حضرت صُہیب بن سِنان رومی رضی اللہ عنہ - حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ عہدِنبوی کے بعد
حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ کورسول اللہ ﷺ کے مبارک دورمیں جوقدرومنزلت حاصل تھی ٗ حضرات خلفائے راشدین کے دورمیں بھی ان کی وہی حیثیت اورقدرومنزلت اس معاشرے میں برقراررہی۔ خلیفۂ دوم امیرالمؤمنین حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کی شخصیت میں فطری طورپرہی کافی رعب اوروقارتھا،لیکن اس کے باوجودوہ اکثرحضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہلکی پھلکی خوش مزاجی ٗ خوش طبعی ٗ ہنسی مذاق ٗ اورظرافتِ طبع کامظاہرہ کیاکرتے تھے، جس سے ان دونوں جلیل القدرشخصیات کی باہم محبتوں اورقربتوں کی عکاسی ہواکرتی تھی۔ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کی شخصیت میں مخصوص رعب اوروقارکے علاوہ یہ خوبی نمایاں تھی کہ وہ نظم وضبط کے انتہائی پابندتھے،فطری طورپرانہیں بڑی قائدانہ صلاحیتوں سے نوازاگیاتھا،یہی وجہ تھی کہ ان کے زمانۂ خلافت میں اسلامی فتوحات کاسلسلہ مشرق ومغرب میں چہارسوبہت زیادہ وسعت اختیارکرگیاتھا…ایسابے مثال سلسلہ جوکہ بجاطورپر: ’’تھمتانہ تھاکسی سے سَیلِ رواں ہمارا‘‘ کاجیتاجاگتامصداق تھا…یہی وجہ تھی کہ ان وسیع وعریض مفتوحہ علاقوں میں نظم وضبط برقراررکھنے اورانتظامی امورکومناسب طریقے سے چلانے کیلئے حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کوہمیشہ ہی محنتی ٗ قابل ٗ باصلاحیت ٗ اورذی استعدادقسم کے افرادکی تلاش رہتی تھی… حضرت صہیب بن سنان رومی رضی اللہ عنہ بہت ہی محنتی ٗاورقابل انسان تھے،سلطنتِ روم سے بالکل ہی خالی ہاتھ مکہ پہنچے تھے،جہاں وہ بڑی محنت وجان فشانی کے ساتھ تجارت میں مشغول ومنہمک ہوگئے تھے،اوربہت جلدآسودہ حال ہوگئے تھے،اس کے بعدمکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت کے موقع پرمکہ میں اپنی محنت اورخون پسینے کی وہ تمامترکمائی وہیں مشرکینِ مکہ کے حوالے کردی تھی،اور یوں مدینہ چلے آئے تھے…دوبارہ بالکل خالی ہاتھ اورمفلوک الحال…یہاں مدینہ میں اب انہوں نے ازسرِنومحنت کی ٗ تجارت ہی کو اپنا مشغلہ اوروسیلۂ روزگاربنایا…اوراس باربھی دیکھتے ہی دیکھتے کافی خوشحال اورمالدار ہوگئے …ظاہرہے کہ یہ چیزاللہ کی طرف سے توفیق اورفضل وکرم کے بعد ٗ ان کی لیاقت وقابلیت کی بڑی دلیل تھی…چنانچہ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ بھی ان کی اس خوبی ٗ محنت وجان فشانی ٗ امانت ودیانت ٗ اورلیاقت وقابلیت سے خوب واقف بھی تھے اور متأثر بھی تھے۔ حضرت صہیب بن سنان رومی رضی اللہ عنہ کے مزاج میں ایک خاص بات یہ تھی کہ جس طرح خوب محنت اورقابلیت کے ذریعے مال ودولت خوب کماتے تھے ٗ اسی طرح ضرورتمندوں اورمحتاجوں پرخوب سخاوت وفیاضی اوردریادلی کے ساتھ خرچ بھی بہت زیادہ کیاکرتے تھے،مہمان نوازبھی بہت تھے،یعنی جس قدرتیزرفتاری کے ساتھ ان کے پاس دولت آتی تھی ٗ اسی قدرتیزرفتاری کے ساتھ چلی بھی جاتی تھی،پیسہ ان کے ہاتھ میں ٹکتانہیں تھا، آنے جانے کایہ سلسلہ لگاہی رہتاتھا…اورحضرت عمرؓ ان کی اس کیفیت اوراس مزاج سے بھی خوب واقف تھے… لہٰذاحضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ اکثرانہیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایاکرتے تھے: ’’صہیب! میں اچھی طرح جانتاہوں کہ تم بہت ہی قابل انسان ہو…اس لئے میرابہت جی چاہتاہے