حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ - وفات
حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے ’’کوفہ‘‘کے باشندوں کی دینی تعلیم وتربیت کی غرض سے کافی عرصہ وہاں گذارا،اورپھرخلیفۂ سوم حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں وہاں سے واپس مدینہ چلے آئے،جہاں رفتہ رفتہ عمرمیں اضافے کے ساتھ ان کی طبیعت ناسازرہنے لگی۔ انہی دنوں جب طبیعت کافی زیادہ ناسازہوچکی تھی اوربچنے کی امیدبظاہرکم تھی…تب ایک روزخلیفۂ وقت حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ان کی عیادت کیلئے آئے،اس موقع پران دونوں جلیل القدرحضرات کے مابین درجِ ذیل گفتگوہوئی: ٭…حضرت عثمانؓ: مَا تَشْکِي؟ یعنی’’اس وقت آپ کیاتکلیف محسوس کررہے ہیں ؟ ٭…حضرت عبداللہ بن مسعودؓ: ذُنُوبِيْ یعنی’’بس اپنے گناہوں کی وجہ سے میں پریشان ہوں ‘‘ ٭…حضرت عثمانؓ: فَمَا تَشتَھِي؟ یعنی’’توپھرآپ کیاچاہتے ہیں ؟ ٭…حضرت عبداللہ بن مسعودؓ: رَحمَۃَ رَبِّي یعنی’’اپنے رب کی رحمت‘‘ ٭…حضرت عثمانؓ: ألَاآمُرُ لَکَ بِعَطَائِکَ الّذِي امتَنَعْتَ عَن أخْذِہٖ مُنذُ سِنِیْن؟ یعنی’’کیامیں آپ کی وہ رقم آپ کی طرف بھجوادوں جوکہ سالوں سے آپ نے وصول نہیں کی ہے؟‘‘(یعنی حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کوفہ میں بطورِمدرس جوفرائض انجام دیاکرتے تھیٗ ان دنوں آخرمیں کافی عرصہ اس کیفیت میں گذراکہ انہوں نے سرکاری بیت المال سے اپناجائزوظیفہ وصول نہیں کیاتھا،مفت میں خدمات انجام دیتے رہے تھے،اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت عثمانؓ نے یہ پیشکش کی تھی) ٭…حضرت عبداللہ بن مسعودؓ: لَاحَاجَۃَ لِي بِہٖ یعنی’’مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ‘‘ ٭…حضرت عثمانؓ: یَکُونُ لِبَنَاتِکَ مِن بَعْدِکَ یعنی’’وہ رقم آپ کے بعدآپ کی بیٹیوں کے کام آئے گی (اس لئے آپ وہ رقم قبول کرلیجئے) ٭…حضرت عبداللہ بن مسعودؓ: لَاأخَافُ عَلَیھِنَّ الفَقْرَ ، لِأنِّي أمَرتُھُنَّ أن یَقرأنَ کُلَّ لَیلَۃٍ سُورَہَ الوَاقِعَۃ ، وَاِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللّہِ ﷺ یَقُول: ((مَن قَرَأ الوَاقِعَۃَ کُلَّ لَیلَۃٍ لَم تُصِبْہُ فَاقَۃٌ أبَداً)) (۱) یعنی’’مجھے اپنی بیٹیوں کے بارے میں فقروفاقے کاکوئی اندیشہ نہیں ہے ،کیونکہ میں نے انہیں یہ تاکیدکررکھی ہے کہ ہررات سورۃ الواقعہ ضرورپڑھ لیاکریں ،میں نے رسول اللہ ﷺ کویہ ارشادفرماتے ہوئے سناہے (جوکوئی ہررات سورۃ الواقعہ پڑھے ٗ وہ کبھی فقروفاقے کاشکارنہیں ہوگا)۔ ٭…اس واقعے سے یقیناحضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کابے مثال زہدواستغناء ظاہر ہوتا ہے کہ خلیفۂ وقت حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ خودچل کران کے پاس تشریف لائے اورباربارخودانہیں اس رقم کی پیشکش کی…لیکن جواب میں انہوں نے مسلسل معذرت کا اظہار کیا ۔ نیزاس سے ان کے دل میں موجودرسول اللہ ﷺ کے اس مذکورہ بالا ارشاد(بلکہ آپؐ کے تمام ارشادات وفرمودات) پرمکمل اورغیرمتزلزل یقین وایمان کااظہارہوتاہے …کیونکہ اسی یقین وایمان کی وجہ سے انہوں نے اس دنیاسے رخصت ہوتے وقت بالکل آخری دنوں میں اپنی صاحبزادیوں کواس چیز(یعنی ہررات سورۃ الواقعہ کی تلاوت)کی تاکید وتلقین فرمائی۔ مزیدیہ کہ اس طرح ہمیشہ کیلئے تمام مسلمانوں کوبھی فقروفاقہ اورتنگدستی سے حفاظت ونجات کیلئے یہ نافع ومفیدنسخۂ اکسیربتاگئے۔ اورپھررسول اللہ ﷺ کے یہ جلیل القدرصحابی حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ اس چند روزہ علالت کے بعدمدینہ منورہ میں ۳۲ھ؁میں تقریباًساٹھ سال کی عمرمیں اس دنیائے فانی سے کوچ کرتے ہوئے اپنے اللہ سے جاملے،تجہیزوتکفین کے موقع پرخلیفۂ وقت حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ پیش پیش رہے ،نمازِجنازہ بھی انہوں نے ہی پڑھائی ، اور پھر مدینہ کے قبرستان’’بقیع‘‘میں انہیں سپردِخاک کردیاگیا۔ اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں ان کے درجات بلندفرمائیں ٗ اورہمیں وہاں اپنے حبیب ﷺ نیزتمام صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم أجمعین کی صحبت ومعیت سے نوازیں ۔
Top