حضرت مُصعب بن عمیررضی اللہ عنہ - حضرت مُصعب بن عمیررضی اللہ عنہ
مکہ شہرمیں جب رسول اللہ ﷺ کی بعثت ہوئی اورشہرمکہ نورِنبوت سے جگمگانے لگاٗخالقِ ارض وسماء کی طرف سے اپنے حبیب ﷺ کوتمام دنیائے انسانیت کیلئے رہبرورہنما بنا کر بھیجا گیا … اُن دنوں شہرمکہ میں ایک نوجوان تھا،انتہائی حسین وجمیل،بہت ہی پُرکشش شخصیت کا مالک،بہت زیادہ نازونعم میں جس کی پرورش ہوئی تھی،اپنے ماں باپ کاوہ انتہائی لاڈلا اور پیاراتھا،تمام شہرمکہ میں سب سے زیادہ خوش لباس ٗخوش منظر ٗ سلیقہ مند ٗاورلائق وفائق تھا، ہمیشہ قیمتی ٗ جاذبِ نظر ٗ اوردیدہ زیب قسم کی پوشاک پہنتا،فرحت آمیزقسم کے عطربکثرت استعمال کرتا،اورہمہ وقت خوشبؤوں میں رچابسارہتا،جس گلی محلے سے گذرجاتا لوگوں کوپتہ چل جاتاکہ وہ نوجوان یہاں سے گذراہے…غرضیکہ نازونعم ٗنفاست ٗاور حسن وجمال میں تمام شہرمکہ میں وہ اپنی مثال آپ تھا… مزیدیہ کہ اس ظاہری خوبصورتی اورخوش پوشی کے ساتھ ساتھ سلیقہ وشعار ٗعقلمندی ٗ معاشرتی آداب واخلاق اوررکھ رکھاؤمیں بھی وہ یکہ وتنہاتھا،تمام شہرمکہ کے نوجوانوں میں کوئی اس کا ہم پلہ نہیں تھا،یہی وجہ تھی کہ نوجوانوں کی جتنی محفلیں سجتیں ٗان سب میں اس کی موجودگی کو ضروری سمجھاجاتا…اس نوجوان کانام تھا مُصعب بن عمیر۔ اُس معاشرے میں چونکہ فصاحت وبلاغت اورشعروشاعری کی بہت بڑی اہمیت تھی ، لہٰذانوجوانوں کی مختلف ادبی تنظیمیں بھی بکثرت وہاں موجودتھیں ،چونکہ شعروشاعری کے لحاظ سے بھی مصعب کادلکش اورمنفرداندازتھااس وجہ سے ادبی دنیااورشعروسخن کی محفلوں میں بھی اسے خاص مقام حاصل تھا،اوراسے ہرمحفل کی جان اورہرمجلس کی رونق تصور کیا جاتا تھا، اوریوں یہ نوجوان مصعب سبھی کی آنکھوں کاتارابناہواتھا… ٭…اُن دنوں چونکہ ہرمحفل میں رسول اللہ ﷺ کی شخصیت موضوعِ گفتگوبنی رہتی تھی ، بالخصوص اس حوالے سے کہ آپؐ پراللہ کی طرف سے جوپاکیزہ کلام نازل کیاجاتاتھا،آپؐ وہ کلامِ حق مکہ والوں کوسناتے ،اورانہیں دینِ برحق کی طرف دعوت دیتے،قریش کے بڑے بڑے شعراء واُدباء اپنی تمامترفصاحت وبلاغت کے باوجود…نیزرسول اللہ ﷺ کے خلاف اپنی تمامترنفرت اورعداوت کے باوجود…اس جیساکلام پیش کرنے سے عاجز وقاصرتھے،چنانچہ وہ رسول اللہ ﷺ کی زبانِ مبارک سے یہ کلامِ الٰہی سنتے اوربس منہ تکتے رہ جاتے…حیران وپریشان…اورانگشت بدندان… ٭…چونکہ ان دنوں ہرمحفل میں یہی بات موضوعِ گفتگوبنی رہتی تھی…جبکہ ایسی کوئی محفل تھی نہیں جہاں مصعب کی آمدورفت نہو…لہٰذایہ باتیں مصعب کے کانوں تک بھی پہنچیں …اورپھراسے دینِ برحق اورنبیِٔ برحق کے بارے میں علم ہواتو اسے اپنے قلب وجگرمیں رسول اللہ ﷺ کی مبارک شخصیت کیلئے بہت زیادہ کشش محسوس ہونے لگی،اوراب اس کے شب وروزاسی بے چینی میں گذرنے لگے کہ کاش کسی طرح نبیِٔ برحق ٗ پیغمبرِاسلام ٗ محسنِ انسانیت ٗ رسول اکرم ٗ صلیٰ اللہ علیہ وسلم ٗ کی خدمت میں حاضری کاشرف نصیب ہوسکے ،اوروہ اللہ عزوجل کی جانب سے ان کے قلبِ مبارک پرنازل شدہ وہ کلام براہِ راست خودانہی کی زبانی سن سکے۔ ٭…اُن دنوں رسول اللہ ﷺ بیت اللہ سے متصل ’’صفا‘‘پہاڑی کے دامن میں واقع ’’دارالأرقم‘‘نامی ایک مکان میں مقیم تھے،گنے چنے محض چندافرادجوکہ دعوتِ حق پرلبیک کہتے ہوئے مسلمان ہوچکے تھے،آپؐ انہیں وہاں خفیہ طورپردین کی تعلیم دیاکرتے تھے۔ نوجوان مصعب بہت بے چین رہتاکہ کاش کسی طرح اسے بھی وہاں تک رسائی نصیب ہوسکے…آخرایک روزخوب ہمت مجتمع کرکے سردارانِ قریش کی عقابی نگاہوں سے بچتابچاتایہ نوجوان وہاں جاپہنچا…رسول اللہ ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضری ہوئی، ملاقات کاشرف نصیب ہوا،بصدشوق اورنہایت ہی توجہ اوردلچسپی کے ساتھ آپؐ کی مبارک گفتگوسنی،جب بھی آپؐ کے ہونٹوں پرجنبش ہوتی اورآپؐ کے ان مبارک ہونٹوں سے کوئی لفظ ادا ہوتا…تب مصعب کویوں محسوس ہوتاکہ گویاکسی توقف کے بغیروہ لفظ فوری طورپرمصعب کے کانوں سے ہوتاہوادل کی گہرائیوں میں جاگزیں ہوجاتاہے… اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے نوجوان مصعب کادل ایمان کے نورسے منورہونے لگا…تب فوراً ہی کسی ترددکے بغیر مصعب نے اپنی زبان سے کلمۂ حق’’أشہدأن لاالٰہ الااللہ،وأشہدأن محمداًرسول اللہ‘‘پڑھا،اوردینِ برحق قبول کرلیا…عین اسی لمحے رسول اللہ ﷺ نے اپنا دایاں ہاتھ بڑھایااورمصعب کے سینے پررکھ دیا،اورجب آپؐ کے دستِ مبارک کایہ لمس مصعب نے اپنے سینے میں اورپھردل کی گہرائیوں میں محسوس کیاتواسے اپنے شعورووجدان میں ایک عجیب ساسکون محسوس ہوا،ایساسکون جوکہ اس سے قبل اپنی تمامترظاہری شان وشوکت ٗ عیش وعشرت ٗ راحت وآرام ٗاورہرقسم کی لذتوں سے بھرپورزندگی کے باوجوداسے کبھی نصیب نہیں ہوسکاتھا…آج سے قبل اس بے مثال اورانمول سکون کی لذت سے وہ ہمیشہ محروم اورناآشناہی رہاتھا…اوریوں یہ نوجوان مصعب اب رسول اللہ ﷺ کے جلیل القدرصحابی حضرت مصعب بن عمیررضی اللہ عنہ بن گئے…اوریہی وہ تاریخی لمحہ تھاجب مصعبؓ کے دل کی دنیاہمیشہ کیلئے بدل گئی،مصعب کے شب وروزبدل گئے،طورطریقے بدل گئے…اورسبھی اندازبدل گئے… ٭…یہ دینِ اسلام کے اُس ابتدائی دورکی بات ہے جب مکہ شہرمیں مسلمانوں پرظلم وستم ڈھانے والے بڑے بڑے ظالم وجابربڑی تعدادمیں موجودتھے،ایک سے ایک بڑھ کرجفاگراورستمگراُس معاشرے میں پایاجاتاتھا…اُن سب کاخوف اپنی جگہ…لیکن مصعب ؓ کے ساتھ عجیب معاملہ تھاکہ انہیں اپنے قبولِ اسلام کی وجہ سے ان تمام پہنچے ہوئے سرکشوں اورستمگروں سے بڑھ کرجس شخصیت کی طرف سے سب سے زیادہ خوف دامنگیر تھا اورجس کی وجہ سے انہیں سب سے زیادہ پریشانی لاحق تھی ٗوہ کوئی غیرنہیں ٗ بلکہ وہ خودان کی اپنی ماں تھی…جوکہ بہت زیادہ غصیلی اورانتہائی جھگڑالوقسم کی عورت تھی،مزیدیہ کہ وہ چونکہ بہت زیادہ مالداراورخوشحال بھی تھی ،لہٰذااس چیزنے اسے اورزیادہ مغرورٗ خودسر ٗاورضدی بنادیاتھا۔ چنانچہ مصعب ؓ نے غوروفکرکے بعدیہ فیصلہ کیاکہ فی الحال کچھ عرصہ تک اپنے قبولِ اسلام کے واقعہ کوصیغۂ رازمیں ہی رکھاجائے…لیکن یہ وہ زمانہ تھاکہ جب مکہ شہرمیں کسی رازکازیادہ عرصے تک چھپارہناممکن نہیں تھا،ہرگلی کوچے میں ٗ ہرمحلے میں ٗ ہرراستے پر ٗ اورہرقدم پررؤسائے قریش کے چھوڑے ہوئے کارندے دندناتے پھرتے تھے،اپنی عقابی نگاہوں کے ساتھ ہرایک کے تعاقب میں رہتے تھے،اورہرایک پرگہری نظررکھتے تھے کہ کہیں کوئی مسلمان تونہیں ہوگیا… چنانچہ مصعبؓ کے ساتھ بھی ایساہی ہوا…ان کے قبولِ اسلام کامعاملہ زیادہ عرصے تک رازنہ رہ سکا…ایک روزکسی نے انہیں خفیہ طورپر’’دارالأرقم‘‘میں داخل ہوتے ہوئے دیکھ لیا،اورپھرچندروزہی گذرے تھے کہ اسی شخص نے انہیں کسی جگہ رسول اللہ ﷺ کی طرح نمازپڑھتے دیکھا…تب اس سے صبرنہوسکا،اوراس نے یہ رازکی بات مصعب ؓ کی ماں کے گوش گذارکردی۔ اورتب مصعبؓ کی دنیابدل گئی…وہ تمامترنعمتیں ،راحت وآرام کاوہ تمامترانتظام،نازونعم سے بھرپوروہ زندگی…یہ سب کچھ اب خواب وخیال ہوکررہ گیا…سبھی کچھ چھن گیا… ماں نے بہت کوشش کی ،کبھی نرمی سے ،اورکبھی سختی سے…کہ اس کالاڈلابیٹااس نئے دین سے برگشتہ ہوجائے…وہ بہت گرجتی اوربرستی رہی…شعلے اگلتے رہی…لیکن مصعبؓ کی عزیمت واستقامت کے سامنے اس کاوہ جاہ وجلال ٗوہ غصہ اوروہ اشتعال…اوروہ ڈرانے دھمکانے کاسلسلہ…سب بیکارثابت ہوا…آخرتنگ آکراس نے اپنے چند رشتے داروں کی مددسے مصعبؓ کوپکڑکرزبردستی گھرمیں نسبۃًایک الگ تھلگ کمرے میں قیدکردیا،یوں گھرکے اس حصے کواب گویامصعبؓ کیلئے ’’قیدخانے‘‘کے طورپرمخصوص کر دیا گیا۔ اب مصعبؓ کے شب وروزاسی ’’قیدِتنہائی ‘‘میں بسرہونے لگے،آمدورفت ٗگھومناپھرنا ٗ یہ تمام سلسلے اب بندہوئے،تمامترراحتیں اورنعمتیں خواب وخیال ہوگئیں …اورسب سے بڑھ کریہ کہ اب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضری کااورستفادے کاوہ مبارک سلسلہ بھی منقطع ہوگیا،یہ ان دنوں کی بات ہے جب نبوت کاپانچواں سال چل رہاتھا… گھرکے ایک کونے میں واقع الگ تھلگ اس چھوٹی سی کوٹھڑی میں وقت کاسفراسی طرح جاری تھاکہ…ایک روزکسی طرح مصعبؓ کویہ خبرملی کہ مشرکینِ مکہ کے مظالم سے بچنے کیلئے مسلمانوں کی ایک جماعت خفیہ طورپرملکِ حبشہ کی جانب ہجرت کرنے والی ہے…تب مصعبؓ نے اس قیدخانے کے اندررہتے ہوئے بڑی مشکل سے کسی طرح اُن مسلمانوں تک یہ پیغام پہنچایاکہ’’میں بھی تمہارے ہمراہ ملکِ حبشہ کی جانب ہجرت کرناچاہتاہوں ‘‘ تب یہ خفیہ پیغام رسانی کا ٗنیزاس خفیہ سفرکیلئے منصوبہ بندی کاسلسلہ آگے بڑھتارہا، اورمصعبؓ کی ماں کواس بارے میں کچھ خبرنہوسکی…بالآخرایک روزمصعبؓ اپنے گھرسے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگئے،اوران مسلمانوں سے جاملے،اورپھرانہی کے ہمراہ … اللہ کانام لے کر…مکہ سے بہت دور…ملکِ حبشہ کی جانب روانہ ہوگئے… ٭…ملکِ حبشہ میں قیام کے دوران کسی نے ان مسلمانوں کویہ خبردی کہ تمام مشرکینِ مکہ دینِ اسلام قبول کرچکے ہیں …جس پران مسلمانوں میں سے کچھ نے اب ملکِ حبشہ سے واپس اپنے وطن مکہ لوٹ جانے کافیصلہ کیا،جبکہ باقی کچھ نے کہاکہ جب تک باوثوق ذرائع سے اس خبرکی مکمل اورحتمی تصدیق نہوجائے ٗ اُس وقت تک محض سنی سنائی اس بات پربھروسہ کرتے ہوئے اتنابڑااقدام (یعنی واپس مکہ لوٹ جانا)مناسب نہیں ۔ چنانچہ جولوگ واپس مکہ چلے آئے…انہیں یہاں آمدکے بعدمعلوم ہواکہ یہ خبرسراسرغلط تھی…اوریوں یہ مسلمان اب ازسرِنوانہی مشرکینِ مکہ کے شکنجے میں آپھنسے کہ جن سے نجات کی خاطرانہوں نے یہاں سے ہجرت کی تھی…انہی مسلمانوں میں نوجوان مصعبؓ بھی شامل تھے۔ ٭…حبشہ سے واپسی پرمصعبؓ کی ماں نے انہیں دوبارہ اُسی طرح اس قیدخانے میں بندکرنے کی کوشش کی،اوراس مقصدکیلئے حسبِ سابق اپنے کچھ رشتے داروں سے مدد چاہی…لیکن اس بارمصعبؓ کوجب اس بات کاعلم ہواتواللہ کی قسم کھاکرکہاکہ’’جوکوئی اس ظلم میں میری ماں کاساتھ دے گا…مجھ سے جس طرح بھی بن پڑا…میں ضروراسے قتل کرڈالوں گا‘‘ مُصعَبؓ کی ماں کواس بات کابخوبی احساس تھاکہ مصعب اپنے قول کاکتناپکاہے ،جوکہتاہے کرگذرتاہے…جب ٹھان لیتاہے …توپھرکسی صورت پیچھے نہیں ہٹتا…تب یہ سوچ کر آخراس نے اپنے بیٹے مصعب کودوبارہ قیدکرنے کاارادہ ترک کردیا۔ ٭…البتہ اب مصعب کی طرف سے مایوس اورناامیدہوکرماں نے ہمیشہ کیلئے جدائی کا فیصلہ کرلیا…اورتب اس نے خوب روتے ہوئے مصعب کویوں کہا’’جاؤ…آج کے بعدہماراایک دوسرے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں …کوئی رشتہ نہیں …ہم دونوں ایک دوسرے کیلئے مرگئے…اب نہ میں تمہاری ماں ہوں …اورنہ ہی تم میرے بیٹے ہو…‘‘ ماں کی یہ کیفیت دیکھ کر…اوراس کی یہ باتیں سن کر…مصعب بھی رونے لگے… اور ماں کے قریب جاکرانتہائی ادب کے ساتھ اوربہت ہی پیاربھرے لہجے میں یوں کہا ’’ماں …!