حضرت خالدبن ولیدرضی اللہ عنہ - روم کے محاذکی طرف منتقلی …تاریخ کانیاباب
یہ وہ زمانہ تھاکہ جب مسلمان بیک وقت بہت سے محاذوں پردشمنوں کے خلاف برسرِ پیکارتھے،چنانچہ انہی دنوں روئے زمین کی ایک اورعظیم ترین قوت یعنی سلطنتِ روم کی طرف سے مسلمانوں کوجوبڑے خطرات لاحق تھے ٗان کے سدِباب کے طورپرسب سے پہلے توخودرسول اللہ ﷺ کے مبارک دورمیں یادگارغزوۂ مؤتہ اورپھرغزوۂ تبوک کی نوبت آئی تھی،اس کے بعدآپؐ نے اپنی حیاتِ طیبہ کے بالکل آخری ایام میں حضرت زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ کے بالکل جواں سال بیٹے اُسامہ ؓ کی زیرِقیادت سلطنتِ روم کی جانب روانگی کیلئے ایک لشکرتیارفرمایاتھا،لیکن یہ لشکرابھی مدینہ شہرسے کچھ فاصلے پرہی تھاکہ آپؐ کی طبیعت زیادہ ناسازہوجانے کی وجہ سے اس کی روانگی مؤخرکردی گئی تھی،اورپھرحضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے خلافت کی ذمہ داری سنبھالتے ہی انتہائی نامساعدحالات کے باوجوداس لشکرکواس کی منزل کی جانب روانہ کیاتھااورخودرسول اللہ ﷺ کی طرف سے مقررفرمودہ نوعمرسپہ سالارسے(اندرونِ مدینہ انہی نامساعدحالات کے پیشِ نظر) اجازت حاصل کرکے مدینہ میں رہ گئے تھے۔ اس کے بعدبھی حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ مختلف اوقات میں سلطنتِ روم کی طرف سے مسلسل جارحیت کی روک تھام کی غرض سے مختلف شخصیات (مثلاً: ابوعبیدہ عامربن الجراح ، شرحبیل بن حسنہ، یزیدبن ابی سفیان ،وغیرہ ،رضی اللہ عنہم اجمعین)کی زیرِقیادت مدینہ سے لشکرارسال کرتے رہے،اوریہ سبھی لشکروہاں مختلف علاقوں میں رومیوں کے خلاف وسیع پیمانے پرکارروائیوں میں مشغول رہے۔ اس سلسلے میں آخرشدت کے ساتھ اس بات کومحسوس کیاگیاکہ ان تمام لشکروں کو یکجا کردیاجائے،چنانچہ اس سلسلے میں بتدریج ضروری اقدامات کئے گئے…اورپھراس بڑے اوریکجالشکرکی قیادت سنبھالنے کی غرض سے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت خالدبن ولیدرضی اللہ عنہ کوپیغام بھجوایاکہ وہ فوری طورپرعراق(یعنی سلطنتِ فارس)کے محاذسے ملکِ شام(یعنی سلطنتِ روم) کی طرف روانہ ہو جائیں …چنانچہ حضرت خالدبن ولیدرضی اللہ عنہ عراق کے محاذپراپنی جگہ حضرت مُثنّیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ کوسپہ سالار مقررکرنے کے بعدنہایت سرعت میں وہاں سے ملکِ شام پہنچے ،جہاں مسلمان اوررومی آمنے سامنے صف آراء تھے ،اورکسی بھی وقت طبلِ جنگ بج سکتاتھا۔
Top