حضرت خالدبن ولیدرضی اللہ عنہ - غزوۂ مُؤتہ
حضرت خالدبن ولیدرضی اللہ عنہ قبولِ اسلام سے قبل ہمیشہ مشرکینِ مکہ کے لشکرمیں شامل رہتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف بڑی کارروائیوں میں ملوث رہے تھے…لیکن اب قبولِ اسلام کے بعدان کے دل کی دنیایکسربدل چکی تھی،اب کفروشرک اورمسلمانوں کے خلاف نفرت وعداوت کی بجائے ان کی زندگی کاہرگوشہ ایمان کے نورسے جگمگانے لگاتھا…اب اس نئی اوربدلی ہوئی زندگی میں ٗان کے قبولِ اسلام کے محض دوماہ بعدہی …قانونِ قدرت کے عین مطابق…ایک بہت ہی بڑی آزمائش ان کے سامنے آکھڑی ہوئی۔ ہوایہ کہ ۶ھ؁میں مسلمانوں اورمشرکینِ مکہ کے مابین ’’صلحِ حدیبیہ ‘‘کے نام سے جومشہور تاریخی معاہدہ طے پایاتھا ٗاس کے نتیجے میں رسول اللہ ﷺ اورتمام مسلمانوں کومشرکینِ مکہ کی جانب سے جب قدرے بے فکری نصیب ہوئی تھی ،تب اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ ﷺ نے دعوتِ اسلام کے اس مبارک سلسلے کومزیدوسعت دینے کافیصلہ فرمایاتھا،اسی سلسلے میں ان دنوں مختلف فرمانرواؤں ٗ حکمرانوں ٗ امراء وسلاطین ٗ اوروالیانِ ریاست کے نام خطوط ارسال کئے گئے تھے جن میں انہیں دینِ برحق قبول کرنے کی دعوت دی گئی تھی ۔ اسی سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کے قاصدکی حیثیت سے حارث بن عمیرالأزدی رضی اللہ عنہ ’’بُصریٰ‘‘کے فرمانرواکے نام تحریرفرمودہ آپؐ کانامۂ مبارک لئے ہوئے جب مدینہ سے بُصریٰ کی جانب محوِسفرتھے …تب راستے میں ملکِ شام کی حدودمیں ’’بلقاء‘‘نامی ریاست (جوکہ سلطنتِ روم کے تابع تھی) کے فرمانروا شرحبیل الغسانی نے انہیں روکا،تشددکانشانہ بنایا،اورپھرانتہائی سنگدلی وسفاکی کامظاہرہ کرتے ہوئے ان کے ہاتھ پاؤں رسیوں سے جکڑنے کے بعدانہیں قتل کرڈالا… رسول اللہ ﷺ کوجب اس افسوسناک واقعے کی اطلاع ملی توآپؐ انتہائی رنجیدہ ہوگئے، کیونکہ کسی نہتے اوربے قصورانسان کو…بالخصوص غیرملکی قاصداورسفارتی نمائندے کوناحق یوں قتل کرڈالنا یقینابہت ہی بڑاجرم تھا، مزیدیہ کہ یہ سفارتی آداب کی سنگین خلاف ورزی بھی تھی… رسول اللہ ﷺ نے یہ انتہائی افسوسناک بلکہ المناک واقعہ پیش آنے پریہ فیصلہ فرمایاکہ اب رومیوں کے خلاف تادیبی کارروائی ضروری ہوچکی ہے،چنانچہ تین ہزارافرادپرمشتمل ایک لشکرسلطنتِ روم کی جانب روانہ کیاگیا۔اس موقع پرآپؐ نے اس لشکرکاسپہ سالار حضرت زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ کومقررفرمایا،اوریہ وصیت فرمائی کہ زیدکے بعدسپہ سالاری کے فرائض جعفربن ابی طالب انجام دیں گے،اوران کے بعدعبداللہ بن رواحہ (جوکہ انصارِمدینہ میں سے تھے)انجام دیں گے،اوران کے بعدباہم مشاورت کے بعدکسی کوسپہ سالارمنتخب کرلیاجائے(گویارسول اللہ ﷺ کومن جانب اللہ خبردے دی گئی تھی کہ اس موقع پریہ تینوں حضرات یکے بعددیگرے شہیدہوجائیں گے…) اورپھریہ لشکرحضرت زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ کی زیرِقیادت مدینہ منورہ سے سوئے منزل رواں دواں ہوگیا… طویل مسافت طے کرنے کے بعدجب یہ مبارک لشکرجزیرۃ العرب اورسلطنتِ روم کے مابین سرحدی علاقے میں پہنچاتووہاں ’’مؤتہ‘‘نامی مقام پر(جوکہ رفتہ رفتہ تقسیم درتقسیم کے سلسلوں کے بعدموجودہ ’’اُردن‘‘میں واقع ہے) صورتِ حال جونظرآئی وہ نہایت خلافِ توقع اورانتہائی پریشان کُن تھی،کیونکہ وہاں منظرکچھ ایساتھاکہ سامنے رومیوں کی ایک لاکھ فوج مقابلے کیلئے موجودتھی،مزیدیہ کہ اس سرحدی علاقے میں آبادبہت سے عرب قبائل (غسان وغیرہ) جودینی ٗ معاشی ٗ وسیاسی طورپرسلطنتِ روم ہی کے تابع تھے ٗان کے ایک لاکھ جنگجوبھی یہاں رومی فوج کے شانہ بشانہ موجودتھے…یعنی صورتِ حال یہ بنی کہ ایک طرف مسلمان محض تین ہزار…جبکہ دوسری جانب ان کے بالمقابل دولاکھ مسلح اورچاق وچوبندجنگجؤوں پرمشتمل بہت بڑالشکرِجرار… اس خلافِ توقع صورتِ حال کی وجہ سے مسلمان کچھ ترددکاشکارہوگئے ، دوروزتک باہم مشاورت کاسلسلہ چلتارہا،کسی نے کہا’’ہمیں اب مزیدپیش قدمی کی بجائے یہیں رک کر رسول اللہ ﷺ کواس صورتِ حال سے مطلع کرناچاہئے اور آپؐ کی طرف سے اس بارے میں کسی فیصلے کاانتظارکرناچاہئے‘‘کسی نے کہا’’ہمیں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں یہ پیغام بھیجناچاہئے کہ مزیددستے ارسال کئے جائیں ‘‘اسی دوران حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے فیصلہ کن اندازمیں مشورہ دیتے ہوئے کہا’’ہمارے لئے ناکامی کاکوئی سوال ہی نہیں ہے،ہمارے سامنے تودونوں ہی صورتوں میں کامیابی ہی کامیابی ہے… یا شہادت، یافتح…لہٰذااس تمامترترددکی کیاضرورت ہے؟‘‘ چنانچہ سبھی نے اس مشورے کوقبول کیا،اوراس پرعمل کرتے ہوئے دشمن کی جانب پیش قدمی شروع کی…فریقین میں کوئی توازن ہی نہیں تھا…ایک طرف فقط تین ہزارمسلمان ، اوروہ بھی گھرسے بے گھر،وطن سے بہت دور،یہاں دشمن کی سرزمین پر…جبکہ دوسری جانب دولاکھ جنگجو…خوداپنی ہی سرزمین پراوراپنے ہی علاقے میں …مگراس کے باوجود…دونوں جانب سے نہایت زورداریلغارہوئی…زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ نہایت بے جگری سے لڑتے ہوئے شہیدہوگئے…تب رسول اللہ ﷺ کے حکم کے مطابق حضرت جعفربن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے قیادت سنبھالی،بے مثال شجاعت وبہادری کامظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کی صفوں کوچیرتے ہوئے دوراندرتک چلے گئے…آخراللہ کے دین کی سربلندی کی خاطروہاں پردیس میں ’’مؤتہ‘‘کے میدان میں انہوں نے بھی اپنی جان کانذرانہ پیش کیا…اورپھریکے بعددیگرے