مجھے تم سے بہت ہمدردی ہے ،اس لئے دونوں جہانوں میں تمہاری بھلائی کیلئے میں چاہتاہوں کہ تم کلمۂ حق پڑھ لو…تم بھی میری طرح مسلمان ہوجاؤ…ماں …بس ایک باراپنی زبان سے کہہ دو:’’أشہدأن لاالٰہ الااللہ…وأشہدأن محمداًرسول اللہ‘‘۔ اُس دن مُصعَبؓ اپنی ماں کے سامنے بہت گڑگڑائے،بہت زیادہ منت سماجت اورآہ وزاری کرتے رہے…اس کااتنااثرتوہواکہ آج ماں نے جواب میں کوئی غصہ نہیں دکھایا،البتہ اپنامنہ دوسری طرف پھیرتے ہوئے کہا’’مجھے یہ بات گوارانہیں کہ لوگ تمہاری طرح مجھے بھی کم عقلی کاطعنہ دیاکریں …‘‘ اورتب نوجوان مصعب آنسوبہاتے ہوئے…بوجھل قدموں کے ساتھ وہاں سے چل دئیے…اورپھراس کے بعدکبھی زندگی بھر دوبارہ ماں سے ملاقات نہیں ہوسکی۔ ٭…اس کے بعدمکہ میں اسی کیفیت میں وقت گذرتارہا…وہی شہرمکہ اوروہی گلی کوچے جہاں کسی زمانے میں مصعبؓ جیساخوش لباس ٗشوخ اورچنچل نوجوان اورکوئی نہیں تھا،اب اسی شہرمکہ میں مصعبؓ جیساسیدھاسادھا ٗمعصوم ٗ روکھی سوکھی کھاکرگذاراکرنے والا،اور پھر بھی ہرحال میں صبروشکربجالانے والا…اورکوئی نہیں تھا… ٭…انہی دنوں ایک بارمکہ شہرمیں کسی جگہ رسول اللہ ﷺ اپنے چندساتھیوں کے ہمراہ تشریف فرماتھے کہ اس دوران اتفاقاًوہاں سے مصعبؓ کاگذرہوا…ان سبھی نے مصعبؓ کایہ حال دیکھا…بوسیدہ اورپھٹاپرانالباس ٗ بے رونق حلیہ ٗ مسلسل فقروفاقہ کی وجہ سے گرتی ہوئی صحت…یہ منظردیکھ کریہ حضرات اپنے جذبات پرقابونہ رکھ سکے اورآبدیدہ ہوگئے…تب آپؐ کی انکھیں بھی آنسوؤں سے لبریزہوگئیں …(۱) مصعبؓ میں قبولِ اسلام کے بعدرونماہونے والی اس بڑی تبدیلی کی وجہ سے اگرچہ بظاہرتوان کایہ بڑانقصان ہواکہ راحت وآرام ٗعیش وعشرت ٗ اورنازونعم سے بھرپوران کی وہ حسین اوررنگین زندگی اب جاری نہیں رہ سکی تھی…لیکن اب یہ جواِن کی نئی اوربدلی ہوئی زندگی تھی ،اس کی وجہ سے اب ان کی شخصیت میں ایک عجیب ساوقار ٗطبیعت میں ٹھہراؤ اور سنجیدہ پن ٗ چہرے پرہمہ وقت عجیب سی معصومیت اوربھولاپن …ان سب چیزوں نے مل کر اب ان کی شخصیت کوپہلے سے کہیں زیادہ دلکش اورپُرکشش بنادیاتھا… نیزیہ کہ نعمتوں کی جگہ اب یہ جومشکلات تھیں ،یہ کوئی ان کی مجبوری نہیں تھی،بلکہ دینِ برحق کی خاطر انہوں نے ازخودتمامترنعمتوں اورراحتوں کوترک کرتے ہوئے برضاورغبت اس بدلی ہوئی زندگی کوگلے لگایاتھا…اوراس راستے میں پیش آنے والی تمامترمشکلات کووہ خندہ پیشانی اورصبروشکرکے ساتھ برداشت کرتے چلے آرہے تھے۔ مُصعبؓ کی یہی وہ خوبیاں تھیں جن کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کے قلبِ مبارک میں ان کیلئے بہت زیادہ قدرومنزلت کے جذبات تھے،اورآپؐ ہمیشہ ان کے ساتھ انتہائی شفقت ومحبت کامعاملہ فرمایاکرتے تھے۔ ٭…حتیٰ کہ آخروہ وقت بھی آیاکہ جب رسول اللہ ﷺ نے ایک انتہائی اہم ترین کام کیلئے مُصعبؓ کومنتخب فرماتے ہوئے انہیں ایک بہت بڑی ذمہ داری سونپی،حالانکہ اُس وقت آپؐ کے جاں نثارساتھیوں میں بڑی تعدادمیں ایسے افرادموجودتھے جومُصعبؓ سے عمراورتجربے میں بڑے تھے،اپنی اپنی قوم اوربرادری میں مقام ومرتبے کے لحاظ سے بھی ان کی حیثیت مُصعَبؓ سے زیادہ تھی،نیزایسے افرادبھی موجودتھے کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ قرابت داری کی وجہ سے جن کی خاص حیثیت تھی،لیکن اس سب کچھ کے باوجودآپؐ نے اس اہم ترین ذمہ داری کیلئے ان سبھی حضرات میں سے محض اس نوجوان (یعنی مُصعَبؓ) کومنتخب فرمایا… وہ عظیم ترین ذمہ داری یہ تھی کہ نبوت کے بارہویں سال جب حجِ بیت اللہ کے موقع پرمدینہ سے آئے ہوئے بارہ افرادنے آپؐ کی