی…اوربیساختہ انہوں نے صہیب سے کہا ’’چلوآؤ، ہم ایک ساتھ ہی اندرچلتے ہیں ‘‘۔ تب یہ دونوں خوش نصیب دوست ایک ساتھ اندردداخل ہوئے ، رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضری کااورملاقات کاشرف نصیب ہوا،آپؐ کی مبارک اورپاکیزہ گفتگوسنی، اور تب فوراًہی ان دونوں کے دل ایمان کے نورسے منورہونے لگے،دل کی دنیامیں ایمان کی بہارآنے لگی… اورپھران دونوں نے اپنی زبان سے کلمۂ حق ’’ اشہدأن لاالٰہ الااللہ، واشہدأن محمداًرسول اللہ‘‘پڑھتے ہوئے ٗ دینِ اسلام قبول کیا،اوررسول اللہ ﷺ کے دستِ مبارک پربیعت کی۔ اس کے بعدان دونوں دوستوں نے وہ تمام دن وہاں کوہِ صفاکے قریب دارالأرقم میں رسول اللہ ﷺ کی صحبت ومعیت میں ہی گذارا،اورپھرغروبِ آفتاب کے بعدجب ہرطرف رات کا اندھیراچھاگیا…تب اس اندھیرے کافائدہ اٹھاتے ہوئے یہ دونوں چھپتے چھپاتے ان تاریک راستوں پرچل پڑے…وہ راستے تاریک تھے…البتہ اب ان کے دلوں میں ایمان کی ایسی شمع روشن ہوچکی تھی، جواس تمام کائنات کوروشن کردینے کیلئے بہت کافی تھی۔ اورپھرجب رؤسائے قریش کو اس پردیسی نوجوان ’’حضرت صہیب بن سنان رومی رضی اللہ عنہ‘‘کے قبولِ اسلام کی خبرہوئی توانہوں نے انہیں اس قدراذیتیں پہنچائیں اورایسے بدترین ظلم وستم کانشانہ بنایاکہ جس کے تصورسے ہی رونگٹے کھڑے ہوجائیں …دلوں پر لرزہ طاری ہوجائے… اسی کیفیت میں مکہ میں وقت گذرتارہا…آخررسول اللہ ﷺ کی بعثت کے بعدجب تیرہواں سال چل رہاتھا،تب ہجرتِ مدینہ کاحکم نازل ہوا،دیگرتمام اہلِ ایمان کی طرح حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ نے بھی ہجرت کاارادہ کیا…لیکن رؤسائے قریش نے انہیں سخت تنبیہ کی ،اورہجرت سے بازرہنے کاحکم دیا، باقاعدہ ان پرسخت پہرے بٹھادئیے گئے اورکڑی نگرانی شروع کردی گئی(کیونکہ ان رؤسائے قریش کی نظراس مال پرتھی جو حضرت صہیبؓ نے مکہ میں رہتے ہوئے اپنی محنت اورتجارت سے کمایاتھا) ۔ اب حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ کے شب وروزاسی اسیری میں بسرہونے لگے…رفتہ رفتہ تمام مسلمان …اورپھرخودرسول اللہ ﷺ بھی مکہ سے ہجرت کرگئے…جبکہ حضرت صہیبؓ اس دوران مسلسل کسی مناسب موقع کی آس میں رہے…متعددبارانہوں نے فرار کامنصوبہ بنایا…لیکن ہربارانہیں یہی اندازہ ہواکہ …ان پہریداروں کی چبھتی ہوئی نگاہوں …اوران کی چمکتی ہوئی تلواروں سے بچ کرنکلناممکن نہیں … آخرایک بارسخت سردی کے موسم میں ،جب خوب طوفانی جھکڑچل رہے تھے،رات کی سیاہی ہرطرف چھائی ہوئی تھی،ایسے میں حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ کوایک تدبیر سوجھی، انہوں نے پیٹ میں سخت درداورمروڑکابہانہ بنایا،اورپیٹ پرہاتھ رکھے ہوئے خوب تلملانے لگے…اورباربارقضائے حاجت کیلئے جانے لگے…ان کی یہ کیفیت دیکھ کروہ پہریدارآپس میں یوں کہنے لگے کہ’’دیکھوآج توہمارے خداؤں لات ٗمنات ٗ اورعُزّیٰ نے اس مسلمان کوکیاخوب سزادی ہے…بیچارے کاحال