ان دونوں عظیم ترین اوربہادرسپہ سالاروں کے نقشِ قدم پرچلتے ہوئے تیسرے سپہ سالارحضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ بھی وہاں ’’مؤتہ‘‘کے مقام پرشہیدہوگئے… رسول اللہ ﷺ نے انہی تینوں برگزیدہ شخصیات کویکے بعددیگرے بالترتیب اس لشکرکاسپہ سالارمقررفرمایاتھا…لہٰذااب ان تینوں کی شہادت کے بعدلشکرمیں بہت بڑاخلاء پیدا ہوگیاجوکہ انتظامی لحاظ سے یقینابہت ہی خطرناک بات تھی ،بالخصوص اس قدرنازک ترین صورتِ حال میں کہ جب جنگ اپنے پورے عروج پرتھی ،اوراسلامی لشکرانتہائی پریشان کن صورتِ حال سے دوچارتھا،یہی وہ انتہائی اہم ٗبہت زیادہ نازک ٗ اورفیصلہ کن مرحلہ تھاکہ جب جلدازجلدکسی مناسب ’’سپہ سالار‘‘کاانتخاب ازحدضروری تھا۔ اس دوران انصارِمدینہ کے خاندان’’بنوعجلان‘‘سے تعلق رکھنے والے ثابت بن اقرم نامی شخص نے برق رفتاری کے ساتھ لپک کرجھنڈاتھام لیا،جس پرسبھی لوگ اس کے اردگردجمع ہونے لگے،گویااب یہی ان کا نیاسپہ سالارہے…لیکن وہ شخص کچھ دیردائیں بائیں نگاہ دوڑانے کے بعدآخرخالدبن ولیدرضی اللہ عنہ کومخاطب کرتے ہوئے بآوازبلندپکارتے ہوئے یوں کہنے لگا’’جلدی کیجئے خالد…یہ جھنڈاتھام لیجئے‘‘لیکن خالداس چیزکیلئے قطعی آمادہ نہیں تھے،کیونکہ وہ توابھی محض دوماہ قبل ہی مسلمان ہوئے تھے،جبکہ اس لشکرمیں بڑی تعدادمیں قدیم مسلمان ٗنیزمہاجرین وانصارمیں سے اکابرصحابہ ٔ کرام موجودتھے…بلکہ ایسے حضرات بھی تھے جنہیں حق وباطل کے درمیان اولین معرکہ یعنی ’’غزوۂ بدر‘‘میں شرکت کاعظیم شرف نصیب ہواتھا،اس سے بھی بڑھ کریہ کہ خودیہ ثابت بن اقرم عجلانی جو بڑے ہی اصرارکے ساتھ خالدکوجھنڈاتھام لینے کی پیشکش کررہے تھے ٗیہ خودبھی ’’بدری‘‘ تھے (رضی اللہ عنہ)۔ لہٰذاثابت بن اقرم رضی اللہ عنہ کی طرف سے اس اصرارکے جواب میں خالدؓنے انہیں جواب دیتے ہوئے کہا’’میں یہ جھنڈانہیں تھام سکتا،آپ خوداس کے زیادہ حقدارہیں ، کیونکہ آپ عمرمیں مجھ سے بڑے ہیں ،نیزقبولِ اسلام میں آپ کومجھ پرسبقت حاصل ہے، اورسب سے اہم بات یہ کہ آپ تو’’بدری‘‘ہیں ‘‘ تب ثابت بن اقرم رضی اللہ عنہ نے بڑی ہی سنجیدگی کے ساتھ قطعی اوردوٹوک اندازمیں کہا’’خالد!اللہ کی قسم!یہ جھنڈامیں نے محض اسی لئے تھاماتھاکہ میں اسے آپ کے حوالے کرسکوں ‘‘اورپھرانہوں نے مجمع کی جانب استفہامیہ اندازمیں دیکھتے ہوئے ان سبھی سے پوچھا’’آپ سب کومنظورہے؟‘‘جواب میں ہرطرف سے یہی صداآئی ’’منظورہے‘‘ تب حضرت خالدبن ولیدؓنے آگے بڑھ کرحضرت ثابت بن اقرم ؓکے ہاتھ سے جھنڈالے لیا…اوریوں اسلامی لشکرکے سپہ سالارکی حیثیت سے ذمہ داری سنبھال لی۔ یہی موقع تھاجب سلطنتِ روم کے اس علاقے’’مؤتہ‘‘سے تقریباًڈیڑھ ہزارمیل کے فاصلے پرمدینہ منورہ میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی جانب سے بذریعۂ وحی اپنے حبیب ﷺ کو صورتِ حال کی اطلاع دی گئی،جیساکہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : (اِنَّ النّبِيَّ ﷺ نَعَیٰ زیداً ، وجَعْفَراً ، وابنَ رَوَاحَۃ ، قَبلَ أن یَأتِیَھُم خَبَرُھُم ، فَقَال: أخَذَ الرّایَۃَ زیدٌ فَأُصِیبَ ، ثُمّ أخَذَھَا جَعفَرٌ فَأُصِیبَ ، ثُمّ أخَذَھَا ابنُ رَوَاحَۃ فَأُصِیبَ ، وَعَینَاہُ تَذرِفَان، حَتّیٰ أخَذَھَا سَیفٌ مِن سُیُوفِ اللّہ …) (۱) یعنی’’رسول اللہ ﷺ نے (مدینہ میں )لوگوں کوزید ٗ جعفر ٗ اورابن رواحہ کی شہادت سے آگاہ کیا،حالانکہ اُس وقت تک کسی اورذریعے سے یہ خبرمدینہ نہیں پہنچی تھی…چنانچہ آپؐ نے فرمایا’’پہلے زیدنے جھنڈاتھاما،اوروہ شہیدہوگئے،ان کے بعدجعفرنے جھنڈاتھامااور وہ بھی شہیدہوگئے،اورپھرابن رواحہ نے جھنڈاتھامااوروہ بھی شہیدہوگئے،یہ کہتے ہوئے آپؐ کی آنکھوں سے آنسوبہنے لگے،اس کے بعدآپؐ نے فرمایا’’اب جھنڈااللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوارنے تھام رکھاہے‘‘(۲) اُدھرمیدانِ کارزارمیں حضرت خالدبن ولیدرضی اللہ عنہ نے جب سپہ سالاری کے فرائض سنبھالے توصورتِ حال انتہائی نازک تھی…انہیں اس حقیقت کابخوبی احساس اورمکمل ادراک تھاکہ یہ توسِرے سے کوئی جنگ ہی نہیں …کیونکہ تعدادکے لحاظ سے فریقین میں زمین وآسمان کافرق تھا،مقابلے کایافتح کاکوئی سوال ہی پیدانہیں ہوتاتھا…لہٰذااس انتہائی سنگین اور نازک ترین صورتِ حال میں قیادت کی یہ بڑی بھاری ذمہ داری سنبھالتے ہی انہوں نے فوری طورپراپنے دل میں یہ اصولی فیصلہ کرلیاکہ اب فتح ہمارامقصدنہیں ہے، بلکہ اب اصل مقصدمحض یہ ہے کہ کسی طرح تمام لشکرکواس اتنی بڑی مصیبت سے اورآفتِ ناگہانی سے بحفاظت نکال لیاجائے…ورنہ بصورتِ دیگرتمام لشکرکاخاتمہ یقینی ہے ،جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی بہت بڑی بدنامی ہوگی،سیاسی ٗ عسکری ٗ نفسیاتی ٗغرضیکہ ہرلحاظ سے یہ چیزمسلمانوں کیلئے بڑے نقصان کاسبب بن جائیگی…جبکہ دشمنوں کے حوصلے بہت بلندہوجائیں گے…لہٰذااب اصل مقصودفقط یہ تھاکہ کسی طرح تمام لشکرکویہاں سے اس اندازمیں بحفاظت نکال لیاجائے کہ دشمن پراصل حقیقت ظاہرنہوسکے ،اوروہ اسے مسلمانوں کی پسپائی کی بجائے محض جنگی چال ہی سمجھتارہ جائے… ظاہرہے کہ اس مقصدکیلئے کوئی تدبیردن کی روشنی میں دشمن کی نگاہوں کے سامنے تواختیار نہیں کی جاسکتی تھی…لہٰذاحضرت خالدبن ولیدؓنے وہ تمام دن محض تین ہزارافرادپرمشتمل اس لشکرکی قیادت کرتے ہوئے …دولاکھ جنگجؤوں پرمشتمل اس لشکرِجرارکے مقابلے میں گذارا…نہایت کامیابی کے ساتھ دشمن کی اتنی بڑی فوج کو…بلکہ اس پورے سمندر کو روکے رکھا…اُس روزحضرت خالدبن ولیدرضی اللہ عنہ نے شجاعت وبہادری کے ایسے جوہردکھائے کہ اس