دعوتِ حق پرلبیک کہتے ہوئے دینِ برحق قبول کیاتھا،اورآپؐ کے دستِ مبارک پربیعت بھی کی تھی ،جوکہ تاریخ میں بیعتِ عقبہ اُولیٰ کے نام سے معروف ہے…تب ان افرادنے حج سے فراغت کے بعدمدینہ کی طرف واپسی سے قبل رسول اللہ ﷺ سے گذارش کی تھی کہ ان کی دینی تعلیم وتربیت کی خاطرمسلمانوں میں سے کسی کوان کے ہمراہ روانہ کیاجائے…لہذاان کی اس گذارش کے جواب میں رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں ان کی تعلیم وتربیت ٗ نیزدینِ اسلام کی دعوت وتبلیغ ٗ اورپیغامِ حق پہنچانے کی خاطراپنے اولین ’’سفیر‘‘اور’’نمائندہ‘‘کی حیثیت سے نوجوان مُصعَب بن عمیر رضی اللہ عنہ کوان کے ہمراہ مدینہ روانہ فرمایا۔ یقینایہ بہت ہی بڑاشرف اوراعزازتھاکہ تاریخِ اسلام میں رسول اللہ ﷺ کے اولین ’’سفیر‘‘ اور’’نمائندۂ خاص‘‘کی حیثیت سے مصعبؓ کاانتخاب …آپؐ کے اس انتخاب سے یقینااس قدرومنزلت اوراس اہمیت کی عکاسی ہوتی تھی جوآپؐ کے قلبِ مبارک میں اپنے اس نوجوان صحابی ٗیعنی مصعب بن عمیررضی اللہ عنہ کیلئے تھی۔ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے جب مصعبؓ کویہ عظیم ذمہ داری سونپی گئی توانہوں نے اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اوراس سے توفیق طلب کرتے ہوئے اس ذمہ داری کوقبول کیا۔ مدینہ پہنچنے کے بعداللہ پرحقیقی ایمان ٗ اخلاصِ نیت ٗ جذبۂ صادق ٗ سچی لگن ٗ فہم وفراست ٗ اور اپنی خوش اخلاقی کی بدولت مصعبؓ نے دیکھتے ہی دیکھتے بہت جلدوہاں اُس نئے شہرمیں ٗ اورنئے معاشرے میں اپنامقام ومرتبہ بنالیا…مدینہ کے باشندوں کے دلوں میں اپنے لئے جگہ بنائی…جس کانتیجہ یہ ہواکہ اِن کی دعوت پرلبیک کہتے ہوئے بڑی تعدادمیں لوگ فوج درفوج دینِ اسلام قبول کرنے لگے۔ ٭…رسول اللہ ﷺ نے اپنے نوجوان صحابی حضرت مصعب بن عمیررضی اللہ عنہ کومحض ان بارہ افرادکے ہمراہ مکہ سے مدینہ کی جانب روانہ فرمایاتھاجونبوت کے بارہویں سال بیعتِ عقبہ اُولیٰ کے موقع پرمسلمان ہوئے تھے،یعنی اُس وقت شہرمدینہ کی تمام آبادی میں کل یہی مسلمان تھے،یعنی صرف بارہ افراد۔ لیکن مدینہ پہنچنے کے بعد رسول اللہ ﷺ کے اولین سفیراورنمائندے کی حیثیت سے مصعبؓ دینِ اسلام کی نشرواشاعت کے سلسلے میں جوخدمات انجام دے رہے تھے ٗان کی اتنی بڑی افادیت سامنے آئی کہ محض اگلے ہی سال یعنی تیرہ نبوی میں حج کے دوران مدینہ سے آئے ہوئے حجاج میں سے خفیہ طورپررسول اللہ ﷺ سے ملاقات اورپھربیعتِ عقبہ ثانیہ کے موقع پرشریک حضرات کی تعدادبہتّرتھی۔اورپھراس کے بعدبھی مدینہ میں دینِ اسلام کی نشر و اشاعت کایہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا،مسلمانوں کی تعدادمیں مسلسل اضافہ ہوتارہا… ٭اگرچہ یقینارسول اللہ ﷺ کے اولین سفیرکی حیثیت سے مدینہ میں نئے ماحول اورنئے اجنبی معاشرے میں پیغامِ حق پہنچاناکوئی آسان کام نہیں تھا،اس کیلئے بہت زیادہ حکمت ودانش اورفہم وفراست درکارتھی ،نیزبڑے صبر ٗ حوصلے اوربرداشت کی ضرورت تھی،کیونکہ معمولی سی بے احتیاطی کے نتیجے میں معاملہ بگڑسکتاتھااورصورتِ حال دگرگوں ہوسکتی تھی ، بالخصوص یہ کہ اس مقدس فریضے کی انجام دہی کے دوران متعددمواقع پربڑے نازک حالات بھی پیش آئے …مگرمصعبؓ نے ہمیشہ نہایت خوش اسلوبی کامظاہرہ کرتے ہوئے صورتِ حال کوسنبھال لیا،یقینااللہ کی طرف سے توفیق کے نتیجے میں مصعبؓ کیلئے رسول اللہ ﷺ کے نمائندے،نیزبے مثال مبلغِ اسلام کی حیثیت سے یہ بہت بڑی کامیابی تھی۔ ٭…نبوت کے تیرہویں سال کے بالکل آخرمیں ہجرتِ مدینہ کاحکم نازل ہونے کے بعدرسول اللہ ﷺ ودیگرتمام مسلمان مختلف گروہوں کی شکل میں رفتہ رفتہ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ پہنچنے لگے۔ مشرکینِ مکہ ابتداء میں توخوشیاں مناتے رہے کہ چلواچھاہوا،مسلمان ہماراشہرچھوڑکرچلے گئے…لیکن ان کی یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی،کیونکہ جب انہیں یہ اندازہ ہونے لگاکہ مسلمان ان کے شکنجے سے نکلنے کے بعداب وہاں مدینہ میں سکون واطمینان کی زندگی بسر کر رہے ہیں …توان سے یہ برداشت نہوسکا…راتوں کی نیندیں اُڑنے لگیں …اس سے بھی بڑھ کرجوچیزان کیلئے بڑی تشویش کاباعث بنی ٗوہ یہ کہ اُس زمانے کی وہ مشہورومعروف تجارتی شاہراہ جس پران کے تجارتی قافلوں کی مکہ سے ملکِ شام کے مابین آمدورفت ہوا کرتی تھی…وہ شاہراہ مدینہ کے قریب سے گذرتی تھی…لہٰذامدینہ میں مسلمانوں کی ابھرتی ہوئی قوت اس شاہراہ کیلئے باعثِ خطرہ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ مشرکینِ مکہ نے فیصلہ کیاکہ ایسی نوبت آنے سے قبل ہی مدینہ میں قوت پکڑتے ہوئے ان مسلمانوں کوکچل دیاجائے…چنانچہ اس جنونی کیفیت میں ہجرت کے اگلے ہی سال (یعنی ۲ھ؁میں ) وہ بڑے لشکرکے ساتھ مدینہ آپہنچے…’’بدر‘‘کے مقام پرحق وباطل کے درمیان اولین معرکے کی نوبت آئی…جس کے نتیجے میں مشرکین اپنی تمامترعددی برتری اورہرقسم کے سامانِ حرب وضرب کی فراوانی کے باوجودبدترین شکست وہزیمت سے دوچارہوئے،پسپائی ٗذلت ورسوائی ٗاورجگ ہنسائی ان کامقدربنی،اوریوں شکست کاغم اوررسوائی کاداغ دلوں پرلئے ہوئے وہ وہاں سے واپس مکہ کی جانب لوٹ گئے۔ ٭…البتہ اس رسواکن شکست کے بعداپنے شہرمکہ واپس پہنچتے ہی اپنی اس شکست ورسوائی کابدلہ لینے کی غرض سے انہوں نے مسلمانوں پربہت بڑے پیمانے پرحملے کامنصوبہ تیارکیا،تاکہ اب مسلمانوں کوہمیشہ کیلئے صفحۂ ہستی سے مٹادیاجائے،اوراس مقصدکیلئے نہایت زوروشورکے ساتھ تیاریاں بھی شروع کردیں ،نتیجہ یہ ہواکہ محض اگلے ہی سال یعنی ۳ھ؁ میں مشرکینِ مکہ اپنے بڑے لشکرِجرارکے ہمراہ …اوراپنے ناپاک ارادوں کے ساتھ مدینہ آدھمکے…اوراُحُدپہاڑکے دامن میں پڑاؤڈالنے کے بعدمسلمانوں کے خلاف بڑی جنگ کیلئے وہاں صف آراء ہوگئے۔ دوسری طرف رسول اللہ ﷺ اورآپؐ کے جاں نثارساتھی بھی اپنی تیاری کے ساتھ اُحُد پہاڑ کے دامن میں پہنچے،اپنی صفیں منظم کیں ،رسول اللہ ﷺ اس موقع پرصفوں کے درمیان گھوم پھرکرخودضروری ہدایات دیتے رہے،اورپھراس کام سے فراغت کے بعدآپؐ مخصوص نگاہوں سے اپنے تمام جاں نثاروں کی جانب بغوردیکھنے لگے،گویاکسی بہت اہم اورخاص کام کیلئے ان میں سے کسی کاانتخاب مقصودہو…اورپھرآپؐ کی نگاہیں اپنے ان تمام جاں نثاروں کی اس برگزیدہ ترین جماعت میں سے مُصعب بن عمیررضی اللہ عنہ پر مرکوز ہو گئیں ، آپؐ نے انہیں اپنے قریب بلایا،اورپھراپنے دستِ مبارک سے انہیں عَلَم عطاء فرمایا،جوکہ یقینابہت بڑاشرف اوراعزازتھا،چنانچہ اس اہم ترین اورتاریخی غزوۂ اُحُدکے موقع پر نوجوان مصعبؓ اسلامی لشکرکے علمبردارتھے،اوراس عظیم ترین شرف کیلئے انہیں خودرسول اللہ ﷺ نے منتخب فرمایاتھا۔ جنگ کاآغازہوا،اِکادُکاانفرادی جھڑپوں کے بعددونوں جانب سے عام یلغارہوئی،خوب گھمسان کارَن پڑا،مسلمان ہرلمحہ فتح سے قریب ترہوتے چلے جارہے تھے،جبکہ مشرکینِ مکہ کی شکست وپسپائی کے آثارواضح طورپرنمایاں ہوچلے تھے ،اوروہ اب میدان چھوڑکرراہِ فراراختیارکررہے تھے۔ لیکن عین اس موقع پرایک بہت بڑی غلطی ہوئی ٗجس کی وجہ سے میدانِ کارزارکی تمام صورتِ حال یکسربدل کررہ گئی اورمسلمان اپنی یہ جیتی ہوئی جنگ ہارگئے،ہوایہ کہ وہ ’’تیرانداز‘‘جنہیں رسول اللہ ﷺ نے ایک پہاڑی راستے پرمتعین فرمایاتھااورتاکیدکی تھی کہ’’ جنگ جوبھی رُخ اختیارکرے ٗلیکن جب تک میں نہ کہوں اُس وقت تک تم لوگ یہاں سے نہیں ہٹوگے ‘‘۔ لیکن ان تیراندازوں سے اجتہادی غلطی ہوگئی،یہ سمجھے کہ جنگ تواب ختم ہی ہوچکی،دشمن فرارہورہاہے…لہٰذایہ لوگ وہ راستہ خالی چھوڑکروہاں سے اترآئے…جبکہ اُدھربھاگتے ہوئے دشمن کی نگاہ جب اس خالی راستے پرپڑی تواس نے موقع غنیمت جانا،اورعجلت میں اپنی صفوں کودوبارہ منظم کرتے ہوئے اس راستے سے (جوکہ مسلمانوں کے عقب میں تھا) اچانک بھرپورحملہ کردیا… مسلمان اس اچانک اوربالکل غیرمتوقع حملے کیلئے بالکل تیارنہیں تھے،لہٰذانتیجہ یہ ہواکہ اس حملے کی وجہ سے مسلمان فوری طوری پرسنبھل نہ سکے،انہیں بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا، ہر طرف بہت زیادہ افراتفری پھیل گئی،اورتب وہ اپنی صفیں دوبارہ منظم ومرتب نہ کرسکے،یوں محض چندافرادکی غلطی کی وجہ سے سبھی کواتنی بڑی شکست اوراتنی بڑی پریشانی سے دوچار ہونا پڑا ۔ جب یہ افراتفری اپنے عروج پرتھی ٗتب رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بہت کم اِکادُکاچندمسلمان رہ گئے تھے،اس موقع سے بھرپورفائدہ اٹھاتے ہوئے مشرکینِ مکہ نے اپنی تمام توجہ اوراپنی پوری قوت اُسی جانب مرکوزکردی تھی کہ جہاں آپؐ موجودتھے،وہ بہرصورت اورہرقیمت پر اس نادرترین موقع سے مکمل فائدہ اٹھاتے ہوئے (نعوذباللہ)آپؐ کوقتل کردینے کی غرض سے سرتوڑکوششوں میں مصروف تھے۔ اسلامی لشکرکے علمبردارحضرت مُصعب بن عمیررضی اللہ عنہ نے جب یہ منظردیکھاتوفوراًہی خطرے کوبھانپ لیااورمشرکینِ مکہ کے اس مذموم ارادے کوبخوبی سمجھ لیاکہ وہ اس موقع سے بھرپورفائدہ اٹھاتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کوقتل کرڈالناچاہتے ہیں …اورتب مصعبؓ نے پوری قوت کے ساتھ جھنڈے کوبلندکرکے زوروشورکے ساتھ مسلسل لہراناشروع کیا، تاکہ دشمن یہ سمجھے کہ یہاں کچھ خاص معاملہ ہے ،اوراس طرح دشمن کی توجہ اِس طرف مبذول ہوجائے،کافی دیرتک وہ اسی طرح جھنڈے کوبلندکرکے خوب ہلاتے اورلہراتے رہے… جس کی وجہ سے اب واقعی دشمنوں کی توجہ ان پرمرکوزہونے لگی…اوردشمن کارش اب اِن کے اردگردبڑھتاگیا،مصعبؓ مسلسل ایک ہاتھ سے جھنڈالہراتے رہے ،اور دوسرے ہاتھ سے تلوارچلاتے رہے…لیکن اب دشمنوں کی تعدادبہت زیادہ بڑھ چکی تھی، اوراب دشمن اس حقیقت کوبھی سمجھ چکے تھے کہ یہاں رسول اللہ ﷺ موجودنہیں ہیں ، نہ ہی کوئی اورخاص معاملہ ہے،بلکہ مصعبؓ ایسافقط اس لئے کررہے ہیں کہ اس طرح دشمن کی توجہ رسول اللہ ﷺ کی بجائے بس اسی جانب مرکوزرہے۔ تاہم دشمنوں کواس موقع پریہ اندازہ بھی ہوگیاکہ اگرچہ رسول اللہ ﷺ یہاں نہیں ہیں … البتہ یہ کہ آپؐ تک پہنچنے کیلئے اوراپنے ناپاک منصوبے کوعملی جامہ پہنانے کیلئے پہلے راستے کی اس رکاوٹ کو ہٹانا ہوگا…اس دیوارکوگراناہوگا…یعنی پہلے اس نوجوان علمبردار مصعبؓ کاخاتمہ کرناہوگا… چنانچہ اس نازک ترین صورتِ حال میں جب مصعبؓ اس مقام پرتنہاتھے،دشمن ہرطرف سے ان پرٹوٹے پڑرہے تھے…اسی دوران ایک گھڑسوارآیااوربرق رفتاری کے ساتھ ان کے قریب سے گذرتے ہوئے ان کے دائیں بازوپراپنی تلوارسے بھرپوروارکیا،جس کے نتیجے میں ان کابازوتن سے جداہوکردورجاگرا…بازوتوکٹ کردورجاگرا…مگروہ مبارک جھنڈاجورسول اللہ ﷺ نے اپنے دستِ مبارک سے انہیں عنایت فرمایاتھا…اُس جھنڈے کی حرمت وعظمت پرکوئی آنچ نہ آنے دی،اسے سرنگوں نہونے دیا،فوراًہی بائیں ہاتھ میں وہ جھنڈاتھام لیا،تھوڑی ہی دیربعدوہی گھڑسواردوبارہ اپناگھوڑاسرپٹ دوڑاتا ہوا آیااورمصعبؓ کے بائیں بازوپراسی طرح بھرپوروارکیا…تب بایاں بازوبھی کٹ کردور جاگرا…تب مصعبؓ نے فوراًہی دونوں کٹے ہوئے بازؤوں میں جھنڈے کوجکڑکراپنے سینے سے لگالیا…دونوں بازوکٹ چکے تھے،خون بہت زیادہ بہہ چکاتھا،جس کی وجہ سے اب مصعبؓ لڑکھڑانے لگے تھے…لیکن جب تک جسم میں خون کاآخری قطرہ باقی تھا… مصعبؓ نے اس جھنڈے کوگرنے نہیں دیا…ایسے میں دشمنوں میں سے کوئی اوربدبخت آیا،اوراس نے پوری قوت سے اپنے نیزے کے ذریعے مصعبؓ پربھرپوروارکیا،یہ نیزہ مصعبؓ کے جسم کے آرپارہوگیا…تب وہ ان زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے زمین پر گرگئے…مصعبؓ گرگئے…اورتب وہ جھنڈابھی گرگیا… تمام شہرمکہ میں سب سے زیادہ نفیس سمجھاجانے والایہ نوجوان …مکہ کے جس گلی کوچے سے گذرجاتا ٗوہ تمام گلی خوشبوسے مہک اٹھتی ،لوگ سمجھ جاتے کہ ابھی یہاں سے مصعب کاگذرہواہے…آج وہی نوجوان یہاں ’’ اُحُد‘‘کے میدان میں خاک اورخون میں لت پت پڑاہواتھا،اللہ اوراس کے رسولؐکی محبت میں …نیزاللہ کے دین کی سربلندی کی خاطراس نوجوان نے اُس مصنوعی ٗاورعارضی وفانی نفاست ٗاورراحت وآرام کوخیربادکہتے ہوئے …حقیقی کامیابی اورلازوال سعادتمندی کواپنالیاتھا…اب وہ شہداء کے مبارک کاروان میں شامل ہوچکاتھااوراس کی روح میدانِ اُحُدسے روانہ ہوکراب جنت الفردوس کی بلندیوں کی جانب محوِپروازتھی… جنگ کے اختتام پررسول اللہ ﷺ ہرایک ایک شہیدکے پاس تشریف لائے…الوداع کہنے اوررخصت کرنے کی غرض سے …چنانچہ جب آپؐ مصعبؓ کے قریب پہنچے … توکیفیت یہ دیکھی کہ ان کے کفن کیلئے توکچھ بھی میسرنہیں ہے…کہیں سے ایک پھٹی پرانی اور خستہ حال چادرکاانتظام کیاگیا،لیکن وہ بھی اتنی چھوٹی تھی کہ سرڈھانکاجاتاتوپاؤں ننگے ہوجاتے،پاؤں ڈھانپے جاتے توسرننگاہوجاتا… رسول اللہ ﷺ یہ منظردیکھ کرمزیدرنجیدہ وافسردہ ہوگئے،اورپھرفرمایا:’’سرڈھانپ دیا جائے ،اورپیروں پرنبات الاِذخر(وہاں اُگنے والی گھاس) ڈال دی جائے‘‘۔چنانچہ ایساہی کیاگیا۔ اس کے بعدرسول اللہ ﷺ کچھ دیراسی طرح وہاں ساکت وجامدکھڑے ہوئے مصعبؓ کی جانب بہت غورسے دیکھتے رہے …گویاکہیں بہت دورخیالوں کی دنیامیں کھوگئے ہوں ۔ اورپھرآپؐ اپنے ساتھیوں کی جانب متوجہ ہوئے ،اورانہیں مخاطب کرتے ہوئے شہدائے اُحدکے بارے میں یہ کلمات ارشادفرمائے: أشھَدُ أنّ ھٰؤلَائِ شُھَدَائُ عِندَ اللّہِ یَومَ القِیَامَۃ ، فَأتُوھُم ، وَ زُورُوھُم ، وَالّذِي نَفسِي بِیَدِہٖ لَایُسلِّمُ عَلَیھِم أحَدٌ اِلیٰ یَومِ القِیَامَۃِ ، اِلّا رَدُّوا عَلَیہِ السَّلَام …(۱) یعنی’’میں اس بات کی گواہی دیتاہوں کہ یہ (تمام شہدائے اُحد)قیامت کے دن اللہ کے سامنے شہداء کی حیثیت سے ہی پیش ہوں گے،لہٰذاتم ان کی زیارت کیاکرو،ان کے پاس آتے جاتے رہاکرو،انہیں سلام کیاکرو،قسم ہے اُس اللہ کی جس کے قبضے میں میری جان ہے ، قیامت تک جب بھی کوئی انہیں سلام کرے گا تویہ اس کے سلام کاجواب دیں گے‘‘۔ اس کے بعدآپ ﷺ خودبھی اکثروبیشتراُحدتشریف لے جایاکرتے ،شہدائے اُحدکوسلام کرتے ، اوران کیلئے دعائے خیرفرمایاکرتے تھے… اسی کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے جلیل القدرصحابی حضرت مصعب بن عمیررضی اللہ عنہ کا ذکرِخیر مکمل ہوا۔ اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں ان کے درجات بلندفرمائیں ، نیزہمیں وہاں اپنے حبیب ﷺ اورتمام صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی صحبت ومعیت کے شرف سے سرفرازفرمائیں ۔
Top