حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ - حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ عہدِنبوی کے بعد
حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ بالکل نوعمری میں ہی قبولِ اسلام کے بعدسے ہمیشہ زندگی بھرتادمِ آخررسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضررہے، نہایت ذوق وشوق اورخوب اہتمام کے ساتھ تحصیلِ علمِ دین ٗ استفادہ ٗ اورکسبِ فیض میں ہردم اورہرلمحہ مشغول ومنہمک رہے…صحبت ومعیت کامبارک سلسلہ بدستورجاری رہا…اسی کیفیت میں مدینہ میں وقت گذرتارہا…حتیٰ کہ رسول اللہ ﷺ کامبارک دورگذرگیا،آپؐ ہمیشہ تادمِ آخران سے انتہائی خوش اورمسرور ومطمئن رہے۔ رسول اللہ ﷺ کامبارک دورگذرجانے کے بعدخلافتِ راشدہ کے زمانے میں بھی عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کی یہی حیثیت اورقدرومنزلت برقراررہی۔ خلیفۂ دوم حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت کے دوران مشرق ومغرب میں چہارسواسلامی فتوحات کاسلسلہ بہت وسعت اختیارکرچکاتھا،ایسے میں حضرت عمرؓ نے مفتوحہ علاقوں میں نئے شہربسانے کاحکم جاری کیا،چنانچہ اسی سلسلے میں انہی دنوں سن سترہ ہجری میں دریائے فرات کے کنارے ایک نیاشہر’’کوفہ‘‘بسایاگیا،جوکہ رفتہ رفتہ علمی ٗ ادبی ٗ ثقافتی ٗسیاسی ٗ وعسکری ٗ غرضیکہ ہرلحاظ سے بہت زیادہ اہمیت اختیارکرگیا۔ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کے مزاج میں یہ بات شامل تھی کہ وہ خداداد بصیرت ٗ فراست ٗ اوردوراندیشی کی وجہ سے اہم اورحساس قسم کے مناصب کیلئے ذمہ دارافرادکی تعیین وتقرری کے معاملہ میں ہمیشہ بہت زیادہ احتیاط اورباریک بینی سے کام لیاکرتے تھے۔ چنانچہ جب یہ نیاشہر(یعنی کوفہ)بسایاگیاتواس کے والی (گورنر ٗیافرمانروا)کے تقررکیلئے ان کی نظرِانتخاب حضرت عماربن یاسررضی اللہ عنہ پرپڑی،اورتب انہوں نے اس نئے آبادکردہ شہر(کوفہ)کے اولین فرمانرواکی حیثیت سے حضرت عماربن یاسررضی اللہ عنہ کی تقرری کی۔ جبکہ اسی موقع پرہی حضرت عمرؓنے اہالیانِ کوفہ کی دینی تعلیم وتربیت اوررہنمائی کی غرض سے حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کومنتخب فرمایا،ساتھ ہی انہیں یہ تاکیدبھی کہ وہ تعلیم وتربیت کے ساتھ ساتھ بوقتِ ضرورت انتظامی امورمیں حضرت عماربن یاسررضی اللہ عنہ کے ساتھ تعاون بھی کرتے رہیں ،مشاورت کے فرائض انجام دیتے رہیں …اورپھر ان دونوں انتہائی جلیل القدرشخصیات کو کوفہ پہنچنے کی تاکیدفرمائی۔ اس موقع پرحضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے اہالیانِ کوفہ کے نام ایک خط بھی تحریرفرمایا، جس کامضمون یہ تھا: اِنِّي أبْعَثُ اِلیکُم عَمّار بن یَاسِر أمِیراً ، و عَبدَاللّہ بن مَسْعُود مُعَلِّماً وَ وَزِیراً ، وَاِنّھُمَا مِنَ النُّجَبَائِ ، مِن أصْحَابِ الرّسُولِ ﷺ ، وَمِن أصْحَابِ بَدر ۔ یعنی’’میں تم لوگوں کی طرف عماربن یاسرکوتمہارے فرمانرواکی حیثیت سے ٗ جبکہ عبداللہ بن مسعودکوتمہارے لئے معلم ومربی ٗ نیزعماربن یاسرکیلئے وزیر ومددگارکی حیثیت سے بھیج رہاہوں ،یہ دونوں حضرات انتہائی شریف ونجیب قسم کے انسان ہیں ، رسول اللہ ﷺ کے صحابۂ کرام میں سے ہیں ٗ نیزیہ دونوں ’’غزوہ ٔبدر‘‘میں شرکت کرنے والے خوش نصیبوں میں سے ہیں ‘‘۔ تب یہ دونوں حضرات یعنی عماربن یاسراورعبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہمامدینہ سے کوفہ منتقل ہوگئے ،جہاں عماربن یاسررضی اللہ عنہ فرمانرواکی حیثیت سے ٗجبکہ عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ معلم و مدرس کی حیثیت اپنے اپنے فرائض کی انجام دہی میں مشغول ومنہمک ہوگئے۔
Top