سے قبل چشمِ فلک نے ایسے مناظرنہیں دیکھے ہوں گے…اُس روزدن بھران کی جوکیفیت رہی اس کااندازہ اس بات سے بخوبی کیاجاسکتاہے کہ اُس روزمسلسل تلوارچلاتے چلاتے ان کے ہاتھوں میں ایک دونہیں بلکہ نوتلواریں ٹوٹیں … اورجب رات کااندھیراہرطرف چھانے لگاتواس اندھیرے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حضرت خالدبن ولیدؓنے نہایت سرعت کے ساتھ راتوں رات اپنے لشکرمیں بہت سی تبدیلیاں کیں …جس کانتیجہ یہ ہواکہ دوسرے دن جب صبح کاسورج طلوع ہواتورومیوں کواپنے سامنے مسلمانوں کے لشکرمیں سب کچھ بدلاہوانظرآیا،تب وہ یہ سمجھے کہ ضرور مسلمانوں کے لشکرمیں تازہ دم دستے آپہنچے ہیں … مزیدیہ کہ اسلامی لشکرکے عقب میں وقفے وقفے سے بڑے پیمانے پرگردوغبار اٹھتا ہوا نظر آنے لگا،جوکہ حضرت خالدؓ کے حکم پربہت سے مسلمان گھڑسوارجان بوجھ کرخودہی اڑا رہے تھے…اس کااثریہ ہواکہ رومی سمجھے کہ ابھی پیچھے کوئی مزیدبڑالشکربھی چلاآرہاہے ، اورتب وہ مزیدخوفزدہ ہوگئے۔ حضرت خالدبن ولیدرضی اللہ عنہ نے جب دشمن کے لشکرمیں پریشانی اورخوف کے آثار محسوس کئے تواب انہوں نے اس بڑی تبدیلی سے فوری طورپرفائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے لشکرکوپیچھے ہٹنے کی ہدایت کی،اوراس چیزکابھرپورخیال رکھاکہ یہ پیچھے ہٹنے کاعمل بتدریج اورخوب منظم طریقے سے ہو،کوئی افراتفری کے آثارنمایاں نہوں ،بھگدڑکاماحول نظرنہ آئے،نیزیہ کہ دشمن مسلسل اس غلط فہمی میں مبتلارہے کہ مسلمانوں کی طرف سے یہ پسپائی نہیں ہے ،بلکہ دشمن کوپھنسانے اورگھیرنے کیلئے یہ کوئی بڑی جنگی چال اورحکمتِ عملی ہے۔ چنانچہ مسلمان یوں انتہائی منظم طریقے سے بتدریج پیچھے ہٹتے گئے،یہ منظردیکھ کردشمن اس غلط فہمی میں مبتلارہاکہ مسلمان اس طرح ہمیں اپنے تعاقب پرورغلارہے ہیں ،تاکہ ہم مسلسل ان کاتعاقب کرتے ہوئے جزیرۃ العرب کے صحرائی علاقے میں جاپہنچیں … جہاں ان مسلمانوں کاراج ہوگا،تب یہ ہمیں گھیرلیں گے،اورپھروہاں سے زندہ سلامت واپسی ہمارے لئے ممکن نہیں ہوگی،یاتوہم وہاں ان مسلمانوں کے ہاتھوں مارے جائیں گے،یاپھراُس بھیانک صحرامیں بھٹک جانے کے بعد بھوکے پیاسے سسک سسک کردم توڑنے پرمجبورہوجائیں گے…اسی خوف اوراندیشے کی وجہ سے وہ مسلمانوں کے تعاقب سے گریزکرتے رہے،اوریوں حضرت خالدبن ولیدرضی اللہ عنہ پورے اسلامی لشکر کو بحفاظت وہاں سے نکال لانے میں پوری طرح کامیاب اورسرخرورہے… اس طرح رومیوں پر ٗنیزدوسرے بہت سے بیرونی واندرونی ٗکھلے ہوئے اورچھپے ہوئے ٗ ہرقسم کے دشمنوں پرمسلمانوں کارعب برقراررہا…حضرت خالدبن ولیدرضی اللہ عنہ کے قبولِ اسلام کے فوری بعدپیش آنے والی یہ صورتِ حال فنونِ حرب وضرب میں ان کی بے مثال مہارت ٗ نیز کامیاب جنگی حکمتِ عملی کابڑاثبوت تھی۔
Top