دیکھو…باربارقضائے حاجت کیلئے جارہاہے…‘‘ اورپھرباہم ایک دوسرے کومبارکباددیتے ہوئے خوب ہنسی خوشی یوں کہنے لگے’’مبارک ہو، آج کی یہ سردرات…خوب ٹھنڈاموسم…آج توہم خوب جی بھرکراوربے فکرہوکرمیٹھی نیندسے لطف اندوزہوں گے،کیونکہ آج تواس قیدی کے بھاگ نکلنے کاکوئی امکان ہی نہیں ،یہ توباربارحاجت کی تکلیف میں پھنساہواہے…‘‘ اورپھروہ سب سوگئے…دنیاومافیہاسے بے خبرنیندکی وادیوں میں کھوگئے… وہ رات انتہائی سردتھی ،تندوتیزطوفانی ہوائیں چل رہی تھیں ،تمام ماحول اورموسم بہت ہی بھیانک نظرآرہاتھا…لیکن اس کے باوجودحضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ نے موقع غنیمت جانا،اوردبے پاؤں وہاں سے بھاگ نکلے… کچھ ہی دیربعداتفاقاًان پہریداروں میں سے کسی کی آنکھ کھلی تواس نے ’’قیدی‘‘کوغائب پایا،فوراًہی اس نے اپنے باقی ساتھیوں کوگہری نیندسے جگایا،ان سب نے جب یہ منظردیکھاتوبہت ہی پشیمان ہوئے…لیکن پھرفوراًہی وہ تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے اوراپنے گھوڑے سرپٹ دوڑادئیے…چونکہ حضرت صہیبؓ پیدل تھے،اوریہ سب برق رفتارگھوڑوں پرسوار…لہٰذاجلدہی یہ اُن تک جاپہنچے… تب حضرت صہیب رومیؓ سرعت کے ساتھ ایک بلند ٹیلے پرجاچڑھے،اوران کی جانب اپنی تیرکمان سیدھی کرتے ہوئے بلندآوازمیں یوں بولے’’اے جماعتِ قریش !تم بخوبی جانتے ہوکہ میں تیراندازی میں کس قدرماہرہوں ،اوریہ کہ میرانشانہ کبھی چوکتانہیں ہے…لہٰذاجب تک میرے ترکش میں ایک تیربھی باقی رہے گا میں چن چن کرتم سب کونشانہ بناؤں گا…اس کے بعدجب تک میرے ہاتھ میں تلوارکاکوئی ٹوٹاپھوٹاٹکڑابھی باقی رہے گا …اُس وقت تک میں تمہارامقابلہ کروں گا…‘‘ تب وہ تعاقب میں آنے والے قدرے پریشان ہوگئے،اورکچھ دیرباہم سرگوشیوں میں مشغول رہنے کے بعدیوں کہنے لگے’’دیکھوصہیب!تم ہمارے شہرمکہ میں بالکل خالی ہاتھ آئے تھے،اس کے بعدہمارے شہرمیں رہتے ہوئے تم نے خوب دولت کمائی،اس لئے اب ہم تمہیں یہاں سے جانے نہیں دیں گے‘‘ اس پرحضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے جواب دیا’’اگرمیں اپناتمام مال ودولت تمہارے حوالے کردوں …تب تم مجھے جانے دوگے؟‘‘ وہ سب بیک زبان بولے’’ہاں …ضرورجانے دیں گے‘‘ تب حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ نے ان لالچی ٗ مال وزرکے پجاری ٗ ہوس اورحرص وطمع کے مارے ہوئے ان لوگوں کواپنی تمامترپونجی کے بارے میں آگاہ کیاکہ’’ وہ فلاں جگہ رکھی ہوئی ہے…جاؤ…وہاں سے لے لو…‘‘وہ لوگ چونکہ حضرت صہیبؓ کی راست بازی اورامانت ودیانت سے بخوبی واقف تھے ٗ لہٰذاان کی اس بات پرمکمل بھروسہ کرتے ہوئے وہ لوگ ہنسی خوشی وہاں سے واپس چلتے بنے کہ اصل چیزتومل گئی…اب انہیں روکنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہی۔ اورپھرحضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ سوئے منزل روانہ ہوگئے…یکہ وتنہا…کوئی ساتھی نہیں …کوئی ہمسفرنہیں …مکہ سے مدینہ تک اس قدرطویل سفر…وہ بھی پاپیادہ …کوئی سواری نہیں …منزل دوراورہمت چُور…جب کبھی بہت زیادہ تھک جاتے اور ہمت جواب دینے لگتی ٗتب رسول اللہ ﷺ کی یادستانے لگتی،آپؐ سے ملاقات ٗ آپؐ کا دیدار ٗ اورآپؐ کی خدمتِ اقدس میں حاضری کاشوق دل میں موجزن ہونے لگتا…اوریہ فکرستانے لگتی کہ کہیں ایسانہوکہ میں ہمت ہاربیٹھوں ٗاورپھرہمیشہ کیلئے آپؐ کی زیارت اور صحبت ومعیت سے بس محروم ہی رہ جاؤں …اورتب نیاولولہ پیداہوتا…نیاجوش اورنیا عزم بیدارہوتا…اورپھرنئی ہمت اورنئے جذبے کے ساتھ سوئے منزل رواں دواں ہوجاتے… آخریہ طویل مسافت پیدل طے کرنے کے بعدایک روزحضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ مدینہ شہرکی مضافاتی بستی’’قباء‘‘جاپہنچے ،حُسنِ اتفاق سے اُس وقت رسول اللہ ﷺ بھی اسی بستی میں ہی تشریف فرماتھے،جیسے ہی آپؐ کی نگاہ صہیبؓ پرپڑی …آپؐ انتہائی مسرت سے لبریزاوربہت ہی جذباتی اندازمیں صہیب کی جانب بڑھے،اُس وقت آپؐ کی زبان مبارک پریہ الفاظ تھے: لَقَد رَبِحَ البَیع…لَقَد رَبِحَ البَیع یعنی’’یہ شخص تواس سودے بازی میں بہت ہی کامیاب رہا…‘‘ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضری ٗاو رملاقات کے اس شرف کی وجہ سے حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ اُس وقت کچھ دیرکیلئے سبھی کچھ بھول گئے…اپنی اس تمامتر تھکاوٹ کابھی احساس نہیں رہا…اورپھرجب کچھ وقت گذرچکاتوعرض کیاکہ ’’اے اللہ کے رسول! میں نے ابتک اپنی اس سودے بازی کاکسی کے سامنے تذکرہ ہی نہیں کیا، پھر آپؐ کے اس ارشادکاکیامطلب…؟‘‘ آپؐ نے جواب میں ارشادفرمایا’’ابھی کچھ دیرقبل ہی آسمان سے جبریل امین یہ وحی لائے ہیں :{وَمِنَ النَّاسِ مَن یَشرِي نَفسَہُ ابتِغَائَ مَرضَاتِ اللّہِ وَاللّہُ رَؤُفٌ بِالعِبَادِ}(۱) ترجمہ(لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں کہ اللہ کی رضامندی کی طلب میں اپنی جان تک بیچ ڈالتے ہیں ، اوراللہ تواپنے بندوں پربڑی مہربانی کرنے والاہے)(۲) مدینہ پہنچنے کے بعدایک نئی اورخوشگوارزندگی کاآغازہوا،جہاں مشرکینِ مکہ نہیں تھے،ان کی طرف سے وہ ایذاء رسانیوں اوربدسلوکیوں کے سلسلے نہیں تھے،اس نئی اوربدلی ہوئی زندگی میں حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ ہمیشہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت ٗ صحبت ومعیت ٗ اورکسبِ فیض کے سلسلے میں پیش پیش رہے،نیزآپؐ کی حیاتِ طیبہ کے دوران جتنے بھی غزوات پیش آئے … اولین غزوہ یعنی ’’بدر‘‘سے آخری غزوہ یعنی’’تبوک‘‘تک ہمیشہ ہرغزوے کے موقع پرحضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ شریک رہے اوردینِ برحق کی سربلندی کی خاطربے مثال شجاعت وبہادری کامظاہرہ کرتے رہے،اسی کیفیت میں مدینہ منورہ میں وقت گذرتارہا…حتیٰ کہ رسول اللہ ﷺ کامبارک دور گذر گیا، آپؐ صہیب رومی رضی اللہ عنہ سے ہمیشہ تادمِ آخرانتہائی مسرورومطمئن رہے۔
Top