کہ تمہاری اس قابلیت اورسمجھداری سے فائدہ اٹھایاجائے،میں کوئی اہم سرکاری عہدہ تمہیں سونپناچاہتاہوں …مگریہ جوتمہاری عادت ہے ناں …کہ تم پیسہ بہت اُڑاتے ہو … بس اسی سے میں ڈرتاہوں …‘‘ حضرت عمررضی اللہ عنہ کی یہ بات سن کرحضرت صہیب رضی اللہ عنہ بس مسکرادیتے… اور یوں جواب دیاکرتے: ’’آپ کی اس محبت کااوراس پیشکش کابہت شکریہ…لیکن مجھے کسی عہدے کی کوئی طلب ہی نہیں ہے…‘‘ اوراس کے ساتھ ہی وہ یہ وضاحت بھی کردیاکرتے کہ’’میں جوکچھ بھی مال ودولت خرچ کرتاہوں وہ واقعی ضرورتمندوں پرہی خرچ کرتاہوں ،کوئی فضول خرچی نہیں کرتا…مال ودولت ضائع نہیں کرتا…‘‘ لیکن حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کااپناایک نظریہ تھا،اورمخصوص زاویۂ نگاہ تھا… دراصل جس کسی کی ذمہ داری جس قدربڑی ہوتی ہے …اسی قدروہ محتاط بھی زیادہ ہواکرتاہے…ظاہرہے کہ امیرالمؤمنین اورخلیفۂ وقت ہونے کی حیثیت سے حضرت عمرؓ کی ذمہ داری بہت بڑی تھی…اس لئے ان کے اندازِفکرکامخصوص معیارتھا،بالخصوص بیت المال کے حوالے سے …شایدانہیں یہ اندیشہ تھاکہ اگرصہیب کوکوئی ذمہ داری سونپی گئی اور بڑامنصب ان کے حوالے کردیاگیا…توشایدیہ (خلوصِ نیت سے ہی سہی) اپنے مزاج کے مطابق دیکھتے ہی دیکھتے سبھی کچھ لٹادیں گے…اس لئے حضرت عمررضی اللہ عنہ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ کی خدادادصلاحیتوں سے اس قدرمتأثرہونے کے باوجود ٗ اوردونوں میں اتنی قربتوں اورمحبتوں کے باوجود…کوئی سرکاری عہدہ ان کے حوالے کرنے سے کتراتے تھے۔ البتہ اس کے باوجودحضرت عمرؓ ان کی قدرومنزلت سے خوب آگاہ تھے،اوران دونوں جلیل القدرشخصیات میں باہمی محبتوں اورعزت واحترام کارشتہ بہت ہی مضبوط تھا۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ جب ایک روزمسجدِنبوی میں نمازِفجرکی امامت کے دوران ابولولوفیروزنامی مجوسی غلام کی طرف سے قاتلانہ حملے کے نتیجے میں شدیدزخمی ہوگئے تھے…اورچاردن موت وزیست کی کشمکش میں مبتلارہنے کے بعدآخربتاریخ یکم محرم ۲۴ھ؁شہید ہوگئے تھے…اس موقع پرزخمی ہونے کے بعداورشہادت کے درمیان کے عرصہ میں خودحضرت عمرؓنے یہ خاص تاکیدفرمائی تھی کہ میرے بعدکوئی نیاخلیفۃ المسلمین منتخب ہونے تک صہیب نمازپڑھائیں …چنانچہ اس تاکیدکے مطابق اُن دنوں حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ مسجدِنبوی میں امامت کے فرائض انجام دیتے رہے… اورپھرحضرت عمرؓکی وصیت کے مطابق ان کی نمازِجنازہ بھی انہوں نے ہی پڑھائی۔ مدینہ میں وقت گذرتارہا…آتے جاتے موسموں کاسفرجاری رہا…حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ مرورِ زمانہ کے ساتھ کافی ضعیف اورعمررسیدہ ہوگئے…اورتب انہوں نے تمام کام کاج چھوڑکربس گوشہ نشینی اختیارکرلی ،اورصرف عبادت میں ہی تمام وقت گذارنے لگے… آخرخلیفۂ چہارم حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے دورِخلافت میں ۳۸ھ؁ میں ۷۲سال کی عمرمیں مدینہ میں ان کاانتقال ہوگیا…اوریوں رسول اللہ ﷺ کے یہ جلیل القدرصحابی حضرت صہیب بن سِنان رومی رضی اللہ عنہ اس جہانِ فانی سے کوچ کرتے ہوئے اپنے اللہ سے جاملے۔ مدینہ منورہ کے قبرستان ’’بقیع‘‘میں انہیں سپردِخاک کیاگیا۔ اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں ان کے درجات بلندفرمائیں ٗ اورہمیں وہاں اپنے حبیب ﷺ نیزتمام صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم أجمعین کی صحبت ومعیت سے نوازیں ۔
Top